پانامہ لیکس اور مداری

ٓ تحریر: ذوالفقار خان
آج کل ہر پاکستانی وہ چاہے کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، کی زبان پر پانامہ لیکس کا ذکر موجود ہے۔ ٹی وی اینکر ہوں،کالم نگار یا سیاسی کارکن ہر ایک اسی معاملے پر چوپال سجائے بیٹھے ہیں۔اور تو اور بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ،سب کے سب حسب مقدور اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔میں نے بھی کافی عرصہ سے کالم نگاری سے ہاتھ کھینچا ہوا تھا۔ اور اب دوبارہ سے لکھنے کا قصد کیا تو سوچا کیوں نہ اسی موضوع کو تختہ مشق بنایا جائے۔ تو لو دوستو آج پھر اسی موضوع پہ لب کشائی کی جرات کرتا ہوں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارپاکستان تحریک انصاف کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے حکمران جماعت کو عدالتی کٹہڑے میں لا کھڑا کیا ہے۔میں آج جو بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ عدالت کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ کیا ثبوت وشواہد پیش کئے جا رہے ہیں، ان پر کیا دلائل دئے جا رہے ہیں اور ججز کیا ریمارکس دے رہے ہیں۔کیس کس کے حق میں جا رہا ہے۔ اور کس کے خلاف، میں اس میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں ان مداریوں کی بات کرنا چاہتا ہوں جو عدالت کے باہر احاطے میں ڈگڈگی لئے مہربانو ، قدر دانو کی آوازیں لگاتے عوام الناس کو بیوقوف بنانے میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔
ہر مداری اپنی ڈگڈگی بجا کے اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔ جن پر مقدمہ چل رہا ہے وہ ٹھنڈا دودھ پی کے مزے کی نیند سو رہے ہیں۔ وہ خود میڈیاپہ آ کے اپنا موقف نہیں دیتے۔ان کے نمک خوار آتے ہیں اور دھواں دھار بیانات جو کہ زیادہ تر مغالطوں ، مفروضوں اور
سو فیصد ان کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتیں ہیں۔ اور بعض اوقات تو لگ
رہا ہوتا ہے کہ وہ عدالت عالیہ کو ڈکٹیشن دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ فیصلہ اس طرح آنا چاہیئے۔ ان کے انداز اور جوش چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کہ وہ عدالت عالیہ کو راہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے کیا فیصلہ دینا ہے۔
حکومتی وزراء اپنے اپنے محکموں کو بھول کر صرف اور صرف وزیراعظم اور ان کی فیملی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ریلوے کے وزیر اس حد تک لاپرواہ ہو چکے ہیں کہ ان کی منسٹری کے انڈر ریلوے کا کیا حشر ہو چکا ہے۔ آئے دن ریلوے پھاٹکوں پر حادثات ہو رہے ہیں۔قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ ٹرینوں کے حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ریلوے جائے بھاڑ میں۔ اور سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر ان کا بیان مس نہ ہو جائے۔کیوں کہ یہ بیان ہی ان کی شریف خاندان سے وفاداری کا ثبوت ہے۔ جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیئے ہیں۔ ان کے کام نہیں ہوتے تو نہ ہوں۔پورا محکمہ ریلوے ڈوبتا ہے تو ڈوب جائے۔ٹکٹ تو انہوں نے توشریف فیملی سے لینا ہے۔ اور عوام کو تو بس انہوں نے بیوقوف سمجھ رکھا ہے۔وہ انہیں ٹکٹ دیکھ کر ووٹ دے دیں گے۔
اسی طرح انفارمیشن منسٹر ہیں۔ اور وہ ایسے ایسے مضحکہ خیز بیانات جھونک رہی ہوتی ہیں۔ کہ بچے بھی آج کل ان کی تقریریں شوق سے دیکھتے ہیں۔ کہ لطیفے سنانے والی آنٹی آئی ہیں۔ کیونکہ وہ جو ایک روز پہلے بیان دے چکی ہوتی ہیں اس کو بھول چکی ہوتی ہیں۔صرف ایک بات کا رٹا لگایا ہوا ہے۔ کہ شریف خاندان بے گناہ ہے۔ اسی طرح کچھ احباب جو مستقبل میں خود کو وزیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو ہر حد پار کر رکھی ہے۔لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ وہ مجھے تو موجودہ دور حکومت میں وزیر بنتے نظر نہیں آتے۔
اسی طرح اپوزیشن کی طرف سے بھی آسمانوں کے قلابے ملانے والوں کی کمی نظر نہیں آتی۔ وہ بھی نت نئے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک وہ بھی اپنے مقدمے کے حق میں کوئی ایسا ثبوت پیش کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں جو عدالت عالیہ کو کسی فیصلے پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
بس ایسا لگتا ہے کہ دونوں اطراف سے زبردست قسم کی بمباری جاری ہے۔ جس میں ہر دو فریقین اخلاقیات کی دھجیاں اڑائے جا رہے ہیں۔کسی کو کسی کی عزت نفس کا ،بلکہ میں تو کہوں گا کہ اپنی بھی عزت کا پاس نہیں ہے۔ایک ہی مطمع نظر دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح فریق ثانی کو ذلیل کیا جا سکتا ہے۔
میری آخر میں سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے باہر اس مجمع پر پابندی لگا دی جائے۔تا کہ عوام کے ذہنوں میں جو عدالت عالیہ کے بارے میں شکوک و شبہات ابھارنے کی کوشش یہ مداری اپنی اپنی ڈگڈگی بجا کر ابھار رہے ہیں۔ ان کا قلع قمع ہو سکے۔اور اگر عدالت ضروری سمجھے تو اپنا کوئی آفیشل نمائندہ مقرر کر دے، جو کہ عدالتی کارروائی کے بعد مختصر اور ضروری اطلاعات میڈیا بریفنگ کی صورت میں دے دیا کرے۔اور ان بیچارے مداریوں کو شاید اپنے اپنے محکموں کو دیکھنے کا وقت مل جائے۔ اور کچھ عوام کا بھی بھلا ہو جائے۔