خوشحالی، غربت اور بجٹ

تحریر:چوہدری غلام غوث
خوشحالی، غربت اور معاشیات ایک ایسی تکون ہے جس سے دُنیا کے کسی بھی معاشرے میں توازن اور عدم توازن قائم کیا جا سکتا ہے یہ ایک قدرتی امر ہے جو معاشروں کی بقا کا ضامن ہے ۔اس تکون کی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی ذی روح شخص انکار نہیں کر سکتا۔ کسی ملک یا علاقہ کی غربت اور خوشحالی کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف اشاریئے استعمال کیے جاتے ہیں ماہرین معاشیات نے کبھی اس کی پیمائش آمدنی سے کی اور کبھی خوراک کی دستیابی اور عدم دستیابی سے اس کا اندازہ لگایا کبھی زمینوں اور مشینوں کی ملکیت کو خوشحالی کا پیمانہ سمجھا گیااور کبھی خوشیوں کا حصول معاشی اور معاشرتی سہاروں سے مشروط سمجھا گیا ان تمام نظریات کو آزمانے کے بعد آج معاش اور معاشرہ کے تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے والے فلسفی، سائنسدان اور معاشیات دان اس بات پر باہمی متفق ہیں کہ خوشحالی اور غربت کا تعلق محض دولت سے نہیں اور نہ صرف اسے محض آمدنی اور خرچ کی اصطلاحوں میں سمجھا اور ماپا جا سکتا ہے بلکہ خوشحال زندگی کا مطلب ایک ایسی زندگی ہے جس میں فرد اور سماج کی نہ صرف زندگی کی بنیادی اور اہم ضرورتوں تک رسائی ہو بلکہ ان سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند اور مرضی کی زندگی گزارنے کی آزادی بھی حاصل ہو۔ گویا مال و دولت اور سہولیات کی باہم فراہمی ہی خوشحالی کی علامت نہیں بلکہ ان دستیاب نعمتوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے استعمال کرنے کی اہلیت اور دانش بھی خوشحالی کا لازمی جز ہے اور اس اہلیت سے یکسر محروم ہونا غربت ہے یہ محرومی پیسہ کی کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی اہم وجہ ہے جبکہ صحت اور تعلیم کی کمی سے، کسی جبر یا عدم تحفظ اور انصاف کی عدم فراہمی سے بھی ہو سکتی ہے جبکہ معاشرتی زندگی میں اس کی بے شمار دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ان تصورات اور نظریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں عمومی طور پر اور ضلعی سطح پر خصوصی طور پر غربت اور خوشحالی کے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں اُن کو ملاحظہ کرنے سے مزید رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔ ان رپورٹس میں پاکستان کے 131 اضلاع کی درجہ بندی اوسط ماہانہ آمدنی کے لحاظ سے چار درجاتی فارمولہ میں تقسیم کی گئی ہے جس کے مطابق انتہائی کم آمدنی کا پیمانہ گیارہ ہزار روپے ہے اور ان اضلاع کی تعداد 33 ہے۔بہت کم ماہانہ آمدنی والے اضلاع جن کی ماہانہ آمدنی گیارہ ہزار سے پندرہ ہزار کے درمیان ہے اُن کی تعداد 55 ہے، کم آمدنی والے اضلاع جن میں ماہانہ آمدنی پندرہ ہزار سے بیس ہزار کے درمیان ہے اُن کی تعداد 37 ہے جبکہ مناسب ماہانہ آمدنی والے اضلاع کی تعداد صرف 6ہے جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر گھرانے کی اوسط ماہانہ آمدنی 14127/- روپے ہے صوبوں، اضلاع اور انفرادی خاندانوں کی اوسط آمدنی میں وسیع تفریق پائی جاتی ہے۔
قارئین کرام! اس رپورٹ میں پاکستان کے تمام اضلاع کی درجہ بندی اس طرح سے کی گئی ہے کہ جوں جوں علاقے کی اوسط آمدنی میں اضافہ ہو گا اس کا درجہ بڑھتا جائے گا یعنی پہلے نمبرپر سب سے کم آمدنی والا ضلع ہو گا اور آخر میں سب سے اچھی آمدنی والا ضلع ہو گا۔ اس رپورٹ میں اضلاع کی چار درجاتی تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے درجے میں انتہائی کم آمدنی والے اضلاع جبکہ چوتھے درجے میں مناسب آمدنی والے اضلاع شامل ہیں اس درجہ بندی کے حساب سے ملک کے صرف 6 اضلاع اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، کراچی، میر پور اور سیالکوٹ ایسے اضلاع ہیں جو کہ مناسب آمدنی والے گروپ میں آتے ہیں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کا کوئی ایک ضلع بھی اس گروپ میں شامل نہیں پاکستان کے 131 اضلاع میں سے بیشتر یعنی 55 اضلاع دوسرے گروپ میں آتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان اور فاٹاکے گنتی کے چند اضلاع کے علاوہ باقی ماندہ اضلاع سب کے سب انتہائی کم آمدنی والے علاقوں میں شامل ہیں۔
پاکستان قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پرایک زرعی مُلک ہے زراعت اس مُلک کی اکائی ہونے کے باوجود ناقص طرزِ حکمرانی کی وجہ سے ملک میں تمام آبادی کو خوراک کی مستقل فراہمی آج تک یقینی نہیں بنائی جا سکی۔ آج بھی پاکستان کی آدھی آبادی غربت یا کسی اور وجہ سے خوراک کی عدم فراہمی کا شکار ہے جبکہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی نعمت میسر نہیں۔ اس حوالے سے سب سے بہتر حالات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہیں جہاں پر 76 فیصد افراد کو کم از کم خوراک کی طرف سے بے فکری ہے۔
ایک اور مستند غیر سرکاری ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ جو کہ اُس نے پاکستان میں صوبوں اور اضلاع کی درجہ بندی، وہاں کی آبادی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی کی بنیاد پر کی ہے اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 30 فیصد آبادی تعلیم، صحت اور مناسب رہائش جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے شہری اور دیہاتی علاقوں کے طرزِ زندگی میں ایک خلیج حائل ہے جہاں یہ شرح بالترتیب 13 فیصد اور 38 فیصد ہے ملک میں ہر 100 میں سے 46 خاندان ایسے ہیں جو گھر زمین اور کسی بھی اثاثہ کے مالک نہیں جبکہ 35 فیصد کو تعلیم اور 26 فیصد کو صحت کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔
بین الصوبائی تناظر میں محرومی کا تناسب صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 47 فیصد ہے پنجاب اور سندھ میں حالات تقریباً یکساں ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں یہ شرح 33 فیصد ہے کراچی اور اسلام آباد کے عوام کو سب سے زیادہ سہولیات میسر ہیں جبکہ ڈیرہ بگٹی سب سے زیادہ محروم ضلع ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر بچہ نہ روئے تو ماں بھی اس کو دودھ نہیں پلاتی کاش حکومتی معاملات بھی اتنے ہی سادہ ہوتے پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں خواہش ہے کہ ان کی منتخب حکومتیں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بڑھ چڑھ کر عوامی فلاح کے کام کریں اور ہمارا ملک بھی تیزی سے ترقی کرے۔ غربت اور بدامنی کا خاتمہ ہو۔ خوشحالی اور امن کے ساتھ ساتھ سب کو بلا امتیاز صحت اور تعلیم جیسی سہولتیں دستیاب ہوں مگر صرف خواہش کرنے سے منزل حاصل نہیں ہو سکتی خاص طور پر ایسے دور میں جب پوری دُنیا کی معیشت اور معاشرت پیچیدہ بندھنوں میں اُلجھی ہو اور بظاہر سادہ نظر آنے والی ہر بات کے تانے بانے بھی کہیں سے کہیں جا ملتے ہوں قارئین راقم معاشیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں مگر اس کے باوجود غربت کو ختم کرنے اور خوشحالی کو لے کر آنے کا ایک قابل عمل اور سادہ سا فارمولہ رکھتا ہے اُس کے مطابق مُلک کے حکمران اور دیگر مقتدر قوتیں اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج اس مئلک کے سرکاری ہسپتالوں میں کروانا شروع کر دیں۔ اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کے بچوں کو اس مُلک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانا شروع کر دیں اور اپنی ساری دولت کی سرمایہ کاری صرف اور صرف اپنے ہی مُلک میں کریں جبکہ عدل وانصاف کی فراہمی کو ہر شہری تک رسائی دے دیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے اس چار درجاتی فارمولے کے عملی نفاذ سے مُلک میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحالی کا سورج بھی طلوع ہو سکتا ہے ورنہ باقی سب باتیں کھوکھلے نعروں کے سوا کُچھ نہیں اس وقت مُلک میں اس چار درجاتی بجٹ کی منظوری کی اشد ضرورت ہے۔جس کی طرف ایک شاعرنے بڑی خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے جسے قوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کوششیں کرنے سے حالات بدل جاتے ہیں
خود بگاڑی ہوئی تقدیر کا شکوہ نہ کرو
Leave a Reply