رنگ ہاتھوں میں اُس کے بولتے ہیں۔۔۔۔ رپورٹ:احمد جلیل ،احتشام جمیل شامی ،پروفیسر محمد امین انجم، اوکاڑہ

بغیر برش کے مصورانہ خطاطی کا بے تاج بادشاہ
محمد اصغر مغل(گولڈ میڈلسٹ)۔
اوکاڑہ(رپورٹ:احمد جلیل ،احتشام جمیل شامی ،پروفیسر محمد امین انجم) فنِ خطاطی اور کیلیگرافی ایک قدیم صنف ہے ۔ جسے مغلیہ دور میں بھی پذیرائی حاصل تھی اور آج تک یہ بر قرار ہے ۔
ایران ،افغانستان اور برصغیر پاک و ہند کے خطاطوں نے خطاطی میں کمال فن کے اعلیٰ ترین نمونے تخلیق کیے،آج دنیا میں برصغیرپاک و ہند کی صدیوں پر محیط اس محنت کے شاہکار جا بجاعوام الناس کی آنکھوں کو خیرہ کیے ہوئے ہیں،سرکنڈے کے قلم سے اپنی تحریروں کومزین کرنے والے خطاطوں نے دور جدید میں برش کا سہارا لے کر مزید جدت اور خوبصورتی کے رنگ بھرنا شروع کر دیے ،خوبصورت رنگوں سے کھیل کر اور مختلف اسٹائل متعارف کر وا کر پاکستان میں بھی آرٹسٹ اور کیلیگرافرز نے بہت نا م کمایا ہے ۔ لیکن عام خطاطی کو مصورانہ خطاطی میں ڈھال کر خوبصورت رنگوں کی ملمع کاری کر کے جن کیلیگرافرز نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ان میں صادقین ، گل جی، حنیف رامے ، اسلم کمال اور دیگر کئی نا م شامل ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق چونکہ بڑے شہروں سے تھا اس لئے انہیں مقبولیت کی حدوں تک پہنچنے میں آسانی رہی لیکن ضلع اوکاڑہ کے رہنے والے ایک آرٹسٹ اور کیلیگرافرنے اس چھوٹے سے شہر میں رہ کر جو عزت اور نام کماکر پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
وہ کبھی چاند کبھی پھول نظر آتا ہے
اپنی صورت مجھے ازبر نہیں ہونے دیتا
شاعر نے تو پتہ نہیں یہ شعر کس کے لئے کہا ہو گا لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ شاید یہ اصغر مغل کے لئے کہا گیا ہے۔ اصغر مغل بغیر برش مصورانہ خطاطی کا موجد ہے اور فنونِ لطیفہ کی دنیا میں اُس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بقول پروین شاکر:
میں اس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ اصغر مغل وہ نابغہ فنکا ر ہے جس نے خطاطی بلکہ آیاتِ قرانیہ اور احادیثِ مقدسہ کی خطاطی کو ایک نئی اور منفرد جہت سے روشناس کرایا۔ ان کا یہ متبرک اور مقدس فن جہاں عبادت کے زمرے میں آتا ہے وہاں اُن کے رزقِ حلال کا باعزت ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ بغیر برش مصورانہ خطاطی کے اس ہنر کو لازوال رفعتوں سے روشناس کرانا اصغر مغل کا ایسا اعزاز ہے جو بلاشبہ انہیں کا امتیاز ہے۔ اُن کے روحانی فن پاروں کو دیکھ کو جو آنکھوں کو طراوت اور دل کو تسکین ملتی ہے، کوئی اور مادی نعمت اس کا متبادل ہو ہی نہیں سکتی۔
اصغر مغل اس اچھوتے فن کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔ آئے دن وہ اپنے اس محیر العقول ہنر کے ایسے ایسے معجزے دکھا رہے ہیں کہ عقل حیران اور ششدر رہ جاتی ہے۔ انہوں نے بغیر برش کے فن خطاطی کے جوہر دکھا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ،انہوں نے اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی اس خوبصورت کا ئنات سے رنگ چرا کر اپنی کینوس میں بھر لئے ہیں۔ اصغر مغل کا کام اتنا نفیس اور دیدہ زیب ہے کہ اس نے کمپیوٹر کو بھی مات دے دی ہے ۔اصغر مغل دنیا کے واحد آرٹسٹ ہیں جو بغیر برش استعمال کئے فنِ خطاطی اور پینٹنگ کے ماہر ہیں۔ اصغرمغل ،گل جی، صادقین،حنیف رامے اور اسلم کمال کے بعد واحد آرٹسٹ ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنا جدید فن متعارف کر وایا ہے ۔ اور یہ فن اصغر مغل کو قدرت کی طرف سے تحفہ میں ملا ہے ۔ بینر اور نیم پلیٹ لکھنے والا ایک معمولی سا آرٹسٹ /پینٹر ایک انٹر نیشنل آرٹسٹ اور کیلیگرافر کیسے بنا اس کے لئے ہمیں اصغر مغل کے ماضی میں جانا ہو گا۔
اصغر مغل نے ایک غریب اور مفلس گھ
ر میں آنکھ کھولی ، والد اور والدہ غریب ضرور تھے مگر صوم و صلوٰۃکے پابند تھے ۔ انہوں نے اپنے بچوں کو روکھی سو کھی روٹی کے ساتھ مذہبی اور دنیاوی تعلیم بھی دی۔ اصغر مغل ہو نہار طالب علم تھے اور بچپن سے ہی خوش خط تھے ۔ اصغر مغل ابھی چند برس کے ہی تھے کہ انہیں دکھوں نے گھیر لیا ۔ والدہ کے پاؤں میں کانٹا لگ گیا جو بڑھ کرنا سو ر بن گیا اور بالآخر پاؤں کا ٹنا پڑا۔ والد نے ان کے علاج کیلئے گھر کے بر تن تک بیچ دئیے مگر ان کا پاؤں نہ بچا سکے۔ غربت نے ڈیرے ڈالے تو قدرت کا ایک اور امتحان کہ اصغر مغل کے والدبجلی کا کرنٹ لگنے سے اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ یوں اس ہونہار طالب علم کو آٹھویں جماعت میں ہی اپنی تعلیم چھوڑنا پڑی اور اسی عمر سے گھر کا سہارا بننے کی ٹھان لی، ارادے نیک اور عزم جواں تھا۔ یوں اصغر مغل سید صابر حسین شاہ اور سید زاہد حسین شاہ آرٹسٹ کے شاگرد ہو گئے ۔
ڈگمگاتی اور ڈولتی ہوئی زندگی کو سہارا دینے کے لئے اصغر مغل ، سائن بورڈ، کتبے ، نیم پلیٹ ، بینر اور چارٹ لکھتے رہے ۔ اس سے بھی گزارانہ ہوتا تواصغر مغل گھرکا چولہا جلانے کے لئے لوگوں کے سائیکل اور چولہے پینٹ کرتے ، کھڑکیا ں اور دروازے رنگ کرتے ، سخت محنت سے اکثر اصغر مغل کے ہاتھوں سے خون نکل آتا اور با لآخر یہی خون کا رنگ اللہ رب العزت کو پسند آگیا اور اس نے اصغر مغل کو صفِ اول کے آرٹسٹوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ قدرت جب کسی پہ مہربان ہو تی ہے تو اس کے لئے آسانیاں اور نت نئی راہیں پیدا کر دیتی ہے ۔
محمد اصغر مغل کہتے ہیں ایک روز بارش ہو رہی تھی، بارش کے بعد میں نے اپنے آئل برش کو صاف کرتے ہوئے جب دکان کے سامنے کھڑے پانی میں جھاڑا تو دھوپ نکلنے پر رنگوں کی قوسِ قزح اُبھر پڑی۔ یوں اُن کی توجہ رنگوں کے ہزاروں زاویوں کی طرف ہوئی۔ پھر کیا تھا اُن کی محنت رنگ لائی اور وہ رنگوں کو کینوس پر اس طرح بکھیرنے لگے کہ رنگوں کا ایک جہا ن نکل آیا۔ان کا ہر فن پارہ دوسروں سے مختلف ہوتا گیا، اتنے رنگ ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ اللہ نے کیا جادو ہے جو ان کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔اُن کی خطاطی کے یہ فن پارے طول و عرض میں اہمیت حاصل کر گئے۔ برطانیہ، مشرقِ وسطیٰ، فرانس اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ان کے فن پاروں کی مانگ بڑھ گئی۔
نیشنل اور انٹرنیشنل میگزین، اخبارات،رسائل وجرائد،ٹیلی ویژن،انٹرنیٹ (فیس بک+یوٹیوب)اصغر مغل کے فن کا اعتراف کر چکے ہیں۔ پاکستان کے مشہور و معروف اخبارت و رسائل نے مضامین شائع کئے جبکہ مختلف چینلز پر اُن کے انٹرویو پیش کئے گئے جن میں سماء ٹی وی نے ’’ہر پاکستانی میں چُھپا ہے ایک ہیرو‘‘ کے عنوان سے اُن کا بھرپور انٹرویو اور ڈاکومینٹری پیش کی۔ اگرچہ اوکاڑا کا شمار چھوٹے شہروں میں ہوتا ہے لیکن یہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے اعتبار سے بہت زرخیز خطہ ہے جہاں اصغر مغل کے (بغیر برش) کے خطاطی سے مرصع فن پا رے اس شہر کو پوری دنیا میں متعارف کروا رہے ہیں وہاں ظفر اقبال، اسلم کولسری، اقبال صلاح الدین، حفیظ صدیقی، مسعود احمد کے شعرو سخن نے اوکاڑا کو قدآور بنایا ہے۔ خطاطی بالخصوص مصورانہ خطاطی میں اصغر مغل کی ایک خاص پہچان ہے اور اہلِ ذوق سے دادِ تحسین حاصل کر رہے ہیں۔
محمد اصغر مغل فنونِ لطیفہ میں جس قد کاٹھ کے فنکار ہیں اُس کااعتراف ہمارے ملک میں اس انداز سے نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں۔میری یہ خواہش ہے کہ زیر نظر تحریر اربابِ بست و کشاد کے اس سوئے احساس کو بیدار کر دے اور اصغر مغل کو ان کا صحیح مقام دلوانے کا ذریعہ بن جائے۔ ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا جا چکا ہے وہ ابھی تشنگی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ ایک شاعر نے کہا۔
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
طارق عزیز شو میں دو مرتبہ انہیں اُن کے فن کے اعتراف میں بلایا گیا۔ مانچسٹر ، لندن میں اُن کے فن پاروں کی ایک نمائش لوگوں کی توجہ کا م مرکز بن گئی۔ اصغر مغل نے نہ صرف مصوری اور پینٹنگ کی ہے بلکہ انہوں نے خطاطی میں مصورانہ رنگ پیش کرکے ایک جداگانہ رنگ متعارف کروایا ہے۔ اُن کی مصوری و خطاطی میں برش کا استعمال نہیں ہوتا، صرف رنگ باتیں کرتے ہیں اور باتوں سے خوشبو آتی ہے۔ ان کے رنگ کینوس پر بکھرتے ہیں تو انوکھے انداز کی قوسِ قزح تخلیق ہو جاتی ہے۔ اُن کی مصورانہ خطاطی میں اسلامی رنگ جھلکتا ہے۔ اکثر وہ اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فن کو قرآن و حدیث کی اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے کہ شاید میری یہی کاوش میری بخشش کا سامان بن جائے۔ وہ اکثر اس بات کا ا ظہار کرتے ہیں کہ اُن کی کامیابی ربِ ذوالجلال کی عنایت، حضورؐ کی رحمت، والدین اور اساتذہ کی دعاؤں کی مرہون منت ہے۔ وہ جوں جوں اپنے فن میں درجہ کمال کو پہنچ رہے ہیں ان کا عجز و انکسار اور بڑھ رہا ہے۔ وہ اس
تمام تر کام کے لئے خدا کے حضور سجدہ ریز ہیں اور یہ خدا کی طرف سے اعزاز سمجھتے ہیں۔ تکبر اُن کے نزدیک بھی نہیں آیا۔ اُن کی گیلری پر لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے، ان کا مرکز لاہور کے ٹی ہاؤس کی طرح ہے۔ ادب، شاعری ور دیگر اصناف کے لوگ وہاں آتے جاتے ہیں۔
یہ تو کرم ہے اُنؐ کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
انہیں ملنے والے اعزازات کی تفصیل چونکہ ہر شائع ہونے والے مضمون کا جزوِ لانیفک ہوتی ہے اس لئے اس تفصیل کو بھی قصداً حذف کیا جا رہا ہے۔ تاہم ایک کمی جو مجھے شدت سے محسوس ہوتی ہے اس کی طرف ضرور توجہ دلانے کی سعی کروں گا۔ حکومت آئے دن نمایاں کام اور خدمات سرانجام دینے والوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے سرفراز کرتی ہے۔ نہ جانے حکومت کے اربابِ بست و کشاد کو آج تک اس درخشندہ ستارے کی تابانیاں کیوں نظر نہیں آئیں۔ بقول شاعر اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔
سب اس کو دیکھتے تھے مجھے دیکھ دیکھ کر
وہ سب کو دیکھتا تھا مجھے دیکھتا نہ تھا
پرائیڈ آف پرفارمنس اصغر مغل کی ضرورت نہیں وہ ایسے اعزازات سے بے نیاز ہو کر اپنے فن کی دنیا میں مگن ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس سے حکومت کی اپنی ساکھ بڑھے گی کہ میرٹ کی بنیاد پر وہ کسی مستحق آرٹسٹ کو محروم نہیں رکھتی۔ وہ ایسا ہی آرٹسٹ ہے کہ پرائیڈآف پرفارمنس کا اعزاز اس کے سر سج کر خود فخر محسوس کرے گا۔
ایک طرف وہ اپنے فن سے لوگوں کے دل جیت رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ اس فن سے باعزت روزی کما رہے ہیں۔ اُن کے فن پاروں پر مشتمل سالانہ کیلنڈرز مختلف اخبارات میں مسلسل چھپ رہے ہیں۔ وہ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ فن پارے تخلیق کرچکے ہیں۔ اِن کے اعزازات کا اندازہ مندرجہ ذیل اندراج سے ہو سکتاہے۔
۔۔۔ 1998ء میں بین الاقوامی خطاطی نمائش اسلام آباد میں صدارتی سر ٹیفکیٹ ۔
۔۔۔ اسی سال کیلی گرافی آرٹس گِلڈ لاہور سے اعزازی سند۔
۔۔۔ 2001ء میں خطاطی نمائش پرل کا نٹی نینٹل کراچی میں آرٹسٹ آف دی اےئر کا خطاب۔
۔۔۔ 2002ء 36ممالک کے مقابلہ خطاطی منعقدہ لاہورمیں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
۔۔۔ 2003ء کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد سے اعزازی سرٹیفکیٹ ۔
۔۔۔ 2004ء روزنامہ نوائے وقت ٹیلنٹ شو اوکاڑا، آرٹسٹ آف پاکستان ایوارڈ۔
۔۔۔ 2004ء روزنامہ جنگ ٹیلنٹ شو آرٹس کونسل اوکاڑا میں جنگ کی جانب سے ایوارڈ۔
۔۔۔ 2007 تا 2011 الخدمت ویلفےئر کونسل رینالہ خورد اوکاڑا کی جانب سے مسلسل پانچ مرتبہ قائد اعظم ایوارڈ۔
۔۔۔ 2007ء میں مانچسٹر لندن نمائش میں حسنِ کارکردگی سرٹیفکیٹ ۔
۔۔۔ 2010ء میں روزنامہ جنگ پاکستان کی جانب سے بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ۔
۔۔۔ 2010ء تارکینِ و طن انٹرنیشنل لاہور /لندن کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ۔
۔۔۔ 2010ء وزارتِ انسانی حقوق حکومت پاکستان کی طرف سے خصوصی ایوارڈ۔
۔۔۔ 2010ء مصر کی جانب سے انٹرنیشنل ویب سائٹس کا تحفہ عطا ہوا۔
۔۔۔ 2011ء محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی جانب سے ڈاکٹر اے کیو خان ایوارڈ۔
۔۔۔ 2013ء ورلڈ خطاطی نمائش منعقدہ انڈیا میں خصوصی سرٹیفیکیٹ اور سجادہ نشین دربار عالیہ اجمیر شریف سید سلمان چشتی کے دست مبارک سے دستار بندی۔
دنیا کے طول وعرض میں ان کے مصورانہ خطاطی کے نمونے پہنچ چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں ان کا کام نہ ہو۔
طارق عزیز (معروف کمپےئر) کہتے ہیں۔
’’اصغر مغل کے پاس جادو کی چھڑی ہے جسے گھما کروہ اپنا من پسند کام لے لیتے ہیں‘‘
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں(ایٹمی سائنسدان) نے کہا۔
’’انسان ایک مسینجر ہے اور اللہ اپنے بندوں کو کسی خاص کام کے لئے منتخب کر لیتا ہے تو وہ اس پر کاربند ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ قرآن محل کے لئے اصغر مغل کی خدمات لی جانی چاہئیں۔‘‘
پروفیسر امین انجم نے کہا۔
اصغر مغل کے فن پاروں کی تحسین اس طرح بھی کی گئی ’’وہ بیرونِ ملک پاکستان کے سفیر ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ انہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازے۔ اُن کا فن نادر بھی ہے اور نایاب بھی‘‘
رانا غلام محی الدین ثاقب، ڈی ای او کالجز
محمد اصغر مغل کی تخلیقات کا مشاہدہ ناظر کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اُن کا موئے قلم شاہکار تخلیق کرتا ہے۔ اُن کا فن عبادت بھی ہے اور سعادت بھی‘‘۔
احتشام جمیل شامی (صحافی ، شاعر) کا کہنا ہے
۔’’کتنی ہی تتلیاں اُن کے رنگوں کو پکا اور سچا سمجھ کر اُن پر آن بیٹھتی ہیں اور وہیں چپک کر اپنی جان دے دیتی ہیں‘‘۔
۔(روزنامہ الجریدہ 9ٗ ستمبر2007)میں لکھا۔
۔’’آج اُن کی انتھک محنت اور لگن کی وجہ سے دنیا بھر کے کئی ممالک میں اُن کے ہاتھ کے بنے ہوئے فن پاروں کی نمائش ہو چکی ہے‘‘۔
۔(غلام مصطفےٰ مغل ( آرٹسٹ، شاعر،) نے جنگ میگزین 09-09-2007)میں لکھا
وطنِ عزیز پر ہی موقوف نہیں، دوردراز کے ممالک بھی اُن کے فن پاروں کی مہک سے فیضاب ہو رہے ہیں‘‘۔
(میگزین رپورٹ روزنامہ دن)
۔’’وہ دنیائے فنونِ لطیفہ کے درخشاں ستارے ہیں‘‘۔
اصغر مغل خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کا کام دیارِ حبیبؐ میں آویزاں ہو اور ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نابغہ روزگار فن کی سرپرستی کی جائے۔ ایسے فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کو صدارتی تحفہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا جائے تاکہ اس با ت کا اندازہ لگایا جائے کہ ہمارے بست و کشاد فن اور فنکار کی صحیح قدر کرتے ہیں۔
رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
Leave a Reply