مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: علی حسنین تابشؔ
اسلام ایک آفاقی انقلاب آفریں مذہب بن کر آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسلامی نظام ہائے زندگی کا ایسا جامع مدلل اور کامل دستورپیش کیا جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اوراُسی کے ذریعہ آپ ﷺ نے ہمہ گیر ایمانی ،فکری ،علمی ،تمدنی ،سماجی اورسیاسی انقلاب برپا کیا۔اسلام نے نہ صرف عربوں کی اصلاح و تربیت کرکے ان کو تحت الثریٰ سے اوج ثریا تک پہنچایا بلکہ عربوں نے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺکی تحریک اصلاح کو دُنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچانے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا۔یہاں تک کہ اسلامی تعلیمات جزوہ نمائے عرب سے نکل کر یورپ وافریقہ اور ایشاتک پہنچ گئیں ،چوں کہ مذہب اسلام آخری اورعالمی دین ہے ،لہذا اس نے زمان و مکان ،رنگ و نسل ،قوم وعلاقہ سے بلند ہو کر پوری انسانیت پر اپنے اثرات مرتب کیے۔اسلامی تہذیب اور قرآنی تعلیم نے بین الاقوامی سطح پر ہر قوم و ملت کو متاثر کیا۔علوم و فنون،تہذیب وتمدن اور ایجادات و تحقیقات کے میدان میں ایسے نابغہ روزگار ،باکمال افراد اُتاریجن کے حیرت انگیز کارناموں نے دُنیا کو غرق حیرت کر دیا۔مسلمانوں نے ایک طرف ایمان و یقین کا ایسا مظاہرہ کیا کہ فرشتوں کو بھی رشک آنے لگا تو دوسری جانب ایسے ایسے علوم و فنون ایجاد کیے اور تحقیقات و اکتشافات کے نمونے پیش کیے کہ اقوام عالم ان کی خوشہ چینی پر مجبور ہو گئیں۔
فارس کے لوگوں نے جب اسلام قبول کیا اور اپنی اصلاحیت ولیاقت سے دربار خلافت میں بلند مرتبہ پایا تو علماء فارس نے ترجمہ کے میدان میں اہم کارنامے انجام دیے۔عبداللہ بن المقفع نے کلیلہ و منہ جیسی اہم ادبی کتاب کو فارسی سے سلیس فصیح رواں عربی میں منتقل کیا،جس پر ترجمہ کا گمان تک نہیں ہوتا تھا اس کے علاوہ منطق و طب کی بعض اہم کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا ہے ۔فلسفی ابو یوسف یعقوب نے بھی کتابوں کے تراجم بھی تالیف میں اعلی پیمانہ پر کام کیا ہے ۔سچ تو یہ ہے ترجمہ و تالیف کی علمی و فکری تحریک مامون کے زمانہ میں خوب پروان چڑھی۔مشہور مستشرق کارل بروکلمان کہتا ہے کہ ابو یوسف یعقوب نے ترجمہ کے ذریعہ ارسطو اور افلاطون کے فلسفے سے اپنے ہم وطنوں کو متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ اس نے فلسفہ پر کتابیں بھی تالیف کیں (بحوالہ المامون خلیفہ العالم ص:۱۱۶،از محمد مصطفی ہدارہ)
علم فلکیات میں مسلمانوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔اس فن میں اُنھوں نے کافی ترقی کی تھی ۔عباسی خلیفہ مامون الرشید نے بغداد میں بیت الحکمتہ قائم کیا تھا ،جس میں ہزاروں نادرو نایاب کتابوں کے علاوہ ایک فلکی درس گاہ بھی بنائی تھی ۔جس میں ماہرین فلکیات کا ایک گروہ ستاروں کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھتا تھااور اس نے ستاروں کی چال معلوم کرنے کے لیے خبر بھی تیا رکی تھی اور زمین کے حجم کو ناپنے کا آلہ بھی تیارکیا تھا ۔زمینی و فلکی دوریاں ناپنے کے لئے جن مسلم سائنسدانوں نے آلہ تیار کیا تھا اس میں سر فہرست خالد بن عبدالملک مروزی ۔سند بن علی اور علی بن عیسیٰ اضطرلابی ہیں اور بیت الحکمۃکا سربراہ و نگراں یحییٰ بن ابی منصور اس ٹیم کا صدر تھا اور رات دن کی عرق ریزی کے بعد۲۱۵ھ تا ۲۱۷ھ کے درمیان بغدادکے جبل کا سیہ اور دمشق کے جبل قاسیون پر اضطراب (فلکی آلہ)کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔علم فلکیات کے ماہرین میں موسی بن شاکر ،ابو معشربلخی اورثابت بن قرہ اور بیرونی وبوزجانی کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور ان کی کتابوں کا لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہوا جس سے یورپ نے بھرپور استفادہ کیا۔
مسلمانوں نے علوم طب پر اہم ترین تصنیفات سے دُنیا کو مالا مال کیا ہے ۔ابن سینا نے فن طب میں ’’القانون‘‘جیسا انسائیکلو پیڈیا تیا ر کر دیا ۔اس میں عرب ،یونان اور سریان واقباط کے طبی اُصولوں اور علوم کو جمع کیا ہے پھر اس نے اپنے تجربات بھی تحریرکیے ہیں ۔۷۶۰دواؤں کی تشخیص کی ہے القانون کو گیر ارڈکر یمونانے لاطینی زبان میں منتقل کیا ۔۔علی ابن عباس ’’وفات۹۹۴‘‘کی مشہور کتاب الملکی فی الطب یورپ میں چھ صدی تک متداول رہی (بحوالہ تاریخ العرب العام ج:۲ص:۷۷)
اسی طرح خلف بن قاسم زہراوی کی کتاب ’’التصریف لمن عجز عن التالیف‘‘یورپ میں بہت مقبول رہی ۔اس میں زہراوی نے سرجری و آپریشن کی تشریح کی ہے ،مثانہ کی اندرونی پتھری کو توڑنے کا طریقہ بتایا ہے ۔اور شریانوں کے جوڑنے کے طریقے بھی بتائے ہیں ۔یورپ میں یہ کتاب ایک مرجع و مآخذ کی حیثیت رکھی ہے ۔حنین ابن اسحاق نے آنکھوں کے امراض سے متعلق ’’العشرالمقالات فی العین ‘‘تحریرکی آنکھوں کے علاج میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے ۔
مغربی محققین کا ماننا ہے کہ عربوں نے ہی سب سے پہلے علم ادویہ ایجاد کیا ہے بعد میں اس فن کو یورپ نے اختیار کیا ۔انہیں اُصولوں پر جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد پڑی ۔آج بھی بہت سی دواؤں کے نام عربی ہی میں یورپ کی طبی ڈکشنریوں میں ملتے ہیں ۔عربوں نے ہی دواخانہ کو ترقی دے کر بامِ عروج تک پہنچایا ۔دواخانہ کے کالج کی بنیاد رکھی ۔
علم کیمیا میں بھی مسلم سائنسدانوں کا نام سر فہرست آتا ہے ۔جابر بن حبان کو علم کیمیاء کا باوا آدم کہا جاتا ہے ،ابن خلدون علم کیمیا ء کو جابربن حبان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
مسلمانون کی سائنسی خدمات نے یورپ پر بہت اثرات مرتب کئے تھے۔ابوبکر محمد بن زکریا کی کتاب ’’الجدری والحصبہ ‘‘کے تراجم نے بہت فوائد پہنچائے ۔اس کتا ب سے پہلے پہل چیچک اور خسرہ کے بارے میں واضح معلومات ملتی ہیں۔سپین کے جراح ابوالقاسم زہراوی کی کتاب ’’التصریف لمن عجز عن التالیف فی قسم الجراحتہ ‘‘یورپی دانشگاہوں میں مسلسل پڑھائی جاتی رہی ۔ماکس مائیر و سوف نے عبدالملک بن زہر کی کتاب الیتسیر کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب مسلمانوں میں اتنی مقبول نہیں ہوئی جتنی یورپ میں مقبول ہوئی ۔ویانا اور فرینکفرٹ میں طبی نصاب ابن سینا کی ’’القانون‘‘اور امام رازی کی’’المنصوری ‘‘کی نویں کتاب پر مبنی تھا۔ابن بیطار کی کتاب ’’المفردات‘‘کے لاطینی زبان میں نسخے اٹھارویں صدی تک شائع ہوتے رہے ۔مسلم ہیئت دان ماشاء اللہ کی کتاب سابع و عشرین ان منہ و سطی ٰ کی مقبول کتابوں میں تھی۔مسلم ماہر فلکیات ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی کی تحقیقات سے یورپی ماہرین نے خوب استفادہ کیا۔اسی طرح زمین کے مرکز کائنات ہونے کے بطلیموسی نظریہ کو رد کرنے کا کریڈٹ سہولویں صدی میں کو پرنیکس کو حاصل ہوا۔اس رد کی بنیاد بھی مسلمان سائنسدانوں نے ہی فراہم کی تھی۔
مسلمان ریاضی دانوں نے ہندی ارقام کی روشنی میں اعداد کے دو سلسلے بنائے تھے ۔گیارہویں صدی تک اہل یورپ صفر کے استعمال سے آشنا نہیں تھے ۔بارہویں صدی میں محمد بن موسیٰ الخوارزمی کی ’’کتاب الحساب‘‘کا لاطینی ترجمہ ہوا تو اہل یورپ صفر سے آگاہ ہوئے۔لیونارڈوفیسبوچی نے خوارزمی کی کتاب الجبروالمقابلہ کا ترجمہ کرکے اعشاری نظام کو سارے یورپ میں قبولیت عام بخشی۔اسی طرح جغرافیہ میں مسلمانوں کے کرہ ارض کے تصور کا بڑا چرچا رہا ۔یہی وہ جغرافیائی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر امریکہ کی دریافت ممکن ہو سکی۔عربوں کے علم ہیئت نے کوئی کو پرنیکس اور نیوٹن پیدا نہیں کیا لیکن اُنہوں نے جو کچھ کیا اس کے بغیر کوپرنیکس اور نیوٹن پیدا ہی نہیں ہوسکتے تھے۔لیکن جب مسلمانوں میں علمی وفکری زوال آیا تو یہ تمام علمی سرمایہ یا تو یورپ منتقل ہو گیا جس پر یورپ نے اپنے علم وفن کی بنیاد رکھی اور بے مثال ترقی کی یا پھر اس کا اکثر حصہ ضائع اور برباد ہو گیا۔کچھ تو تاتاریوں کی یورش ہے اور کچھ دوسرے اسبا ب وعوامل ہے اور مسلمان طاؤس و رباب میں مشغول ہو کر انحطاط وزوال کے راستے پر چل پڑے جس کا نتیجہ آج مسلمانوں کی محکومیت و مظلومیت کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔علامہ محمد اقبال نے اسی کو اپنے دردبھرے انداز میں فرمایا:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

Short URL: http://tinyurl.com/ycan6yv8
QR Code: