پیشہ ور امتحانی فصلی بٹیرے
تحریر طاہر محمود آسی
امتحان ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی بڑوں بڑوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ اور دل لرز جاتا ہے اور احساسات کانپ اْٹھتے ہیں ازل سے امتحانات کا سلسلہ شروع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے امتحان لیا اور وہ کامیاب و کامران ٹھہرے عروج و زوال کی ہر داستان امتحان سے گزری ہے حضرت آدمؑ ، حضرت نوح ؑ ، حضرت لوط ؑ ، حضرت ایوبؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور پھرہمارے نبی حضرت محمد ﷺ خود امتحان سے گزرے ہیں۔ خلفا ئے راشدین امام کر بلا اور اولیا اللہ کو بھی کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا ہے۔ امتحانوں میں کامیابی کی بدولت آج اسلام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اگر ہمارے آباء ان امتحانات میں ناکام ہوتے تو آج ہم اس آسودہ حالت میں نہ ہوتے۔ زندگی کے ہر پہلو پر کسی نہ کسی طرح ان امتحانات میں کامیابی کی چھاپ موجود ہے اور نظر آتی ہے۔ یہ امتحانات کا وہ سلسلہ ہے جس میں کسی قسم کے امتحانی عملے کی ضرورت نہیں پڑی خود اللہ رب العزت نے ملائک کے ذریعہ سے ان امتحانات کا انقعاد کروایا ۔ فرشتوں کے کڑے پہرے میں ہماری تمام برگزیدہ ہستیاں کامیاب اور کامران ہوئیں۔ یہ سلسلہ ماضی بعید سے آج تک جاری و ساری ہے۔ دنیا وی تعلیمی امتحانات کی بات کی جائے تو یہ بہت عجیب و غریب شکل اختیارات کر چکے ہیں۔ یوں توطالب علم پر یپ نرسری سے امتحان میں سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر باقاعدہ آغاز جنوری فروری سے گورنمنٹ کے شیڈول سے شروع ہوتا ہے۔ پنجم ، ہشتم کیلئے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرتا ہے جبکہ میٹرک ،ایف اے کیلئے سیکنڈری تعلیمی بورڈ داخلے اور امتحانات کی تاریخوں کا اعلان کرتا ہے ۔بی اے اور ایم اے کی سطح کیلئے مختلف جامعات اپنے داخلہ فارم اور امتحانی تاریخوں کا اعلان کرتی ہیں۔ مختلف ڈگریوں اور سرٹیفیکٹ کیلئے ہونے والے امتحانات کا موسم دراصل فروری سے شروع ہوکر جولائی اگست تک رہتا ہے۔ اسکے بعد طلباء کو نتا ئج فراہم کیے جانے کا سلسلسہ شروع ہوجاتاہے ۔ یوں تو ہر موسم کا اپنا ایک مزہ ہے مگر پیشہ ور فصلی بٹیروں کیلئے اس موسم کا ایک الگ ہی لطف و سرور ہوتا ہے۔ امتحانات کیلئے سربراہ ادارہ سے فارم کی تصدیق کرواکر ہر سطح کے امتحانات کیلئے متعلقہ اداروں کو ارسال ہوجاتے ہیں۔ ترسیل کے بعد ایک آس اور امید بندھ جاتی ہے کہ اب میں امتحانی عملے میں شامل ہوچکا ہوں۔ کچھ اساتذہ ڈیوٹی کرنا پسند نہیں کرتے ہیں کیونکہ پسند اپنی اپنی اور خیال اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی۔
“پانچوں انگلیاں برابر تو نہیں ہوتیں میری جاں”
“سب پھول بھی گلداں میں سجائے نہیں جاتے”
سکولوں میں ہر طرف ڈیوٹی آئی ہے۔ نہیں آئی ہے۔ آرہی ہے۔ تیاری کرلو ۔رابطہ ہوچکا ہے۔ ہر صورت آئے گی۔ مس نہیں ہوسکتی جیسے جملے اساتذہ آپس میں اور موبائیل پر کرتے ہوئے عام نظر آتے ہیں ۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں حقیقت ہیں ۔ یہ وہ موسم ہے جس میں اساتذہ اپنے حقیقی طلباء سے جوان کے زیر سایہ تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ۔ تعلق کم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا والدین اپنے بچوں کو تربیت کے کسی مرحلے پر نظر انداز کرتے ہیں ۔ اگر نہیں تو ہمارے معلمین پٹری سے اْترے ہوئے کیوں ہیں؟ کیا روپے پیسے کی لالچ میں ایسا کرنا ان کا درست قدم ہے۔ہیڈمعلم اکثر و بیشراساتذہ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر سیاسی دور ہوتو پاور فل ہیڈ معلم کو بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ آئی ہوئی ڈیوٹی کو روکنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بعض اوقات اس پرلڑائی اور ناجائز چپکلش پر وان چڑھتی ہے۔ اور مدرسوں کے ماحول کو خراب کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ اگر انصاف کے دامن کے کو ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے مگر اکثر و بیشتر ایسا ہو گزرتا ہے۔سال ہا سال سے کئی ایسے لوگ ہیں جو آپکو ہر امتحان میں نظر آتے ہیں۔ اپنے سکول کے طلباء سے لا تعلق یہ لوگ ایسے تصور کئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ بورڈ انکا رشتہ دار ہے۔ اسی ناطے سے رشتہ داری پال رہا ہے۔ اگر ڈیوٹی نہ لگے یا کچھ دیر اندھیرہوجائے تو ایسے لوگوں کے پیٹ میں درد اور مروڑ اْٹھنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈیوٹی لگنے یا لگوانے کیلئے باقاعدہ سہولت کا روں ایک ٹیم ہمیشہ سر گرام عمل رہتی ہے۔ معذرت کے ساتھ اس عمل میں پیسے بھی چلتا ہے مگر خفیہ انداز میں بورڈ کا عملہ بھی پیسے والوں کا حیاء کرتاہے۔ کیونکہ پیسے کے بغیر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔بات کرنے کی یہ ہے کہ جو پیسہ خرچ کرکے ڈیوٹی حاصل کرتا ہے کیا وہ صرف ڈیوٹی کیلئے جارہا ہے یا کسی اور مقصد کیلئے صرف تعلقات کو پروان نہیں چڑھایاجاتا بلکہ جیبیں بھی گرم ہوتی ہیں اور ریسورنٹس کے کاروبار کو بھی تقویت ملتی ہے۔ کاروبار چلنے بھی چاہیے۔ معیشت کی مضبوطی کیلئے بھی ہمیں کردار ادا کرنا چائیے ۔ پیشہ ور امتحانی عملہ آپکو ہر چھوڑٹے امتحان سے لیکر بڑے امتحان تک اپنے فرائض نبھاتا ہو انظر آئے گا۔ یوں کہیے کہ یہ لوگ آپکو ٹیکنیکل بورڈ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے امتحانات میں بھی نظر آئیں گے۔ ان لوگوں کا سکولوں سے رشتہ کم اور امتحانوں سے رشتہ کچھ زیادہ استوار نظر آتا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ شاید اس لئے کہ امتحانات لینے کیلئے کسی ڈگری جاری کرنے یا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے ادارے کے پاس کوئی عملہ موجود نہیں ہے۔ ہر ادارے کو اس کیلئے سوچنا پڑے گا اور ایک مضبوط نظام کو متعارف کروا نا ہوگا۔ جس سے اداروں کی عزت اور ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ اس عمل سے کئی ہے روز گاروں کو روزگار مل جا ئیگا اور کئی گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں گی۔ وطن کی تعمیر وترقی کیلئے کوشش کرنا ہر ادارے کی ذمہ داری ہے۔ امتحانی موسم سے وابسطہ بوٹی مافیا کی تحریک کا ذکر نہ کرنا بھی بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ بوٹی مافیا کی تحریک سے وابسطہ لوگوں کا اکثر ناطہ تعلق پال گروپ سے ہوتا ہے مگر ذہن میں آنے والے مزید عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ گروپ عملہ امتحان کو کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کرنے میں اکثر کامیاب ہوجاتا ہے کیونکہ قربتوں کو بڑھنا چائیے اور نفرتوں کو ختم ہونا چائیے ۔ قربتوں کو بڑھانے میں محکمے کا کلریکل سٹاف اور دوسرے چھوٹے اہل کارپیش پیش ہوتے ہیں مگر اس معاملے کی سر کوبی اور سد باب کیلئے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی خدمات کا ذکر نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ موجود ہ حکومت خاص توجہ دیکر اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جو بھی اچھا کام کرے گاا اْس کی تعریف نہ کرنا مجر مانہ فعل کے متراف ہے۔ ویسے بھی یہ حکومت میرٹ کو تقویت اور کرپشن کو ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ اب اسے بھی تمام سوالات کا جوب ڈھونڈنا ہوگا۔ جو اس نظام امتحان پر اْٹھتے ہیں ۔یہ موسمی پرندے جو امتحانات کے موسم میں چار سو نظر آتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔محکمے کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ہی ان کو ذمہ دا ری نبھانے کیلئے اس عمل میں شامل کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے لوگوں کو سامنے لایا جائے مگر ان کی کمی ہے ۔ بات اْس وقت بگڑ جاتی ہے جب خفیہ کالوں پر عمل در آمد کروانے کیلئے قانون اور ماحول کی خفیہ انداز میں دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ قانون کے مطابق ہونے والا ہر فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہو۔ ہمیں ایسے حالات میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے ۔ ہمارے ایک ساتھی اور دوست اس قسم کے حالات سے نمٹنے میں بڑا ماہرانہ پن رکھتے تھے اللہ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ بہت کم ایسے لوگ دیکھے ہیں ورنہ وہ لوگ بھی زیر نظر ہیں جو چابیاں جیبوں میں ڈال کر امتحانات کے بعد اپنے تعلیمی اداروں میں واپس لوٹتے ہیں۔ حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ اور تلخ حقیقتوں سے سبق سیکھ کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جب تک پیشہ ورفصلی بٹیروں اور تعلق پال گروپ کی عمل داری اس امتحانی میں عمل رہے گی۔ ہم حق دار کو اْسکا حق پہنچانے میں کامیاب نہیں ہونگے حکومت کیا نہیں کرسکتی سب کچھ اس کے اختیار میں ہے۔ ہر کسی کو میرٹ پر رکھنے اور آگے لانے کا نظام جب سفارش اور پیسے کی لین دین سے پاک ہو جائے گا تو ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔ غریب طالب علم کو اسکاحق ملے گا۔ بین الاقوامی طور پر ملک و ملت کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا۔ بہت کچھ ہم تعلیم کے ساتھ کر چکے ہیں مگر مزید نہیں ہونا چائیے ۔ ہمیشہ حق اور سچ کی فتح ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران نیک ارادوں کے ساتھ اور کچھ کر گزرنے کا عزم لیکر اقتدار تک پہنچے ہیں ان سے ہمیں بہت امیدیں ہیں بطور مسلمان ہمیں کسی بھی مرحلے پر نا امید نہیں ہونا چاہیے نیک نیت افسران کا تقرر اور درد دل رکھنے والوں کا تعاون سارے نظام کو بہتر کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوسکتاہے۔
جستجو سے تجھے مل جائے گا
ہر دور میں اْلجھن کا حل رہا ہے
Leave a Reply