ملالہ اب خلا میں بھی

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک سارچے کا نام پاکستان میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی طالبہ اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر رکھا ہے۔
اس سیارچے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ’پرنٹر ٹونر‘ یعنی سیاہی کی طرح سیاہ ہے اور ملالہ شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکیں تاہم اس کی موجودگی ایک خوش آئند خیال ہے۔
برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسفزئی پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کو حاصل ہونے والے اعزازات کے مقابلے میں اس سیارچے کا سائز زیادہ بڑا نہیں، جو چار کلومیٹر پر مشتمل چٹان کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہ سیارچہ مریخ اور مشتری کے درمیان واقع سیارچوں میں سے ایک ہے اور سورج کے گرد ساڑھے پانچ برس میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ یہ غیر معمولی اعزاز ناسا کی ایمی مینزر کے توسط سے سامنے آیا ہے، جنھوں نے یہ 316201 نامی سیارچہ سنہ 2010 میں دریافت کیا تھا۔

فلکیات کی بین الاقوامی یونین کے قوائد کے مطابق ایمی مینزر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سیارچے کو اپنی پسند کا نام دیں سکیں اور انھوں نے اس کا نام منتخب کر کے ملالہ یوسفزئی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ملالہ فنڈ بلاگ کے لیے تحریر میں انھوں نے کہا کہ وہ اس اقدام سے نوجوان خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھیں۔ ’ہمیں انسانیت کو درپیش مشکل ترین مسائل کے حل کے لیے تمام ذہین لوگوں کی ذہنی صلاحیت درکار ہے اور ہم نصف سے زیادہ آبادی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘

اکتوبر 2012 میں ملالہ کو پاکستان کی وادیِ سوات میں نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ ایک سکول وین میں سوار تھیں۔ وہ بی بی سی اردو کی ایک ڈائری میں منظر عام پر آئی تھیں جس میں پاکستانی طالبان کے زیراثر علاقے میں عام زندگی اور خواتین کے حقوق اور تعلیم کا احاطہ کیا گیا تھا۔ برطانیہ میں علاج کے بعد انھیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا جب انھوں نے اقوام متحدہ سمیت مختلف مقامات پر تعلیم کے حق کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ انھوں ان کی خدمات کے عوض مشترکہ طور پر نوبیل انعام دیا گیا تھا اور وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اُردو)
Leave a Reply