مکافات عمل

ڈاکٹر فوزیہ عفت بھٹی، لیہ
زینب اٹھ جا بچی نماز کا وقت ہو گیا ۔مولوی عبدالکریم اپنی ٹوپی سنبھالتے مسجد جاتے جاتے اسے جگاتے گئے۔آں اچھا ابو وہ اوں آں کرکے پھر سو گئی۔جب وہ واپس لوٹے تو اسے پھر سے سوتے پایا ۔زینب نماز قضا کر دی یہ اچھی بات نہیں انہوں نے کچھ سختی سے تنبیہہ کی ۔ابو پڑھ لی ہے میں نے نماز وہ تھوڑا تنک مزاجی سے بولی سلیپر گھسیٹتی کچن کی طرف بڑھ گئی اور ناشتہ بنانے لگی ۔ابو کچھ پیسے دے دیں میں نے راشدہ کے ساتھ بازار جانا ہے ۔وہ لاڈ سے ٹھنکی ۔اچھا بیٹا یہ لو انہوں نے پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ پہ رکھا۔ابو اتنے سے اس نے خفگی سے پانچ سو کے نوٹ کو دیکھا ۔مولوی عبدالکریم نے نظر اٹھا کر زینب کو دیکھا ایک لمحے کے لیے انہیں احساس ہوا ننھی زینب اب بڑی ہو گئی ہے انہوں نےنظریں جھکا لیں اور جیبیں ٹٹولیں ایک مڑا تڑا سا پانچ سو کا نوٹ جو سودا سلف کے لیے رکھ چھوڑا تھا زینب کے ہاتھ پہ دھر دیا اور صافہ کندھے پہ ڈالتے ہوئے ملحقہ مسجد کی طرف چلدیے جہاں سے بچوں کے قرآن پاک پڑھنے کی آوازیں آرہی تھیں۔بھائی ہم اس سوٹ کے پانچ سو ہی دیں گے راشدہ نے سوٹ پہ پسندیدگی کی نظر ڈالی ۔نہیں آپی اتنے کی تو خرید ہی نہیں دکاندار بضد تھا مگر راشدہ بھی اپنے نام کی ایک تھی اسی رٹ پہ قائم۔زینب اکتا گئی وہ اب تک خاموش تھی ۔چلو بھی اب وہ نہیں دے رہا تو کیوں لڑ رہی ہو کہیں اور سے لے لو ۔دکان میں داخل ہوتا ہوا احمد آواز کے سحر میں ڈوب سا گیا آواز کی تلاش میں اس کی نظر ایک برقعہ پوش پہ پڑی اس کے خوبصورت ہاتھ اور پھر کالی چپل میں مقید ان خوبصورت کبوتروں پہ ٹھہر گئی کس قدر خوبصورت تھے اس کے ہاتھ پاؤں ۔چہرے کی تلاش میں نظر اٹھائی تو سبز آنکھوں کے سوا کچھ نہ دیکھ سکا لمحے بھر کو نگاہ ملی مد مقابل نے گڑبڑا کر نظر جھکا لی احمد کا دل یکبارگی دھڑکا۔وہ مونچھوں تلے زیر لب مسکرایا۔اور انور کی طرف بڑھ گیا جانے کیا کھسر پھسر کی کہ اس نے سوٹ شاپر میں ڈال کے اسے تھما دیا ۔یہ لیں اس نے شاپر زینب کو نگاہوں کے حصار میں لیے تھمایا ۔راشدہ نے مسکراہٹ دبائی اور زیرک نظروں سے احمد اور گھبرائی زینب کو دیکھا اور پیسے پکڑائے ۔یہ سوٹ اس شرط پہ آپ کو دے رہا ہوں کہ آئندہ آپ یہیں سے کپڑے لیں گی۔اس نے سبز کنچوں میں نگاہیں گاڑیں۔جی بلکل ہم اب آپ کے پکے گاہک ہیں میں اگلے ماہ بھائی کی شادی کی ساری شاپنگ یہیں سے کروں گی۔راشدہ نے بے تکلفی سے کہا اور اس گم سم وجود کا ہاتھ تھامے باہر نکل آئی۔راشدہ کی تیز طراری کی وجہ سے احمد آگے بڑھتا گیا اور آج وہ اسے اور احمد کو ایک کیفے میں بٹھا کر ساتھ والے کیبن میں بیٹھ گئی۔گھبرائی زینب اور احمد کی بے تاب نظریں اس نے زینب کا ہاتھ تھام لیا مضبوط گرفت کی زبان اور زینب کے دل کی دھڑکن یکجا ہو گئی۔زینو وہ بے تابی سے پکارا مجھے تم سے شدید محبت ہے میں اپنی خالہ کو تمہارے ابو کے پاس بھیجنا چاہتا۔خدارا اب اپنا چہرہ تو دکھا دو ۔زینب نے نقاب کھسکایا اور احمد نے وارفتگی سے اسے دیکھا بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی۔آتش عشق کام تمام کر چکی تھی عقل ماتم کرتی پس پردہ چلی گئی اور دل مسکراتا ہوا اس کے تخت پہ براجمان ہو گیا ۔اندھی محبت وار کر چکی تھی۔احمد کی خالہ نے احمد کے مجبور کرنے پہ مولوی عبدالکریم کے سامنے دامن پھیلایا۔اس دن مولوی صاحب کو احساس ہوا بیٹیاں کتنی جلدی بڑی ہوجاتی ہیں زینب کی ماں کو گئے زمانہ بیت گیا۔بظاہر احمد میں کوئی خرابی نہ تھی والدین تھے نہیں بیوہ خالہ نے پالا پوسا مکان اپنا تھا دکان تھی۔بحرحال انہوں نے کچھ وقت مانگا۔صدیق علی عبدالکریم کے پاس بیٹھے تھے اس انکشاف نے مولوی صاحب کو گم سم کر دیا کہ احمد فرقہ قادیانی سے تعلق رکھتا تھا۔لاحول ولا قوت پڑھتے ہوئے انہوں نے انکار بھجوا دیا۔زینب تو دیوانی ہو گئی تھی اس کی نظر میں محبت اہم تھی کم عمری سمجھداری کے آگے آڑ بن گئی اور ایک شام وہ چپکے سے احمد کے ساتھ کراچی چلی آئی۔نہ باپ کی محبت پاؤں کی زنجیر بنی نہ مذہب ۔احمد کے دوست کے فلیٹ میں قیام کیا ۔احمد کو اپنی تذلیل کا دکھ کھا رہا تھا دو دوستوں کی موجودگی میں نکاح کیا ۔ایک ماہ کس طرح گذرا پتہ ہی نہ چلا ۔ایک دن زینب سو کے اٹھی تو احمد کو غائب پایا۔وہ بہت پریشان ہوئی دس بجے ریاض اور رشید آگئے جن کے بتانے پہ اسے علم ہوا کہ وہ فروخت ہو چکی ہے نکاح مولانا گواہ سب ڈرامہ تھا یہ اس انکار کا بدلہ تھا اب وہ ان کی ملکیت ہے ۔زینب بکتی رہی اور سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ۔وہ اسے اپنے اعمال کی سزا کہتی ۔سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گئی۔اور آج وہ کینسر وارڈ میں لاچار پڑی تھی۔سوچ کا دریچہ اس مقام پہ آ کر رک گیا۔وارڈ میں کوئی نیا مریض تھا شاید تیماردار اس کے گرد کھڑے تھے چیک والا رومال لہرایا شناسا سی خوشبو اس کی روح میں اترتی چلی گئی ابو۔ لفظ زبان پہ آکر منجمند ہوگئے باریش شخص اس مریض کو تسلی دے رہا تھا۔بلا شبہ وہ مولوی عبدالکریم تھے جھکی کمر کے ساتھ دس سال کا فاصلہ گویا بیس سالوں پہ محیط ہوگیا ۔یکباری نگاہوں کی تپش یا خون کی کشش وہ مڑے اور ششدر رہ گئے شناسائی کی معدوم سی جھلک بہتے آنسو تھرتھراتے لب وہ جان گئے کہ وہ کون ہے زینب نے اپنے مخننی وجود کو سنبھالتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے ۔ابو معاف کردیں۔بغیر بالوں کے سر پہ اسکارف ۔سیاہ رنگت کمزور چہرہ وہ کینسر کی آخری سٹیج پہ کھڑی تھی ۔مولوی عبدالکریم نے اسے اپنے سینے سے۔لگا لیا اور پھوٹ۔پھوٹ کر رونے لگے زینب کی سسکیاں بلند۔ہوئیں ابو مجھے معاف کر دیں وہ ایک ہی جملہ دہرائے جا رہی تھی ۔مولوی صاحب نے اس کا سر کاندھے سے لگا کر تھپکا میری بچی۔آپ نے مجھے معاف کر دیا ناں ؟ ہاں میری بچی زینب کی سسکیاں تھم گئی اور خاموشی چھا گئی ۔مولوی صاحب چونکے ۔اور انا اللہ پڑھ کر سر جھکا لیا۔مولوی صاحب قبرستان میں داخل ہوئے تو دور سے کوئی زینب کی قبر پہ بیٹھا دکھائی دیا قریب جانے پہ کوڑھ زدہ وجود ہلا ۔اف خدا مولوی صاحب کی روح کانپ گئی ۔احمد روتا کرلاتا اپنے زخموں سے رستے خون اور پیپ سے۔بے پرواہ بھاگتا ہوا باہر چلا گیا۔مولوی عبدالکریم نے نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی بے شک تو انصاف اور خوب بدلہ لینے والا ہے۔
Leave a Reply