پیاسے دلوں کے نظاروں کا موسم

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مہوش احسن
کبھی کبھی انسان نہ سہی استاد نہ سہی نیچر ایفیکٹ بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔اور اگر بندہ لکھاری ہو تو پھر سمجھو زمانے بھر کو ابھی چند پلوں میں absorb کر لیتا ہے ایسا ہی ایک سکوت لے کے آئی ہوں میں اپنے اندر ایبٹ آباد کی سفید دھنک ٹھنڈیانی سے آہ ٹھنڈیانی سحر آنگیز اور قدرت کے نظاروں سے بھری برفیلی وادی ہے ایک ، جہاں کے ماحول و نظارے اداس دلوں کو پُر سرور کرنے پر قادر ہیںیقیناً ایک ایساانسان جو مشینی زندگی سے اکتا گیا ہو اس کے لئے یہاں بہت سے ایسے قصے اور نظارے موجود ہیں جس سے اس کی زنگ آلود زندگی کو سرمستی کی ایک شام میسر ہو جائے دور دور برف سے ڈھکے پُر غرور بلند و بالا پہاڑوں کے چوٹیاں ہوں یا پھر ان صدیوں سے موجود گلیشیئر سے رستا ہوا یخ بستہ پانی جو ندیوں کی صورت میں گنگناتا اور ایک دل موہ لینے والا نغمہ سناتا ،رواں دواں ہوتا ہے ۔گھر کا ماحول انتہائی گرما گرمی پکڑے ہوئے تھا میرا دل چاہ رہا تھا نکل جاؤں دور کہیں بیابانوں میں بہت بے چین حالت تھی عجیب سی وحشت طاری تھی یہ دنیا اچھی ہی نہیں لگ رہی تھی غائب ہو جانا چاہتی تھی منظر سے میں کے اچانک ایم ایم علی سر کی کال آئی ہاں تو پھر کیا پروگرام ہے ابیٹ آباد کا میں نے بنا ایک لمحہ سوچے ڈن کہہ دیا دو دن کے بامشکل صبر کے بعد وہ صبح آن پہنچی تھی مجھے آج گھر بھی اچھا لگ رہا تھا اور ابھرتا ڈوبتا یہ سورج بھی دل تھا کے عجب اٹھکھیلیاں مچائے ہوے تھا بس آنکھیں ترس رہی تھیں نظاروں کی دلکشی کو دیکھنے کے لیے۔
وقت کے مطابق ایم ایم علی سر کے ہمراہ میں ٹرمینل پہ موجود تھی بے چینی عروج پکڑے ہوئے تھی رفتہ رفتہ گھڑیاں بیت رہی تھیں اور ہماری ٹیم اکھٹی ہو چکی تھی یو ں تو (APWWA) جو لکھاریوں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جو مختلف تفریحی اور تاریخی مقامات کا وزٹ رکھتی رہتی ہے مگر یہ پہلی بار تھا کہ سخت سردی میں کسی ایسے علاقے کا وزٹ کرنے جارہی تھی جو ان دنوں شدید برف باری کی لپیٹ میں تھااس با رسخت سردی میں ٹھنڈیانی کی برف کے آغوش میں جھومنے جا رہے تھے میرے ساتھ باقی کے ٹیم ممبرز بھی بہت پرجوش نظر آ رہے تھے مسکراہٹ ہونٹوں پہ اس بار چپک گئی تھیں سفر جاری ہو چکا تھا خواہشوں میں نہائے موسم کی طرف رواں دواں گاڑی میں حفصہ خالد کے گنگنائے گانوں نے مزا دوبالا کر دیا تھا سر طاہر درانی جان بنے ہوئے تھے محفل کی۔ فاطمہ خان شیروانی کی پناہ نے سب کو جوڑ کے رکھا ہوا تھا، سر ایم ایم علی کی سرپرستی ہمارے لیے اعزاز تھی ہم انکی موجودگی میں خود کو محفوظ محسوس کر رہے تھے ،فلک زاہد کے منفرد انداز نے ہمیشہ کی طرح ہمیں اسکی طرف کھینچا تھا، قراۃ لعین خالد ہر دل عزیز بنی ہوئی تھیں ۔یہ لکھاریوں کا دل سے سوچنے والوں کا گروپ ہے جو جب بھی ملے گا ارمانوں کو نئی امنگ دے گا ہنستے گاتے بس سے باہر کے نظارے دیکھتے رات آہستہ آہستہ مسکراتے ہوئے کھسک رہی تھی ہلکی ہلکی بوندا باندی نے نظروں کو وہ سکون بخشا تھا کے دل کا موسم کھل کے رات کی رانی کی طرح مہک اٹھا تھا یہ محبت گذیدہ لوگوں کا کارواں تھوڑی دیر پڑاؤ کے لئے کلرکہارکے خوبصورت مقام پر رکا ابھی رکے ہی تھے کہ تھوڑی دیر ایک بہت حسین یادوں سے ہموار راستے پہ جگمگاتے ہوٹل پہ پوچھا گیا کیا چائے پیو گے میں ہنس رہی تھی عادت سے مجبور نا ہاں کر سکی نا ہی نا. کیسے کرتی میری نظریں ٹھر سی گئی تھیں اندھیری رات میں ڈوبی اس سنسان پر خاموش روڈ پہ جہاں وقت گزرا تھا کبھی میرا میرے ان خوشگوار دوستوں کے ساتھ میری ہنسی اور تیز ہوگئی قہقہ درد کی شدت کو بڑھا دیتا ہے اچھا چائے آ گئی تھی بہت محبت سے پیالہ ھاتھ میں تھامہ لگا امرت چڑھ گیا ہے ھاتھ ایک گھونٹ بھری تو لبوں نے بے ساختہ کہا اب یہ بے وفائی میں شمار ہوگا تیرے ہونٹ جو لگے کسی گلاس پہ،دل نے ضد پکڑی آج نہیں آج نہیں، نہیں ہونے دینا سوار اسکو جو موجود ہی نا ہو زندگانی میں میرا دل چیختا رہا نہیں نہیں زباں بولی چائے میں شکر زیادہ ہے۔اب پی نہیں جانی پیتی بھی کیسے میں وہاں کھڑی تھی جہاں نیلاواہن کی دلکشی کا سفر شروع ہوا تھا،کلرکہار کارواں رکا کچھ محبت گزیدہ لوگوں کا میں نے اس خوبصورت ہجوم کو دیکھا اور سکون دہ سانس بھری ابھی بھی امید باقی تھی تھوڑی دیر کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ،ہم ساڑھے چار ایبٹ آباد کی سڑک پہ کھڑے تھے اس شہر نے سکون کی ایک چادر اوڑھ رکھی تھی تھوڑی دیر ایک ڈھابے پہ آرام کیا اور ناشتہ کیا اسکے بعد ہمارا Stayفلک زاہد کی خالامسز میجر شہباز نے ہمارا ویلکم باہیں پھلا کے کیا تھا ، صبح ہوتے ہی ہم ٹھنڈیانی کے لیے نکل چکے تھے جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھ رہی تھی آنکھیں حیران سے حیران تر ہوتی جا رہی تھیں اتنی خوبصورتی اتنی جیسے ایک نئی نویلی دلہن ملبوس ہو سفید ہرے رنگوں میں اتنے گھنے اور خوبصورت درخت مانو اپسرا کی کالی سیاہ زلفیں خدا کی قدرت اپنے ہونے کا چیخ چیخ کے ثبوت دے رہی تھی اور دل سے بس ایک ہی آواز نکل رہی تھی 
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے۔تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے۔یہ پہاڑ تھے کے اپنے اندر حسین ترین رنگ بھرے ہوئے تھے پتھروں کے کیا کیا رنگ نمایاں تھے درخت بھی کچھ ایسا ہی جھوم رہے تھے ہم ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ٹھنڈیانی بلآخر پہنچ چکے تھے چاہت تکمیل پا رہی تھی میرے تو حواس بحال ہی نہیں رہے تھے با خدا اتنی حسین اتنی پیاری کرشماتی سفیدی سے بھری جنت سے کم جگہ نہیں تھی یہ ہر طرف مسکراتی چمکتی اور سو افسانے بنتی برف ہی برف تھی نظریں منجمند سی ہو گئی تھیں نا ٹھنڈ کا احساس رہا تھا نہ کچھ اور بس میں دیکھے ہی جا رہی تھی کیا سکوت تھا کیا خاموشی تھی وہاں کے بیاں سے باہر ہے ہم خوب کھیلے برف سے لوگ پہاڑوں سے اپنے پیاروں کا نام سنتے ہیں میں برف کے پہاڑوں میں زور زور سے اپنے پیاروں کو پکار رہی تھی سیم زاہد سر زاہد آفتاب بھائی احسن جیسے ہی یہ آواز گلے سے اتری اپنے ہی اندر کچھ پایا میں نے سکون ایک ایسا سکون جو مجھے خاموش کر گیا اتنا کے میں پانی کی طرح نرم ہو گئی ، غزلیں گائی گئی
بون فائیر کا لطف بھی اٹھایا گیا اور پھر اگلی صبح گلیات نتھیا گلی کا رخ پکڑا اسے اس قافلے نے نتھیا گلی کی تو شان ہی نرالی ہے پھر ہیوی قسم کی سنو فال دیکھی وہاں ایسا لگتا تھاکہ دل سے برف نے خوشآمدید کہا ہو وہاں سے ہوتے ہوئے خانپور ڈیم کے نیلے پانی نے کھینچ لیا ہمیں ،پانی گہریاؤں میں کئی شکوے کئی درد کئی یادیں ڈوبو آئی میں، اسکے بعد اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اسلام آباد فیصل مسجد کا رخ لیا گیا یا الہی تیری قدرت کے یہ جلوے کمال ہیں اتنے کے بندہ یہ دیکھ کے مر بھی جائے تو غم نا ہو آج بھی وہ درختوں کی لہراتی بلکھاتی ٹہنیاں ذہن پہ سوار ہیں چمکتی موتی جیسے انمول شبنم بس بھگو رہی ہے ٹھنڈیانی کا سکون اب اندر تک جکڑے ہوئے ہے اور میں اس سحر سے نکلنا چاہتی بھی نہیں۔
سب چھوڑے جا رہے تھے سفر کی نشانیاں 
میں نے بھی ایک دلکش نقش بنایا برف پہ

Short URL: http://tinyurl.com/y5carqyw
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *