صحبت صالح تُرا صالح کند۔۔۔۔ تحریر: رضوان اللہ پشاوری، نوشہرہ

Rizwan Ullah Peshawari
Print Friendly, PDF & Email

آدمی کے زندگی پر صحبت کا بہت بڑا اثر ہواکرتا ہے،اگر انسان اپنے لیے اچھے دوست بنا لیں تو ان کا اثر اس انسان کی زندگی پر ہو گا اور اگر بُرے دوست بنا لیں تب بھی اس کی ز ندگی پراس کا اثر ہوگا،حضرت نوحؑ خود پیغمبرتھے مگر ان کا بیٹا بروں کی صحبت کا شکاری ہوگیا تو اپنا خاندان نبوت کھو بھیٹا،ہوا کچھ یوں تھا کہ نوحؑ نے اپنے بیٹے کو ایمان لانے کا کہا تو اس نے انکار کیا،اس کے انکار کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے زمانے کے کفار کے ساتھ اپنی دوستی قائم کر رکھی تھی تو وہی دوستی اس کو سیلاب نوح کے نذر کر گئی،اسی لیے تو شیخ سعدیؒ نے فرمایا ہے کہ
’’پسر نوح بابداں بنشست،خاندان نبوتش گم شود‘‘
فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ’’صحبت صالح تُرا صالح کند و صحبت طالح تُرا طالح کند‘‘۔
قارئین کرام آیئے میں آپ کو دو طالب علموں کا (ایک آٹھویں جماعت کا اور ایک دسویں جماعت کا)واقعہ ذکر کر ہی دیتا ہوں اور اس کو ذکر کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ آج کل دسویں کے امتحانات شروع ہیں تاکہ طلبائے کرام اس سے فائدہ اُٹھا سکے۔
زید اور عمر دو سگے بھائی ہیں زید پہلے پیدا ہوگیا تھا،اس کی پیدائش پر بہت سی خوشی منائی گئی تھی وہ پہلے ہونے کی وجہ سے باپ،ماں،دادا،دادی،نانا،نانی،چچا،چچی۔۔۔وغیرہ سب خاندان والوں کو بہت پسند تھا،زید اپنے ماں باپ کا لاڈلا بیٹا تھا،ان کا دوسرا بھائی عمر بعد میں پیدا ہو گیا ،اس کی پیدائش پر بھی خوشی منائی گئی مگر زید کی خوشی کی بنسبت کم تھی،پھر ان کے دو اور بہنیں تھی ،یہ سب کے سب(زید،عمر،اوردو بہنیں)ذہین،قابل اور اپنے اساتذہ کی توجہ کے محور تھے،مگر قدرت کا نظارا کچھ اور تھا ،قدرت نے وہی کر دکھایا جو ازل میں فیصلہ ہو چکا تھا،زید کا مقدر زیرو نکلا جبکہ عمر اور دو بہنوں کا تارہ ومقدر اپنی باعروج پر پہنچ گیا،زید ایک قابل اور ذہین طالب علم تھے مگر جوں جوں وہ کلاسوں میں ترقی کرتے رہے تو یوںیوں وہ اور بھی اپنے نالائقی میں بام عروج کو پہنچتے رہے اور عمر شروع شروع میں اتنے قابل نہیں تھے کلاس میں پانچویں نمبر پر آتے تھے مگر جوں جوں وہ ترقی کے منازل طے کرتے رہے یوںیوں وہ اور بھی قابل اور ذہین طلبائے کرام میں شامل ہوتے گئے،ان دونوں کی ترقی اور نزول کی وجہ کیا تھی؟آیئے اس پر بھی ایک سرسری نظر دوڑاتے ہیں،زید جب سکول میں داخل ہوگیا تو وہ شروع ہی سے ایک قابل طالب علم تھے مگر زید نے اپنے لیے سکول میں ایسے دوستوں کو چُنا تھا جن کی تعلق ایک امیر اور مالدار خاندان سے تھی مگر خود زید ایک متوسط درجہ کے سفید پوش خاندان سے تعلق رکھتے تھے،اسی دوستی نے زید کو سبق پڑھنے نہیں دیا جبکہ ان کے دوسرے بھائی عمر کے دوست بھی قابل اور ذہین تھے تو وہی دوستی ان کے لیے اچھی ثابت ہوگئی،جب انکے والدین کو پتہ چلا تو زید نے اپنے والدین کو یہی کہا کہ ہمارے کلاس میں سارے طلبہ قابل ہیں اسی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں اور عمر کے کلاس کے سارے طلبہ نالائق ہیں تو عمر کی مثال اپنے کلاس میں ’’آندھوں میں کانا راجا‘‘کے مترادف ہے۔
مگر سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی ایک سمجھدار آدمی تھے،انہوں نے زید کے والد کو لکھ کر بھیجا کہ وہ اپنے بیٹے زید کی اصلاح کی کوشش کریں جب اس سے بھی زید راہ راست پر نہ آسکا تو پھر زید کے باپ کو کہلا بھیجا کہ وہ کل سکول تشریف لے آئیں،جب زید کے والد سکول تشریف لے آئیں تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پہلے زید اور عمر کو بھی سامنے بٹھا دیا،ہیڈ ماسٹر صاحب نے پہلے عمر کی ساری رپورٹ سامنے کر دی کہ پہلے سے پانچویں کلاس تک انکے نمبرات 70فیصد تھے تو کلاس میں پانچویں نمبرپر تھا اور چھٹی کلاس سے ساتویں کلاس تک ان کے نمبرات91فیصد تھے اور کلاس میں دوسرے نمبر پر تھے اب جبکہ ان کا آٹھویں کا داخلہ جا چکا ہے ان شاء اللہ عمر بورڈ میں پوزیشن لیگا،اسی کے ساتھ عمر نے بھی کہا کہ ان شاء اللہ۔پھر زید کی رپورٹ بھی پیش کی گئی کہ پہلے کلاس سے چوتھے کلاس تک ان کے نمبرات 92فیصد تھے کلاس میں پہلے نمبر پر تھے،پانچویں سے آٹھویں تک ان کے نمبرات 70 فیصد تھے اور کلاس میں پندرہ نمبر پر تھے جبکہ نویں کلاس میں ان کے نمبرات 60فیصد تھے اور کلاس میں بیسویں نمبر پر تھے حالانکہ کلاس میں کل 25 لڑکے ہیں،اب جبکہ ان کا دسویں کا داخلہ جاچکا ہے اگر یہ بورڈ میں ناکام ہوگئے تو یہ آپ کیے لیے بھی باعث شرم ہے اور آپ سے زیادہ میرا لیے بھی،اس سے زید بہت شرمسار ہوگئے اور اپنے والد اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ وعدہ کر لیا کہ میں اب سے ان شاء اللہ اپنی پڑھائی میں خوب محنت کروں گا،جب بورڈ کا نتیجہ نکلا تو عمر نے بورڈ میں دوسرا پوزیشن لیا تھا زید نے جب اپنے چھوٹے بھائی عمر کی یہ اعزاز دیکھی تو برف کی طرح پگھل گئے،مگرگزرا ہواوقت پھر ہاتھ نہیں آتا،ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کو ناکامی کا منہ کیوں دیکھنا پڑا؟غلط دوستوں کی صحبت کی وجہ سے اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ صحبت صالح تُرا صالح کند وصحبت طالح تُرا طالح کند۔
قارئین کرام آمدم برسرمقصد:میں آج کل کے اساتذہ سے بھی یہی اپیل کرتا ہوں کہ وہ یہی طریقہ اپنا لیں کہ جو طالب علم سبق نہی پڑھتا تو ان کے والدین کوپہلے لکھ کر بھیجا کریں کہ آپکا لاڈلا سکول ویسے آتا جاتا ہے سبق نہیں پڑھتا اور اگر اس سے بھی نہ ہوسکے تو پھر ان کے والدین کو سکول بلا کر ان کے بچوں کا تفصیلی رپورٹ ان کے سامنے رکھا کریں اس سے وہ طالب علم بھی محنتی بن جائے گا اورصرف یہی بھی نہیں بلکہ کل وہ اپنے لیے،اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کے لیے باعث عزت بھی ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو(آمین)۔
Short URL: http://tinyurl.com/zqtznbo
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *