حج اور عمرہ! قرآن و حدیث کی روشنی میں۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر خالد محمود

Dr. Khalid Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

قرآن کریم میں سور ۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران،سورۃالما ئدۃ ، سورۃ الانعام، سورۃ الانفال، سور ۃالتو بہ ، سور ۃ ابراہیم ، سورۃ بنی اسرا ئیل، سورۃ الحج، سورۃ العنکبوت، سورۃ النمل، سورۃ القصص، سورۃ الصآفات، سورۃ الشوریٰ، سورۃ الفتح، سورۃ البلد،سورۃ التین اور سورۃ القریش میں مکہ معظمہ اور بیت اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حج و عمرہ کے مختلف احکام و افعال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔قرآن کریم اور احادیث شریف میں طواف و سعی،قیام منیٰ،وقوف عرفات اور وقوف مزدلفہ کے دوران مانگنے کے لئے بعض جامع دعائیں بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں۔
حج کی فرضیت قرآن و سنت کی روشنی میں: قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے ان لوگوں پر (اس خاص) گھر کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں (آل عمران آیت ۔97) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔(i) اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسو ل ہیں۔
(ii) نماز قائم کرنا۔(iii ) زکوٰۃ ادا کرنا۔ (v i) رمضان کے روزے رکھنا اور(v ) حج ادا کرنا۔ حج بیت اللہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک اہم رکن اور عظیم ستون ہے۔ حج کسی ایک فعل کا نام نہیں بلکہ یہ بہت سے افعال پر مشتمل ایک طویل عبادت ہے۔ حج ساری زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ بعثت نبویﷺ کے 21 سال بعد تک یعنی 8 ہجری تک بیت اللہ شرک اور بت پرستی کا مرکز بنا رہا اور طریقہ جاہلیت کے مطابق مشرک حج کرتے رہے۔ سن 8 ہجری میں آپﷺ نے مکہ فتح کیا توبیت اللہ شریف کو بتوں اور تصویروں سے پاک کیا۔ سن 9 ہجری میں حج فرض ہوا تو آپ ﷺ نے اس سال حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا او پہلی مرتبہ فریضہ حج اسلامی شریعت کے مطابق ادا کیا گیا اور رسول اکرمﷺ نے خود اگلے سال سن 10ہجری میں ایک لاکھ بیس ہزار (کم و بیش)صحابہ اکرامؓ کے ساتھ حیات طیبہ کا پہلا اور آخری حج ادا کیااور تاریخی خطبہ حجتہ الوداع ادا فرمایا اور صحابہ اکرا مؓ کو مناسک حج و عمرہ بتائے۔ حج فرض ہے اور عمرہ سنت مؤکدہ ہے۔حج زندگی میں ایک بار کرنا صاحب استطاعت مسلمان پرفرض ہے۔اگر ایک سے زیادہ حج کرے گاتو بعد والے حج، حج بدل یا نفلی حج کہلائیں گے ۔ پوری زندگی میں ایک یا ایک سے زیادہ عمرے ادا کئیے جا سکتے ہیں۔نبی رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک حج (حج قران) اور چار عمرے ادا کئیے تھے۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کا کوئی بھی حکم مصلحتوں سے خالی نہیں ہے۔حج کے احکام کے بارے میں جب ہم غور کرتے ہیں توہمیں ان میں بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں نظر آتی ہیں جو انسان کی سوچ اور سمجھ سے با لا تر ہوتی ہیں اور پھر بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ انکی سمجھ آنی شروع ہو جاتی ہے ۔قرآن کریم فرقان حمید میں تینوں اقسام کے حج کا ذکر آیا ہے۔سورۃ البقرہ میں حج تمتع اور حج قران کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کیلے ( سورۃ البقر ہ آیت نمبر۔196)اور حج افراد کے بارے میں سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے ۔( سورۃ آل عمران آیت نمبر۔97)
عمرہ کی شرعی حیثیّت: عمرہ کا جواز بھی قرآن مجید اور سنت نبوی سے ثابت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے اور اللہ کی خشنودی کے لیئے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر۔196) بلا شبہ عمرہ ایک عظیم عبادت ہے اور اسے حج اصغر (چھوٹا حج) بھی کہا جاتا ہے۔ ایام حج کے علاوہ پورا سال کسی بھی وقت عمرہ کیا جا سکتا ہے۔عمرہ کی فضیلت کے بارے میں بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں سے چند احادیث مبارکہ کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے تا کہ عمرہ کے دوران کی جانے والی عبادات کی اہمیت،عظمت اور اللہ پاک کی طرف سے ان پر اجر عظیم واضح ہو جائے۔ 1 ۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا رمضان المبارک میں عمرہ کرنا مستحب اور افضل ہے(بخاری ، مسلم )2۔حضرت ابو داؤدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا رمضان کے عمرہ کا ثواب ایک حج کے برابر اور اس حج کے برابرجو میرے ساتھ کیا ہو( بخاری)3۔حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا لگاتا ر حج و عمرہ فقراور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے کی میل کو دور کرتی ہے۔(ترمذی ، نسائی ) 4۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے(بخاری ، مسلم) 5۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص احرام کی حالت میں مرے گا وہ روز محشر لبیک پکارتا اُٹھے گا(نسائی )6۔حج اور عمرہ پر جانے والے اللہ تعالیٰ کے خصوصی مہمان ہوتے ہیں(ابن ماجہ)7۔حج اور عمرہ پر جانے والے اللہ سے دعا کریں تو اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ بخش دیتا ہے(طبرانی)8۔جو شخص حج یا عمرہ کے لئے نکلا اور راستہ میں فوت ہو گیاتو اس کے واسطے قیامت تک حج و عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے اور روز قیامت نہ اس کے گناہ پیش کئے جائیں گے اور نہ کچھ حساب لیا جائے گابلکہ بغیر روک ٹوک اور بغیر حساب کے حکم ہو گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ (بیہقی)
مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے باسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال اللہ کے ہاں اسی صورت قبول ہوں گے جب وہ سنت رسولﷺ کے مطابق ہوں گے جو اعمال سنت رسولﷺ سے ہٹ کر ہوں گے وہ اللہ کے ہاں غیرمقبول ہوں گے۔مناسک حج پر ایک نظر ڈالئیے اور غور فرمائیے کہ یہ مناسک شروع سے لیکر آخر تک کس طرح حاجی کو اتباع سنت کی تعلیم دیتے ہیں۔
سیرت اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مالدار لوگوں کو کثرت سے نفلی حج اور عمرے کرنا چاہئیں۔ازواج مطہراتؓ ،صحابہ اکرامؓ، تابعین اور تبع تابعین فقرو فاقہ اور تنگدستی کے باوجود کثرت سے حج کرتے رہے بعض تو مالی کمی کے باوجود ہر سال حج کرتے تھے۔ حج تمام انبیاء کرام ؑ کی سنت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے خانہ کعبہ کا حج کیا ہے۔
ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ حج اور عمرے کی ادائیگی سے ہمارا مقصد حکم الٰہی کی تعمیل،اللہ کی رضا اور سنت رسول ﷺ کی پیروی کے سوا اور کچھ نہ ہواور حج کے بعد جب اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے پاک کر دے تو پھر کوشش یہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے نامہ اعمال میں ازسرنو گناہوں کا
اضافہ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سبکو حج اور عمرہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
نوٹ:قرآنی آیات اوراحادیث مبارکہ کے ادب اور تقدس کے پیش نظر عربی میں لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے اور صرف اردو ترجمہ لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hrm9dgd
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *