غزل: دیارِ عشق میں تنہا کھڑا، کھڑا ہی رہا

Print Friendly, PDF & Email

شاعر : احمد نثارؔ ، شہر پونہ، مہاراشٹر، انڈیا۔


دیارِ عشق میں تنہا کھڑا، کھڑا ہی رہا
محبتوں کے نگر میں پڑا، پڑا ہی رہا

ثمر خلوص و محبت کے تازہ تر ہی رہے
کدورتوں کا ثمر تھا سڑا، سڑا ہی رہا

تھے خواب جتنے بھی تعبیر سے پرے، لیکن
نگاہِ ناز کا شیدا، اڑا، اڑا ہی رہا

وہ چھوٹی سوچ کا مالک، سمٹ گیا لیکن
خیال و فکر میں جو تھا بڑا، بڑا ہی رہا

ہوا کے ساتھ سفر کر، جہاں میں پھیل گیا
انا کی قبر میں جو تھا گڑا، گڑا ہی رہا

ذرا سی تند پہ شاخوں سے گر گئے پتے
درخت جو بھی زمیں سے جڑا، جڑا ہی رہا

وہ ظرف چھوٹا تھا، پانی بھی کم ملا اس کو
جو اعلی ظرف کا مالک گھڑا، گھڑا ہی رہا

نثارؔ آپ تلاتم سے کھیلتے ہی رہے
یہ زندگی کا سفر تھا کڑا، کڑا ہی رہا

Short URL: http://tinyurl.com/jqhttxt
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *