عوامی سیاست کاموقع۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقارخان

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

یہ کیسا بندہ ہے، اس نے تو سفید پوشوں کی عزت خاک میں مِلا دی ہے۔ اب کیا ہم جیسے سفید پوش عوام کی خدمت کے لیے اتنے نیچے اُتر کر اپنی کارکردگی پیش کریں گے۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہی جب عوام کے مسئلے حل کرلیتے ہیں تو کیا ضرورت ہے کسی ضرورت مند کی دہلیز پہ خود جاکر خدمات پیش کرنے کی۔ یہ موچھ کی ایک نامور سیاسی شخصیت کے الفاظ ہیں جو گزشتہ روز سرِراہ چند منٹ کی ملاقات کے دوران راقم کے سامنے ادا کیے۔ یہ شخصیت مانشااللہ ایک ذمہ دار، حیا دار اور بڑی وضع دار ہیں۔ بڑی نپی تُلی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے دیانتداری سے بات کی۔ اور وہ سمجھتے بھی اِسی بات کو درست ہیں کہ سیاست دان کو ایک حد تک ہی رہنا چاہیے۔
یہ تبصرہ انہوں نے خادم موچھ مولوی عظمت اللہ خان کی اس حرکت پر فرمایاکہ مولوی کو دیکھیں، ایک بندے کا بجلی میٹر واپڈا والے عدم ادائیگی بل پر اُکھاڑ کرلے گئے۔ مولوی نے پہلے اُس کا بل جمع کروایا اور پھر خود ہی دفتر سے میٹر کندھے سے لٹکایا اور مطلوبہ بندے کے گھر پر نصب کرادیا۔ یہ بھی کوئی سیاست ہے۔ بندے کو اب سیاست کے لیے اتنا تو نیچے نہیں جانا چاہیے۔کوئی تو اسٹیٹس کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ ہم تو کم ازکم اتنے نیچے جانے کے متحمل نہیں ہیں۔
مجھے اِن کی بات سُن کے مسلم لیگ ن کے کلرسیداں سے ایم پی اے اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین انجینئر قمرالاسلام راجہ یادآگئے۔ کچھ دن پہلے وہ ایک ٹی وی پروگرام میں بتا رہے تھے کہ میں بنیادی طور پر کوئی جاگیردار، وڈیرا یا رئیس زادہ نہیں ہوں بلکہ ایک سیاسی ورکر ہوں۔ میں نے جب اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو سب سے پہلے میں اپنے علاقے کی ہر بس میں سوار ہوجاتا اور عوام سے التجا کرتاکہ دیکھیں میں آپ میں سے ہوں۔ آپ مجھ تک آسانی سے رسائی پا سکتے ہیں اور میں بھی آپ کے ساتھ بس ، ویگن تک میں حاضر ہوں۔ آپ مجھے ووٹ دیں یا نہ دیں آپ کی مرضی ہے مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں نے سیاست کا انداز بدل دیاہے۔ اگر آپ مجھے ووٹ نہ دیں توکم ازکم اُسے دیں جو آپ سے بس اور ویگن میں آکر ووٹ مانگنے کی جرات رکھتاہو۔میں نے کم ازکم تمھاری اتنی حیثیت تو بنا دی ہے کہ ڈرائنگ روم والوں کو اگر اب آپ کے ووٹ کی ضرورت ہوگی تو وہ یہاں آپ کے پاس بیٹھ کر ووٹ مانگے گے ۔ اور یہی ہوا کہ ڈرائنگ روم والے اپنا اسٹیٹس نہ چھوڑ سکے اور عوام کا حقیقی نمائندہ جیت کر عوام کی خدمت میں لگ گیا۔
موچھ میں بھی راقم کو ایسی ہی فضا بنتی نظر آرہی ہے۔ وہاں بھی ایک سرپھرے نے سیاست کاانداز بدل کے رکھ دیاہے۔ کسی محلے کا ٹرانسفارمر خراب ہوجائے ، ہسپتال میں ڈاکٹرز کی کمی اور مریضوں کو پریشانی ہو، کسانوں کے مسائل ہوں یا سکولز میں سٹاف کا مسئلہ ہوتو وہ سرپھرا اپنے ساتھ چند اہلِ محلہ کو لیتا ہے اور سیدھا اعلیٰ افسر کے دفتر پہنچ جاتاہے اور جب تک مسئلہ حل نہیں ہوجاتاہے اُس کا احتجاج جاری رہتاہے۔ ذاتی مفاد سے ہٹ کر خالصتاََ عوام کی خدمت کی سیاست نے اِسے بے خوف کردیاہے۔ ایس ایچ او سے لے کر ڈویژن اور صوبہ کی سطح تک جس جس آفیسر کا رابطہ نمبر میسر ہوتاہے سب کو بلاجھجک فوراََ کال ملا کر مسئلہ بیان کردیتاہے۔ فون پر بات نہ بنے تو ڈویژن سطح تک تو آفیسرز کے دفاتر کے باہر دھرنے دیتے اور آنکھ سے آنکھ ملا کے بات کرتے راقم نے خود دیکھاہے۔
یہ سرپھرا اب موچھ میں کم ازکم ہر کسی کے لیے چیلنج بن چکاہے۔ اُس نے ڈرائنگ روم سیاست کے عادی مقامی سیاست دانوں کی پریشانی میں بہت زیادہ اضافہ کردیاہے۔ مخالف پارٹی تو ابھی تک ان کے مقابلے میں کوئی امیدوار لانے میں کامیاب ہی نہیں ہوپارہی۔ جس کو بھی یونین کونسل کے چیئرمین کے لیے کہاجاتاہے وہی انکار کردیتاہے۔ شاید اس سرپھرے کے اندازِ سیاست نے عوام میں مقبولیت ہی اتنی حاصل کرلی ہے کہ پرانی طرزِسیاست کے رسیا کے لیے بہت آزمائش آن پڑی ہے۔
دوسری سیاسی جماعتوں کے افراد بلاتعصب خدمت کو دیکھتے ہوئے حمایت کا یقین دلارہے ہیں۔ ضلع بھر میں اگر کسی کو سیاسی جلسے ابھی سے دیئے جارہے ہیں تو وہ خادم موچھ ہیں۔ بڑے بڑے زیرک مخالف اس بات کا اعتراف کرنے میں کنجوسی نہیں کررہے کہ اگر میرٹ پر بات کی جائے تو موچھ کے عوام کے ووٹ کا حق دار مولوی عظمت اللہ خان ہے مگر ہماری کچھ سیاسی مجبوریاں ہیں۔
راقم کی ناقص رائے اور اندازے کے مطابق اس وقت تک مولوی عظمت اللہ خان کی موچھ میں جو عوامی مقبولیت پہنچ چکی ہے اُس کا مقابلہ شاید ہی کوئی ڈھنگ سے کرپائے۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی پی ٹی آئی بھی اب ٹکٹ دینے میں بہت آسانی محسوس کرے گی کیونکہ حالات یقینی فتح کا سندیسہ دے رہے ہیں۔
البتہ اپنی پارٹی کے چند مفاد پرست اور چندجانتے بوجھتے بھولے بنے پھرتے ڈرائنگ رومی سیاست دان ابھی تک کوشش میں ہیں کہ کسی طرح خادم موچھ کو چیئرمین کی دوڑ سے آؤٹ کردیاجائے۔ شطرنج کے کھیل کی مانند ڈاج اور حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اب ایک حربہ یہ آزمانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مولوی عظمت اللہ کی بجائے ان کے بھائی لطیف اللہ خان ایڈووکیٹ کو چیئرمین کا ٹکٹ دیاجائے تو اس ڈرائنگ رومی گروپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
عوام کی خدمت میں مولوی عظمت اللہ خان دن رات ایک کیے ہوئے ہے اور چیئرمینی کے لیے لطیف اللہ خان کا نام ۔ عجیب منطق کے سوا کیاہے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے کا اگر محاورہ انہوں نے کبھی سماعت فرما لیا ہوتا تو شاید پھر ایسی تجاویز پیش نہ کرتے۔
پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو سب سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف دِل میں پایا جانا والا مبینہ حسد و بغض باہر نکال پھینکنا ہوگا۔ مل بیٹھ کے صرف اور صرف پی ٹی آئی کی کامیابی کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔نئے اور پرانے ، ورکرز اور وقتی حُبدار سب کے سب پی ٹی آئی کا اثاثہ بن چکے ہیں اور دونوں ضرورت بھی ہیں۔ کوئی گروہ دوسرے کے بغیر جیت کی تمنا نہ کرے ، سوائے چند ایک سِیٹس کے۔
جہاں سے پی ٹی آئی کا ورکر سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اُسے ٹکٹ دیں اور جہاں وقتی پارٹی ورکر کی پوزیشن مضبوط ہوتو اُسے ٹکٹ ملنا چاہیے۔ یہ جو باتیں کی جارہی ہیں کہ این اے اکہتر میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور ہے تو پھر یہاں کی پی ٹی آئی کی اعلیٰ کمان کو مزید سوچ سمجھ کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں پارٹی ٹکٹ معاون نہ بنے وہاں دیگر تگڑے امیدواروں کے ساتھ بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ ہاتھ نہ آنے سے کچھ مل جانا بہتر ہوگا۔
کئی آزاد اُمیدوار بھی ایسے ہیں جو پی ٹی آئی کی طرف رجحان تو رکھتے ہیں مگر اپنے مقامی حالات کی وجہ سے ٹکٹ کے بغیر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی تعاو ن کو بھی یقینی بنایا جائے تو ضلع کی چیئرمینی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔
پی ٹی آئی کے مدمقابل مسلم لیگ ن بھی متحرک ہے۔ البتہ اُسے بھی ابھی تک دھڑے بندی کا دھڑکا لگا ہواہے۔ شادی خیل گروپ، روکھڑی گروپ اور علی حیدر گروپ مبینہ ضلعی چیئرمینی کی دوڑ میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔گل حمید خان روکھڑی خود کو ضلع چیئرمین ہی تصور کرتے ہیں کیونکہ اُن کے بقول مسلم لیگ ن کی قیادت نے اُن سے وعدہ کررکھاہے۔ جبکہ دوسری طرف عبیداللہ خان شادی خیل اور امانت اللہ خان شادی خیل بھی بہت مضبوط حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کا اگر کوئی ذاتی بندہ ضلعی چیئرمینی کے لیے مل گیا اور ہوسکتاہے اُن کی نظر میں کوئی ہوبھی تو وہ پھر تن من سے زیادہ دھن کی بازی لگا کر بھی اپنا بندہ چیئرمین منتخب کرانے کی کوشش کریں گے۔ تیسرے اور راقم کی نظر میں سب سے اہم اُمیدوار علی حیدر نورخان کے ہوں گے۔ علی حیدر نور مسلم لیگ ن کی قیادت کے گھر کے فرد اور گھر کے بھیدی ہیں۔شادی خیل برادران کی قربت سے بھی لیس ہیں۔ہوسکتاہے شادی خیل اور علی حیدر نور اندر خانہ اتحاد سے گل حمید خان روکھڑی کے خوابوں کا خون کرنے کے منصوبے بنا رہے ہوں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت بالآخر ان تینوں گروپس کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
پی ٹی آئی اگر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی ہے تو اُسے یہ مسئلہ بڑی شدت سے درپیش ہوگا کہ ضلعی چیئرمین کون ہو۔فیصلہ تو ظاہر ہے پارٹی کے بڑوں نے کرنا ہے مگر عوامی رائے کو نظرانداز کرکے کیے گئے فیصلے بعد میں پچھتوا کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت، صوبائی قیادت اور مرکزی قیادت کو ضلع چیئرمینی کے خواہشمند اُمیدواروں کی پوری پوری چھان پھٹک کرنا ہوگی۔ ہرقسم کی اقرباپروری، دوستی تعلق اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کرپارٹی اور عوام کے مفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ضلعی چیئرمینی کے لیے میجر جنرل(ر) سابق ڈی جی آئی بی رفیع اللہ خان نیازی جیسے تھنک ٹینک سے مشاورت کافی مفید رہے گی۔کوئی ایسا اُمیدوار سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے جو جرات مند بھی ہو، سیاسی داؤپیچ بھی کھیل سکتاہو،لچک بھی رکھتاہو مگر عوام کے حقوق کے لیے ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح تک موثر آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتاہوتو یقین کریں پنجاب کی صوبائی حکومت بھی عوامی آواز کو نظرانداز نہیں کرپائے گی۔ اب دیکھتے ہیں پارٹی قیادت کسی گھُگُوگھوڑے یا مَشُومیاں کوترجیح دیتی ہے، کسی دولت مند کے سرپر تاج رکھتی ہے یا پھر حقیقی عوامی نمائندے کو منتخب کرتی ہے۔
ضلع چیئرمین کے لیے عوامی شخصیت کانام بھی دیاجاسکتاہے مگرشاید یہ بات مناسب نہ ہو۔ اس لیے مذکورہ اصول ہی کافی ہیں۔فیصلہ کرنا قیادت کا کام ہے۔ البتہ اگر پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی تو اپوزیشن لیڈر کے لیے جس جرات مند لیڈر کی ضرورت ہوگی و ہ مولوی عظمت اللہ خان کی شکل میں ان کے پاس موجود ہوگا۔اس جیسے بے باک،نڈر مگر سیاسی بصیرت سے بھرپور شخص کی وجہ سے پی ٹی آئی اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنے عوام کے لیے بہت کچھ حکومتِ وقت سے حاصل کرلے گی۔ اور پی ٹی آئی کے ورکرز اور قیادت کے درمیان پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے خاتمہ میں بھی مدد ملے گی۔ مولوی عظمت اللہ خان میرے خیال میں ایک پُل کا کردار ادا کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ کالم ستمبر میں لکھا گیا مگر ایسا رہاکہ بس رہ ہی گیا۔ اب نتائج سامنے آچکے۔ اکیس کے لگ بھگ پی ٹی آئی اور تقریباََ دس ن لیگ کے حصے میں سیٹس آئیں۔پی ٹی آئی والوں کے بقول پانچ چھ تو اُن کے وہ ساتھی بھی جیتے ہیں جو الیکشن توآزاد حیثیت میں لڑے مگر ہیں وہ پی ٹی آئی کا حصہ۔ اب دوسری طرف بھی ایساہی کچھ ہے کہ اکثر اُمیدوارآزاد لڑتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ حکومت کاحصہ بن سکیں۔ آزاد اُمیدواروں نے اگر پنجاب حکومت کی طرف دیکھا تو میانوالی میں ن لیگ اپنا ضلع چیئرمین بنالے گی اور اگر پی ٹی آئی کے اپنے منتخب ممبران ڈٹ گئے اور چند بلے باز بھی ان کے ساتھ ہولیے تو پھر کچھ مستقبل پر نظر رکھنے والے دوسرے آزاد اُمیدوار بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر تیار ہوجائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/zy9d87t
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *