جانوروں کی طرح انسانوں میں بھی مقناطیسی میدان کو سمجھنے کی صلاحیت موجود

Print Friendly, PDF & Email

بیجنگ: بعض بیکٹیریا اور بالخصوص پرندے زمینی مقناطیسی میدان کا احساس کرتے ہوئے اپنی سمت کا تعین کرتے ہیں مگر اب معلوم ہوا ہے کہ خود حضرتِ انسان کا دماغ بھی مقناطیسی امواج کو محسوس کرسکتا ہے ماہرین نے اس عمل کو ’مقنا احساس‘ یا ’میگنیٹو ریسپشن‘ کا نام دیا ہے۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان بھی مقناطیس کو بھانپنے کی چھٹی حِس رکھتا ہے۔ امریکا اور چین کے ماہرین نے بعض انسانی رضا کاروں کو تجربہ گاہ میں طاقتور مقناطیسی میدان میں لاکھڑا کیا اور معلوم کیا کہ اگر مقناطیسی میدان کی الٹ پلٹ کی جائے تو انسانی دماغ کی بعض امواج اسے محسوس کرسکتی ہیں۔

یہ تحقیق ای نیورو نامی تحقیقی جرنل میں 18 مارچ کو شائع ہوئی ہے لیکن یہ جاننا باقی ہے کہ انسان اس حس سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھیے کہ ہماری زمین کا اپنا مقناطیسی میدان ہے جو بہت کارآمد ہے۔ ایک جانب تو طویل فاصلوں تک اڑنے والے پرندے اپنی سمت معلوم کرتے ہیں تو بعض مچھلیاں بھی اسے محسوس کرکے اپنی راہ لیتی ہیں لیکن انسانوں میں اسے محسوس کرنے کی خاصیت پہلی مرتبہ دریافت ہوئی ہے۔
بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر کین ژائی کہتے ہیں کہ اس دریافت پر وہ اتنے حیران ہوئے کہ پہلے تو انہیں اس پر یقین ہی نہیں آیا۔ ان کے مطابق اس سے انسانوں میں مقناطیسی میدان کے احساس کی راہیں کھلیں گی اور مزید تحقیق سے خود انسانی دماغ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

تجرباتی طور پر 26 صحت مند افراد کو ایک خاموش اور تاریک کمرے میں بٹھایا گیا اور ان کی آنکھیں بند کروائی گئیں۔ کمرے میں جابجا مقناطیسی میدان بنانے والی برقی مقناطیسی (الیکٹرو میگنیٹ) کوائلز لگائی گئی تھیں جو عین ارضی مقناطیسی نظام کی نقالی کررہی تھیں۔ اس سے بننے والی برقی میدان کی سمت بار بار تبدیل کی گئی اور اس پورے عمل میں شرکا کو ای ای جی ٹوپیاں پہنا کر دماغی سرگرمی کو نوٹ کیا جاتا رہا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y5hz4dox
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *