فریال۔۔۔ ہم ہیں تیری آواز (حصہ ۔۔اول)

Muhammad Jawad Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد جواد خان 
ہمارے شفیق اور آخر الزمان نبیِ پاک حضرت محمد عربی ﷺ نے بیٹی کو رحمت بنا کر پیش کیا اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میری فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اورپھر اپنی امت کو وہ پیار و محبت والا معاشرہ دیا کہ جس میں ماں، بیٹی ، بیوی، بہن سب کے آداب اپنی اپنی جگہ بیان کر دیا گیا۔ پھر یہ معاشرہ جس میں نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کی بدولت بیٹی کو عزت و حرمت اور توقیر سے نوازا گیا۔یہ وہ باپ تھا جو کل اپنی بیٹی کو ذبح کرتا تھا آج دینِ محمدی ﷺ کی تعلیمات کی بدولت بوڑھا باپ اپنے طاقت سے زیادہ بوجھ اُٹھاکر مزدوری کر رہا ہوتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی کر کے دینی ہے ۔ آج معاشرے کے اند ر وہ درد ، محبت اور احساس کا ایسا رشتہ دیا کہ گاؤں میں کسی کی بھی بیٹی ہوتی تو لوگ بولتے کہ یہ گاؤں کی بیٹی ہے اس کی مدد کی جائے ۔۔۔ پھر کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو پورے گاؤں کے لوگ بطور جہیز (بنام پلک ) آ کر اس با پ کی مدد کرتے جس نے بیٹی کی شادی کرنی ہوتی تھی ۔۔ اس داماد کی قدر کی جاتی کہ اس کے گھر میں ہمارے گاؤں کی بیٹی ہے ۔۔ یہ میں اتنے پرانے دور کی بات نہیں کر رہا کچھ دہائیاں پیچھے جا کر دیکھو کہ جن لوگوں کہ بہنیں نہیں ہوتی تھیں وہ افسوس کرتے تھے کہ ہماری بہنیں نہیں اور پھر وہ منہ بولی بہنیں بنا تے تھے۔۔۔ مگر اب اس چودہویں صدی کے ہم مسلمان۔۔۔! جن کے پاس تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں تو ہاتھوں میں آگئی مگر آداب کی ڈگری بھو ل گیا۔۔۔ انگلش کی روانگی تو زبان پر جاری ہو گئی مگر تلاوتِ کلام پاک سے محروم ہو گیا۔ ۔۔ سوشل میڈیا کی دھوم تو مچھ گئی مگر انسانیت کی اقدار ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ۔۔۔ پیسہ اور دولت کی ریل پھیل تو ہوئی مگر یتیم اور غریب کو بھول کر رہ گیا۔ ۔۔یہ کیا گیا ہے ہم کو۔۔۔؟؟ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم امتی کس کے ہیں۔۔۔؟؟ کیا درس دیا گیا تھا ہم کو۔۔۔؟؟ ہم کس طرف کو جا رہے ہیں کیا یہ ردِ انسانیت کی انتہاء نہیں ہو رہی کہ ہم اب چھوٹی چھوٹی معصوم(کبھی ز ینب، کبھی فریال اور کبھی منائل ) کلیوں کو مسل کر رکھ رہے ہیں وہ کلیاں جو ابھی رشتوں کی پہچان سے بھی انجان تھیں۔۔ وہ کلیا ں جو والدین کی روح رواں تھیں ۔۔۔ وہ کلیاں جن کی مہک لے کر باپ صبح اپنے کام پر جاتا تھا۔۔۔ وہ کلیاں جن کو ماں روزانہ سنوار کر رکھتی تھی ۔۔۔ وہ کلیاں جو دادا ، دادی ، چچا اور پھوپھی کے گلستان میں مہکتی اور توتلی زبان میں سب کے ساتھ شرارتی باتیں کرتیں تھیں ۔۔ وہ کلیاں جن کی چمک سے گھر کا ماحول سُہانا بنا ہو ا تھا۔۔۔ وہ کلیاں جو باپ کا کل اثاثہ تھیں ۔۔۔ کچھ سفاک دل عناصر نے اتنا تک گوارہ نہ کیا کہ ایک لمحہ کے لیے سوچ تو لوں ۔۔۔ کیا ان سفاک دل افراد کے دل اس قدر سیاہ اور سخت تھے کہ معصو م چیخ و پکا ر نے ان کے دلوں پر ضرب نہیں لگائی ۔۔۔؟؟ کیا اُن سفاک دل عناصر کے دل اس قدر سخت تھے کہ ان کے دلوں میں انسانیت کا بھی درد نہ جاگا۔۔۔ المیہ تو یہ ہے کہ اتنا ظلم کیا جار ہا ہے اور دوسری طرف قاتل تلاش قاتل میں ساتھ ہی گھوم رہا ہوتا ہے۔۔۔ معصوم کلیوں کو مسل کر پھر ان کو ذبح کرنا۔۔۔یہ عمل تو زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے سے بھی بد تر فعل جس میں صرف بیٹی کو ذبح کیا جاتا تھا۔۔۔ یہاں تو معصوم کلیوں کو مسل کر پھر موت کی نیند سلایا جارہا ہے ۔۔۔ میں تو اس فعلِ بد ترین کوقوم لوط کے فعلِ بد سے بھی سنگین گراندتا ہوں ۔۔۔کیا اس وقت معصوم کلیاں (فریال ، زینب اور منائل ) تڑپی نہ ہونگی ۔۔۔؟؟ کیا ان کی چیخیں نہ نکلی ہونگی ۔۔۔ ؟؟؟ کیا اپنی زندگی بچانے کے لیے گڑگڑاہی نہ ہونگی ۔۔۔؟؟؟ یہ کیسا وحشی پن ہے جو ان درندوں کے سروں پر چڑھ کر بول رہا تھا ۔۔ ان کے دلوں میں ذرہ برابر بھی رحم نہیں آیا ۔۔۔ اے آسمان ۔۔۔! تجھ کو کیا ہوا تھا اس دن تم نے ان اشخاص کوبجلی گرِا کر بھسم کیوں نہ کیا ۔۔۔ اے زمین ۔۔۔ ! تم نے کیوں ان اشخاص کو اپنے اند ر کیوں نہ دھنسایا ۔۔۔ نہ آسمان گرِا اور نہ زمین پھٹی ظالم اپنی ڈھڈائی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ قانون کی بالادستی ہو۔۔ مگر قانون۔۔۔۔! انسان بوڑھا ہو جاتا ہے مگر انصاف کے نام پر صرف تاریخ ہی ملتی ہے ۔۔۔ اور انصاف کے انتظار میں خالی کشکول ہی ملتا ہے اور اکثر تو انصاف کے انتظار میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور کئی مقدمات تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا فیصلہ مر نے کے بعد آتا ہے ۔۔چلو فرض کیا باقی قوانین تو انگریز کے بنائے قوانین کے مطابق ہیں۔ مگر کم از کم دو قانون ایک گستاخِ مصطفی ﷺ کے مرتکب اور دوسرا بچوں کے ساتھ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکت کرنے والے کے قانون کو اسلامی قوانین کے مطابق بنا کر عمل درآمد کر کے دیکھا تو جائے ۔۔۔ یقین مانو کہ ایک بندے کو بھی جب سرِ عام چوک میں عبرت ناک سزا ملے گی تو باقی پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ عالم دنیا کو بھی اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ وہ ملکِ پاکستان جو کل کو نظریاتی بنیاد پر حاصل کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا اب واقعی وہ ملک صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گیاہے ۔۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں صرف نظام عدل کا ہی قصور نہیں بلکہ “الف” سے لے کر ” ے” تک سارا بیڑہ ہی غرق کیا ہو ا ہے ہم نے ۔۔۔ معاشرے کو اس طرف لے کر ہم خود جا رہے ہیں ۔۔۔ ذرا سوچھو آخر اس طرح کے واقعات کیوں کر رونما ہو رہے ہیں۔۔۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/y6o9acjy
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *