دسمبر کا چاند۔۔۔۔ تحریر: آمنہ مسعود جنجوعہ

نہ جانے کیوں دسمبر میں اتنی خاموشی اور اداسی ہوتی ہے۔
فضا مین عجیب سا سکوت جیسے طوفان آنے سے پہلے سمندر کی پر اسرار خاموشی۔ اسکی یخ ٹھنڈی راتیں اور منہ سے بھاپ نکلنے کے مناظر ہمیشہ سے ایسے غم انگیز تو نہ تھے۔ ۔ ۔ ۔ وہ وقت بہت پُرانہ نہیں، صرف آنکھ بند کرنے جتنا دور ہے۔ جب، دسمبر کی اداسیاں کیا ہوتی ہیں، اندازہ ہی نہ تھا۔۔ ۔ ۔ ۔ وہ ماہِ دسمبر کا ہی ایک میلہ تھا جسمیں میں اور مسعود حصّہ لینے گئے تھے۔ لوک ورثہ کا میلہ۔ دور دور سے لوگ علاقائی ہنر اور ورثے ، لوک موسیقی اور رقص لے کر آتے اور ایک نئی دنیا آباد کر کے شائقین کے لیے سما باندھ دیتے۔ قسم قسم کے سٹالوں پر اجرک، خمتہ اور رلیوں کی بارات تھی۔ کہیں سندھی چوڑیاں اور کھنکتے زیور بہار، کہیں بلوچی سجی اور پشاوری قہویٰ کی دل لبھانے والے خوشبو۔ خواتین نہایت دلچسپی سے اپنی من پسند اشیاء خرید رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم کو احساس تک نہیں تھا کہ سردی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں اور مسعود اس بھیڑ میں اس طرح گھوم پھر رہے تھے۔ جیسے حیرانی اور خوشی سے مسحور دو بچے۔ ۔ ۔ ۔!!
ہمارے بچے نانی کے پاس سنبھالنے کے لیے چھوڑے گئے تھے اور ہم لیلیٰ مجنوں کا جوڑا بن کر میلہ گھومتے پھر رہے تھے۔ ہاتھوں میں ہاتھ، میں کتنی مسحور اور خوش تھی۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے تھا کیونکہ میرا پیارا شوہر میرے ساتھ تھا۔ اسکے پیار اورخیال کا ہیولا میرے ارد گرد تھا جس نے مجھے ہر فکر و غم سے آزاد، ہر خواہش سے مبرا کر دیا تھا۔ ہم نے ہر اسٹال دیکھا۔ ہر چیز کو بنتے ہوئے دیکھا جیسے اجرک اور بلاک پرنٹ۔ خراد کا کام، سلور کے برتنوں پر کندہ کاری۔ ہم ہر علاقائی رقص سے محظوظ ہوئے۔ ۔ ۔ بچوں جیسی حیرت اور دلچسپی سے ہم نے ہر ہر فن کا مشاہدہ کیا۔ پٹھانےخان اور عابدہ پروین کے گانے بھی چلتے پھرتے سُنے اور چہکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ بھوک لگی تو ایک بلوچی سٹال پر بلوچی سجی نہایت شوق اور خوشی سے کھائی پھر قہوہ نوش فرمایا گیا۔ ہر طرف سردیوں کے موسمی کھانے سوپ، یخنیاں، پائے، چائے، اور کافیاں بھانپیں اُٹھا رہی تھیں۔ گویا سردی میں گرمی پیدا ہو رہی تھی۔ ایک عجیب سا ماحول تھا۔ گرم جوشی تھی، پیار تھا۔ ہر طرف محبت تھی۔ گھومتے پھرتے ہم ایک ایسی جگہ آ گئے جو اسٹیج نما تھی۔ مسعود میرا ہاتھ پکڑ کر اُس پر لے آئے اور اچانک ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کوئی آسمانی مخلوق ہوں، اس دُنیا سے باہر کے کوئی کردار، لا زوال اور مثالی محبت کے استعارے۔ ہم دنیا کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے شاید آسمان سے جن و فرشتے زمین والوں کو دیکھتے ہونگے۔ ہم نے آسمان پر دیکھا تو چودویں کا چاند چمک رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!
یہ ایسا پُر کیف اور نا بُھلا سکنے والا منظر تھا جسنے دسمبر کی اس یخ رات کی سیر کو مکمل کر دیا۔ مگر مجھے اُس آسمانی چاند سے کیا غرض تھی اصل چاند تو میرے ساتھ کھڑا تھا، مسکرا ہا تھا۔ ۔ ۔ ۔!! اور ارد گرد کی تمام فضا کو نورانی کر رہا تھا۔
Leave a Reply