تلوار سے شیر تک

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

بڑی افسوس ناک خبر ہے ڈاکٹر عبدلقدیر کی رحلت کی اس دنیا سے ۔جانا تو سب کو ہے  رہنا کسے ہے اس دنیا میں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں  جب یہ دنیا چھوڑ دیتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ بقا پاتے ہیں اور جن سے قومیں جینے کے فن سے واقف ہوجاتی ہیں ۔لیکن صد افسوس ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں محسنوں کو ان کے جیتے جی وہ مقام حاصل نہیں ہوتا  جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں ان کی راہوں میں کانٹے بچھا کر ان کے لیئے قبر کا راسہ ہموار کیا جاتا ہے پھر مرنے کے بعد کندھوں پہ اٹھاکر قبر میں اتارنے میں کسی قسم کی بخیلی نہیں تو ہیرا پھیری   ضرور کرتے ۔  شائد اسی کو  چکر دینا  کہا جاتا ہے    اور یہ چکر  کبھی بہت پیچیدہ اور  کبھی بہت لمبے  ہو جاتے ہیں جیسے   محسن پاکستان  کی تدفین   کی جگہ  کی تعین   میں     لواحقین   کو   چکر کاٹنے پڑے     اور محسن  پاکستان کی  وصیت   باآور نہ ہو سکی ۔ آپ کہیں چکر  نہ کھا جائیں     ہم اپنی تلوار  قلم  کو کسی چکر  میں ڈالنے  کا  نہ  ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی بخیلی  کرنے کا ارادہ ہے۔ کسی لگی لپٹائی چند باتیں ہو جائیں   ۔آج جب محس پاکستان  ہم میں نہیں رہے  تو  ذہن میں کچھ الفاظ   تیرنے لگے ۔تلوار ۔محسن اور شیر ۔  جی ہاں جنگ جیتنے کے لیئے تلوار کی ضرورت ہوتی ہے  اور مسلمانوں  نے تلوار ہی سے جہاد کیا ہے  ۔ہمارے رسول سے بڑا جہادی کون تھا۔ جیسے ہمارے نبی جہادی تھے  ایسے ہی ان کے رفقائے کار بھی اپنے وقت کے بڑے جہادی رہے اور یہ سب  ایسے نہیں  بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت  سر انجام دیئے گئے یا  انجام پذیر ہوئے۔ آج  اسلامی  ملک کی حالت یہ ہو چکی ہےجہاں  تلوار کا نام بھی لیتے ہوئے گھبرا ہٹ   محسوس  کی جاتی  ہے  کہ کہیں کوئی سن نہ لے اور  قدامت پرست کہلائیں ۔اور نہ ہی یاں  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر   پر عمل پیرا ہے ۔قرآن کا ارشاد ہے ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ (آل عمران)  محسن کسے کہا جاتا ہے یہی نا مدد گار اور بھلائی کرنے والا ۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو جہاد  کے بعد  اسی مدد اور بھلائی ہی کا چرچا   اسلام میں  نمایاں نظر آتا ہے  ۔اور جس نے  تلوار  کے کام کو پیچھے دھکیلا  تبھی تو کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں  بھلائی مدد اور ایک دوسرے  سے ہمدردی  کرنے سے پھیلا  ہے۔اگر ہم رسول کی سیرت  کا مطالعہ کریں  تو  کائینات کے اس محسن اور رہبر کی تعلیمات  سے  یہی  چیز مل جاتی ہے کہ آپ نے  ہمیشہ  اجتماعی  کاموں  کی حوصلہ افزائی   اور برائی سے بچنے  اور خیر کی طرف  بڑی ہی حکمت عملی سے لوگوں کو بلایا ۔اور حکمت عملی کیا ہے   جہاں  طاقت  کی ضرورت ہو وہاں تلوار اور جہاں  نرمی وہاں  موم بننا ۔اسی کا نام  بہادری اور جرعت ہے جسے شیر جیسے بہادر جانور سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔اور جس مسلمان کے اندر  یہ تینوں چیزیں بدرجہ تم موجود ہوں   وہی اللہ کا سپاہی، اللہ  کا شیر اور  محسن  کہلاتا ہے اور انسان کیا ہے  زمین پر اللہ کا نائب ۔اور جس نے بطور نائب  اپنے فرض کو جانا  وہی کامیاب انسان  کہلاتا ہے ۔اور اللہ  کچھ انسانوں  کو  ایسی صلاحتیں عطا کرتا ہے کہ  وہ اپنی ان صلاحتوں سے  ایسے کام کر جاتے ہیں   جن سے پوری انسایت  بہرہ مند ہوجاتی ہے ۔ایسے ہی انسانوں کی فہرست میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام بھی نظر آجاتا ہے  ۔جسے  پاکستانی محسن قوم یا محسن پاکستان  کے نام سے پکارتی ہے ۔کیوں؟ اس لیئے  کہ اس مرد مجاہد اور محسن قوم  نے  ایٹمی تلوار مرحوم ذولفقار علی بھٹو  کے دور میں اٹھائی تھی  اور  وقت  کے دھارے  میں ضرورت کے تحت  چلاتے رہے   اور میاں محمد نواز  شریف   کے دور میں  شیر  کی طرح   گرج کے ساتھ   جو وار کیا اس کی  آواز کو  لوگوں نے  چاغی کے پہاڑ پر  نہ صرف سنا بلکہ دیکھا بھی۔   اور  یہ  قدیر  خان کا وہ تحفہ  ہے    جو نہ صرف  قیمتی ہے بلکہ انمول   بھی اور ہم مردہ قوم کے لیئے ڈاکٹر عبدالقدیر  کا احسان عظیم بھی ۔الوداع اے  محسن قوم الوداع 

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

Short URL: https://tinyurl.com/yzqjtvda
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *