تفصیلی و تاریخی انٹرویو فرزند کشمیر چئیرمین یو کے پی این پی سردار شوکت علی کشمیری

Print Friendly, PDF & Email

لندن(انٹرویو: ایس ایم عرفان طا ہر ) فرزند کشمیر و چئیرمین یو نا ئیٹڈ کشمیرپیپلز نیشنل پارٹی(یو کے پی این پی) سردار شوکت علی کشمیری 1958 کو آزادکشمیر کے ضلع سدھنوتی تراڑ کھل کے ایک گا ؤں پپے ناڑ میں پیدا ہو ئے ۔ ابتدائی تعلیم تراڑ کھل سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلیے پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری شہر کراچی صوبہ سندھ سے ایف ایس سی، بی ایس سی، ایل ایل بی اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی زمانہ طا لبعلمی سے ہی بائیں بازو کی تحریکوں کے ساتھ وابستہ رہے ۔عظیم کشمیری رہنما و چئیرمین یو نا ئیٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی (یو کے پی این پی) سردار شوکت علی کشمیری نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو ئے اپنی حالات زندگی اور عزائم و نظریات با رے آگاہ کرتے ہو ئے بتایا کہ جب ابتدائی دور میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کی نیشنلسٹ تحریکوں کا مطالعہ کیا تو اس وقت نظر اپنے وطن عزیز کی آزادی و خود مختاری اور خو شحالی کی طرف گئی ہمارا ملک دو ممالک کے زیر قبضہ ہے اور تیسری قوت چائنہ بھی اس پر قابض ہے ۔ 1947 کا آزادکشمیر کا اپنا آئین پھر گلگت ، بلتستان اور دونوں ممالک کے آئین پا نچ آئین ہو نے کے باوجود بھی کشمیری قوم کے بنیا دی سیاسی سماجی اقتصادی معاشی اور نظریاتی حقوق کو کوئی تحفظ فراہم نہیں ہے ۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے ایکٹ 74 کے تحت عوام کا حق محفوظ نہیں ہوتا ہے ۔ازل سے اسلامی جمہو ریہ پاکستان کی حدود و قیود میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان نہیں آتا اور تا ریخ اسے متنا زعہ ہی قرار دیتی ہے ۔ آزادکشمیر کی حکومت بنا نے یا گرانے میں سب سے اہم کردار جی او سی مری کا رہتا ہے آزادکشمیر کی تمام سیاسی پارٹیا ں جنہیں پاکستان کا حمایتی قرار دیا جا تا رہا ہے وہ بھی ہمیشہ سے اس مداخلت کا کہیں نہ کہیں رونا روتے ہیں ۔ آزادکشمیر کے لوگوں کی جمہو ری طا قت کو ہمیشہ پاکستان کی طرف سے طا قت کے بلبو تے پر کچلنے کی کوشش کی جا تی ہے ۔ تضاد یہ ہے کہ پاکستان ایک جانب تو ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ قرار دیتا ہے اور دوسری جانب اس بات کا دعوے دار بھی ہے کہ ریا ست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی سٹیٹ ہے لہذا اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چا ہیے ۔ درحقیقت تقسیم ان علاقوں کی ہوئی جو تاج برطانیہ ہند کے زیر تسلط تھیں اور جنہیں انگریز حکومت خود چلا رہی تھی خطہ کشمیر کی ۵ سے ۶ ہزار سال ایک قدیم تا ریخ ہے ریا ست جمو ں و کشمیر 8 چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق تھا پو نچھ سٹیٹ تھی ، جموں سٹیٹ تھی اسی طرح گلگت بلتستان ایک سٹیٹ تھی اس خطے کی ایک اپنی شناخت اور وقار تھا کلچر اور زبان کے حوالہ سے بھی دوسرے علاقوں سے جداگانہ حیثیت کا مالک تھا۔ شیر کشمیر شیخ عبد اللہ نے درحقیقت مہا راجہ کے شخصی راج کو توڑا اور اسوقت کے حکمران کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ اسی طرح پنجا ب کے چند درباری اور ضمیر فروش دانشوروں نے تا ریخ کو مسخ کرنے کی پو ری کوشش کی جو بات کہی جاتی ہے کہ انگریزوں نے گلا ب سنگھ کے ہا تھو ں کشمیر کو فروخت کیا یہ سراسر تا ریخی حقا ئق سے بد یا نتی اور من گھڑت بات ہے۔ وہا ں کے بسنے والے غیور اور محب وطن افراد کی دیرینہ خواہش یہی رہی کہ ریاست جموں و کشمیر میں شخصی راج کا خاتمہ ہو اور وہاں پر ایک جمہو ری ماحول اور عدل و انصاف کا دور شروع ہو پہلے اس ریاست پر مغلوں نے قبضہ جمایا ڈیڑھ سو سال تک یہ خطہ مغلوں کے زیر تسلط رہا اور یہا ں کے بسنے والوں نے یہ قبضہ قبول نہ کیا اور ویلی کے اندر ایک تحریک کا آغاز کیا گیا ۔ جمو ں ،سری نگر ،پونچھ اور راجوری یہ سب شہر ہیں جبکہ کشمیر ایک ملک تھا اور اسے ایک ملک کے طور پر ہی رہنا ہے یہا ں کے بسنے والو ں کو اس کی تقسیم یا الحا ق قابل قبول نہیں ہے پہلے ادوار میں طاقت ور کمزور کو فتح کرتا آیا ہے اسی طرح کشمیر پر پہلے مغلوں نے قبضہ جمایا پھر افغانی اس پر حملہ آور ہو ئے اور پھر آخر میں سکھوں کی حکومت قائم ہوئی پو نچھ لداخ بلتستان اور جموں یعنی کشمیر مہاراجہ گلا ب سنگھ کے مفتوحہ علا قے تھے جب 1840 میں پونچھ فتح ہوا تو سکھ کنگ ڈم انگریزوں سے مکمل طور پر شکست کھا گئی پھر مہا راجہ رنجیت سنگھ کے مابین انگریزوں کا ایک معاہدہ طے پایا کہ انگریزوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا ئے گا اور اس حوالہ سے حکومت میں ریاست کوئی مداخلت نہیں کرے گی ۔ جب پنجاب پر انگریز حکومت نے قبضہ جمایا تو پھر انگریزوں نے کشمیر کے حوالہ سے سکھ کنگ ڈم سے دو کڑوڑ نانک شاہی تاوان کا مطالبہ کیا اس وقت مہا راجہ نے 75 لاکھ نانک شاہی تاوان انگریز حکومت کے حوالہ کرتے ہو ئے کشمیر کو ایک علیحدہ ریاست اور کشمیری قوم کو ایک منفرد شناخت فراہم کی مہاراجہ گلا ب سنگھ کا یہ کارنامہ تھا کہ اس نے انگریز حکومت کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے بعد کشمیریوں کو ریاست جمو ں و کشمیر کا اول درجہ کا شہری قرار دے دیا گیا ۔یوں 1846 کے بعد کشمیری قوم کا حق خود ارادیت بحال ہوا ا اور انہیں ایک علیحدہ شناخت اور پہچان حاصل ہوئی ۔ اور پھر اسی طرح سے ایک منظم تحریک باقا عدہ طور پر 1932کے بعد آغاز پذیر ہوئی جب آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا کیونکہ جموں میں اکثریتی ہندو اور لداخ میں اکثریتی بدھ مت ہیں اس حوالہ سے مسلم کا نفرنس کو محض مسلمانو ں کی ترجمان کی حیثیت سے سمجھا جا نے لگا اور پھر بلا تفریق مذہب رنگ ونسل کے امتیا ز کے بغیر نیشنل کا نفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں بلا رنگ و نسل مذہب علاقہ تمام لوگوں کے مساوی حقوق کا تعین کیا گیا۔ انگریز حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو ریاستیں آزاد ہیں انکے آئینی ہیڈ موجود ہیں وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خو د کریں گی لیکن جو علاقے بلا واسطہ انگریز حکومتوں کے زیر تسلط تھے انہیں ضرورت کے مطابق تقسیم کردیا گیا یوں 1947 کے بعد پنجاب کے کچھ گاؤں بھی تقسیم کیے گئے اسی طرح سے خیبر پختونخواہ میں باقا عدہ طور پر ریفرنڈم کروایا گیا ۔ تقسیم کے دوران انڈسٹری مالکان زیادہ تر کانگریس کی سپورٹر تھے جو کہ انگریزوں کے حق میں تھی ۔ مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور اس کی پیچیدگیوں کو پرکھنے اور حقیقی طور پر سمجھنے کے لیے درحقیقت اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے حوالہ سے پاکستان اور بھا رت کا کردار کیا رہا ہے ؟ سب سے پہلے پاکستان نے جو کشمیر پر حملہ کیا اس کی روداد میجر جنرل اکبر نے اپنی کتاب کشمیر کے حملہ آور میں تفصیل سے بیان کی ہے ۔ اسی طرح سے جنرل ایوب خان نے بھی اسکا احوال اپنی کتاب میں لکھا ہے ۔ اسوقت مہا راجہ ہری سنگھ نے حملہ آوروں کے خلا ف اپنی بقاء اور تحفظ کی خا طر بھا رت کے ساتھ ایک عارضی الحاق کا معائدہ کیا جس کے تحت مہا راجہ نے بھا رت سے درخواست کی کہ ان کی آزادی اور جان و مال کا تحفظ کیا جا ئے۔ اور یہ معاملہ 17 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کے پاس چلا گیا جہاں 13 اگست 1948 کو ایک قرارداد منظور کی گئی کہ لڑائی کی غرض سے جو لو گ کشمیر میں داخل ہو ئے ہیں انہیں خارج کیا جا ئے پاکستان نے اس بات کو تسلیم کر لیا لیکن بعد میں اس بات سے بھی انحراف کیا گیا پاکستان کے بار بار اسرار کے بعد پھر 5 جنوری 1949 کو سپلمنٹری قرارداد پاس ہوئی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ آزادکشمیر گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام لوکل اتھا رٹیز قائم کی جائیں اور بھا رت 50 فیصد سے اوپر فوج کو با ہر نکا لے اور دیگرافواج امن کے قیام کے لیے اپنی خدما ت سرانجام دیں گی سری نگر کی گو رنمنٹ انتظامیہ رہے گی جب اقوام متحدہ اور سری نگر کی حکومت غیر جانبدارانہ اور آزاد را ئے شماری کروا لیں گے رائے شماری کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ پاکستان اپنے تمام لوگوں اور افواج کو کشمیر سے نکا لے گا پاکستان نے قراداد کی بنیا دی شرط کو قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے رائے شماری کا مرحلہ تا حال ادھو را ہے اور پھر اپنے مفادات کی خا طر اس سے منحرف ہو گیا آج ہما ری قوم کو صیح حقا ئق اور اصلیت سے دور رکھا جا رہا ہے عوام جو مختلف لوگوں کے لقمہ دینے پر ہرزہ سرائی کررہے ہیں وہ اپنی تاریخ اور حقا ئق سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں کشمیر کا مسئلہ 1949 سے کشمیریوں اور بھا رت کے مابین تھا لیکن پاکستان قراردادوں کو متنازعہ مانتا گیا اور اس مسئلہ کے حل کی طرف عملدرآمدرک گیا ۔ ریاست جموں و کشمیر میں مختلف مکا تب فکر مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں جو جس کی غلا می میں ہوتا ہے اسکے خلا ف ردعمل ایک مسلمہ اصول ہے ۔ آج کچھ لوگوں نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں حقوق کے حوالہ سے جد وجہد شروع کی ہے۔ دفعہ 56 کے تحت آزادکشمیر حکومت کوحکومت پاکستان غیر فعال کر سکتی ہے 6 کشمیر کونسل کے ممبر بھی حکومت پاکستان کے مکمل طور پر محتاج ہیں ایکٹ 74 کے تحت وزیراعظم آزادکشمیر کے کوئی اختیارات نہیں ہیں چیف سیکرٹری ، اکا ؤ نٹنٹ جنرل ، آئی جی پولیس اور اعلیٰ عدلیہ کے قلیدی عہدے پاکستانی حکومت ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہے اس پر کوئی کشمیری تعنیا ت نہیں کیا جا تا ہے ۔ نام نہاد آزادحکومت کی آئینی طور پر کوئی حیثیت اور طا قت نہیں ہے ۔ آزادکشمیر کی اسمبلی حکومت پاکستان کی محتاج ہے کسی بھی تبدیلی کے لیے پہلے سفارشات وزیراعظم پاکستان کو بھجوائی جا تی ہیں اور پھر اس کی ثواب دید پر ہے کہ وہ کوئی بات منظور کر ے یا نہ کرے ۔ آزادکشمیر کی نما ئشی گورنمنٹ کشمیری عوام کے لیے کوئی حق ادا نہیں کرسکتی ہے ۔ وطن پرست ہمیشہ اسی کا لے قوانین اور جابرانہ سوچ کے خلا ف آواز حق سربلند کرتے آئے ہیں محاذ رائے شماری پہلی خو د مختار کشمیر کی حامی پارٹی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے ڈاکٹر خان کی حکومت کو ختم کروایا گیا وہا ں سے غیر جمہو ری روایات کی بنیا د پڑی ۔ تاریخ کے لکھاریوں نے پاکستان سے وفا داری نبھا نے کی خا طر وہ کچھ لکھ ڈالا جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی آل جموں وکشمیر مسلم کا نفرنس کے سرکردہ رہنما سردار ابراہیم خان اسوقت ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھے جو کہ مہا راجہ کے سرکاری وکیل بھی تھے انکے ساتھ وابستہ من گھڑت کہانیوں کی کوئی تصدیق موجود نہ ہے کہ انہو ں نے پاکستان بننے سے قبل ہی قرارداد الحا ق پاکستان منظور کروائی ہو کیونکہ وہ مہا راجہ کے وفادار تھے اور اس کے سرکاری وکیل کی حیثیت سے کام کررہے تھے ۔ خود ساختہ کہانیوں نے ہما ری تاریخ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ 1940 میں مسلم کانفرنس کی بحالی کے بعد میر واعظ یو سف شاہ کو صدر بنایا گیا اور مسلم کانفرنس مہا راجہ کی حما یت میں رہی یہ شواہد نہیں ملتے کہ سید یو سف شاہ یا چو ہدری غلام عباس نے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی کوئی بات کی ہو ۔ جو لو گ محمد علی جناح کے ساتھ اس با ت کو منسلک کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا نا چاہتے تھے تو انہیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ محمد علی جنا ح نے ہمیشہ ریاستوں کی خود مختاری کے لیے جنگ لڑی پھر وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ کیسے بنا سکتے تھے جناح تو اس بات پر سخت نالاں تھے ۔ اصل میں لارڈ ماؤننٹ بیٹن نے کشمیریو ں کو اس بات پر زور دیا کہ وہ یا تو بھا رت کے ساتھ الحاق کریں یا پھر پاکستان کے ساتھ خود مختاری کا کوئی راستہ نہیں ہے سیاسی مفادات کی وجہ سے یہ ساری صورتحال پیدا کی گئی ۔مسلح جدو جہد کی تحریکیں علیحدگی کے حوالہ سے موجود ہیں صد افسوس کے 21 ویں صدی میں بھی کشمیر کی عوام کے حقو ق سلب کیے جا رہے ہیں ۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کیا جنگ لڑی جا رہی ہے وہا ں کے حالا ت کون سے ساز گا ر ہیں بھا رت کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کا رونا رونے والے اس بات کا جواب دیں کہ کراچی اور مرید کے سے جا نے والا شخص کشمیریوں کو کیا نقصان نہیں پہنچا رہا ہے ؟ بھا رت اپنے معاہدہ کے مطابق تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو گیا ہے ۔ دونوں اطراف سے ما رے صرف کشمیری ہی جا رہے ہیں مشکلا ت اور مصائب کے پہا ڑ کشمیری قوم پر گرائے جا رہے ہیں ۔ محض سیاسی دعووں اور وعدوں سے کام لیا جا رہا ہے جبکہ 22 اکتوبر 1947 سے کشمیری ظلم کی چکی میں پس رہا ہے پاکستان اور بھا رت دونوں کے ناروا اور منفی سلوک و کردار سے متا ثر کشمیری ہو رہے ہیں ان دونوں ممالک کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا ہے ۔ افضل گورو اور شہید مقبول بٹ دونوں کے ساتھ زیادتی کی گئی بھا رت نے انسانی حقوق کا لحاظ رکھے بغیر انہیں موت کی سزا سنا دی اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کیا گیا ۔ افضل گورو کے خلا ف انڈین جو ڈیشل نے غلط فیصلہ دیا جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔ شہید مقبول بٹ ایک عظیم کشمیری رہنما تھے جنہوں نے ہمیشہ نیشنلسٹ قوتوں کو پرموٹ کیا انہیں مسلح جدوجہد سے منسلک کرنے والے غلطی پر تھے وہ تو سیکولر سٹیٹ کے حامی تھے اور کشمیر کی مکمل خودمختاری و خو شحالی کے علمبردار تھے ۔ محاذ رائے شماری کی سوچ اور حکمت عملی سے اختلاف رکھتے تھے ۔ شہید مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد احتجاج کرنے پر مجھے 3 ماہ قید رکھا گیا اس حوالہ سے لبریشن فرنٹ نے ہمیشہ مہم جوئی کی جسے بہتر حکمت عملی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ کسی ملک سے وابستگی یا تعلق کی بنیا د پر کسی کی جان نہیں لی جا سکتی ہے ۔ بھا رت نے یہ اقدام انکی کسی ملک کے لیے کام کرنے یا وابستہ ہو نے کے باعث بھی اٹھایا ہے تو غیر قانوی اور غیر فطری ہے ۔ اسی طرح سید علی گیلانی کا موقف کشمیر کے حوالہ سے واضح ہے کہ وہ پاکستان کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور جہا د کو اس مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں کسی پر کوئی لیبل لگا دینے سے بات کی وضا حت نہیں ہوتی ہے بلکہ اڈیا لوجی کا فرق ہے ۔ خط امتیا ز کھینچا جا ئے حب الوطنی اور فرقہ پرستی میں فرق ہونا چا ہیے ۔ جو شخص اپنی قوم کے اقتدار اعلیٰ پر یقین رکھتا ہے وہ محب وطن ہے اس کے کردار اور نظریا ت پر کبھی بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ جو لوگ نام نہا د جہا د اور فساد کے زریعہ سے اس مسئلہ کا حل چا ہتے ہیں وہ درحقیقت تقسیم کی حدیں مضبوط کرنے میں مشغول ہیں فرقہ پرست کو قوم پرست کہنا غلط ہے ۔جو افراد خو د کو کشمیری بھی کہلواتے ہیں اور پھر کسی دوسرے ملک کی حمایت یا وابستگی کے گیت گا تے ہیں وہ لو گ اپنی قوم اور ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں بلکہ وہ ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم در تقسیم کرنے کے مشن پر گامزن ہیں ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے ۔ اسلامک دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کا اعلان انتہائی خوفناک اقدام ہے اس سے تحریک کو نقصان پہنچے کا شدید خطرہ ہے جو دہشت گرد تنظیم جمہو ریت اور عوامی طاقت پر یقین نہیں رکھتی ہے وہ کیسے ایک جمہو ری عمل کی بجا آوری کے لیے کوئی مثبت اقدام اٹھا سکتی ہے کسی بھی ایسی دہشت گرد تنظیم کے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہو نے سے اس مسئلہ کو بے حد نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ کشمیر مذہب عقیدے یا کسی بھی فرقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قوم کا مسئلہ ہے جس میں پنڈت ، سکھ ، مسلمان،بدھ اور دیگر مذاہب کے افراد ایک قوم کی حیثیت سے آباد ہیں انہیں کسی مذہبی نظریات کی بناء پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے مذہبی انتہا پسند تنظیمیں تحریک آزادی کو سبو تاژ کرنے میں مصروف عمل ہیں کشمیریا کشمیری قوم کا فیصلہ القا عدہ ، طالبان یا کوئی بھی اسلامی انتہا پسند تنظیم نہیں کروا سکتی ہے بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ مل کر پہلے مذہبی انتہا پسندوں کو کشمیر کی سرزمین سے با ہر کرنا ہو گا ۔ گذشتہ دہا ئیوں میں سرد جنگ اور جہا دی سرگرمیوں کی وجہ سے تحریک کو بے حد نقصان پہنچا ہے جس کی بدولت کوئی خا طر خواہ پیش رفت ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ دونوں ممالک کے انتہا پسند جنونیوں نے اپنے ذاتی مفادات اور رنجشوں کی آڑ میں کشمیری قوم کومتاثر کیا ہے دونوں ممالک کی آپسی جنگ میں نقصان صرف اور صرف کشمیری قوم کا ہی ہوتا ہے ۔ کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں رونما ہوئی ہیں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور ہر معاملہ میں خو ن کشمیر ی قوم کا بہایا گیا ہے یہ دونوں ممالک تو انفرادی اور مجموعی طور پر محفوظ ہی رہے ہیں ۔ بین الاقوامی ایجنڈے پر یہ مسئلہ گذشتہ طویل عرصہ سے موجود ہے ہر کوئی اس کی حساسیت اور پیچیدگیوں سے واقف ہے لیکن بیرونی طاقتیں محض پاکستان یا بھا رت کو دبا نے کے لیے ٹول کے طور پر اس مسئلہ کو استعما ل کرتے ہیں جبکہ اس کے حقیقی حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے ۔ پاکستان اور بھا رت کے حکمران عقل مندی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اس بات کو سمجھ جائیں اور اس مسئلہ کو حل کی طرف لے جائیں تو یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اس سے نہ صرف انکے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے بلکہ دیگر سیاسی اور اقتصادی سطح پر پیدا ہو نے والے مسائل سے بھی مکمل طور پر چھٹکا را حاصل ہو جا ئے گا ۔ بیرون ممالک میں بسنے والے کشمیریوں کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر لابنگ کرتے ہو ئے پاکستان اور بھا رت کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اس اہم مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت کریں ۔چند کالی بھیڑیں حق خو دارادیت کے نام پر بھی کشمیری قوم کو بیوقوف بنا نے میں مصروف ہیں بلا شبہ سکاٹ لینڈ ریفرنڈم ایک اہم اقدام ہے لیکن اس کی تحریک خاصی پرانی ہے برطانیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے چھوٹی سے چھو ٹی قوم کی بات تسلیم کرنا اور انہیں عزت دینا جا نتا ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان اور بھا رت میں تسلیم اور برداشت کا ہر گز مادہ نہیں ہے حق خود ارادیت کی بات کرنے والوں یا ریاست جموں کشمیر کی وحد ت اور کلی آزادی کی تحریک چلا نے والوں کو ہر لحاظ سے کچلنے کی کوشش کی جا تی ہے ان کو خفیہ اداروں کے زریعہ سے قتل کروایا جا تا ہے ان کی سوچ اور جذبات پر غلامی کے تالے لگا نے کی کوششیں کی جا تی ہیں اگر اپنے وطن کی آزادی اور خود مختاری کی بات کرنا غداری اور حب الوطنی کے خلا ف ہے تو قوم پرست اس جرم کو اپنانا اپنا فخر اور فطری حق سمجھتے ہیں ۔ تیسری دنیا کے جو ممالک ہیں ان میں حق خو د ارادیت اور آزادی اظہا ر کو جرم سمجھا جاتا ہے کشمیر پر دو ممالک براہ راست قابض ہیں اور تیسری عالمی قوت چائنہ بھی اس میں اپنے مفادات کو دیکھتی ہے حالانکہ ان کے اندر بھی علیحدگی کی تحریکیں مسلح اور دیگر سطحوں پر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کشمیریوں کو انکا حق دینے سے گریزاں ہے ۔ حق خود ارادیت ہر ملک و قوم کا بنیا دی اور فطری حق ہے اسے کسی صورت بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ہے بھا رت اور پاکستان جو حقیقی جمہو ریت کے دعوے دار ہیں انہیں کشمیریوں کو یہ حق دینا ہی ہو گا ۔ تمام کشمیری پارٹیاں ریفرنڈم کے زریعہ سے بھی بھا رت اور پاکستان کو منوانے کی کوشش کر سکتی ہیں اس حوالہ سے دونوں اطراف میں ووٹنگ ہونی چا ہیے ۔ قوم پرست بھا رت اور پاکستان کے زیر تسلط کشمیری خطوں کے اندر جمہو ری طریقہ کا ر سے ہو نے والے الیکشن کے خلا ف نہیں ہیں لیکن جو الیکشن دونوں اطراف میں کروائے جا تے ہیں وہ صاف شفاف نہیں ہیں ان میں دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات اور ضروریا ت کو مقدم رکھتے ہیں عوامی قوت سے حکومتیں تشکیل نہیں دی جا تیں بلکہ دھونس دھاندلی کے زریعہ سے اپنے من پسند افراد کو اقتدار تک پہنچا یا جا تا ہے ۔ جب کسی سٹیٹ کو کسی دوسرے کے خلا ف استعمال کیا جا ئے گا تو پھر امن و امان اور خوشحالی کا خواب ادھورا ہی دکھائی دے گا ۔ مسئلہ کشمیر کا حل تا ریخی اکا ئیوں کے پیش نظر یونا ئٹیڈ کشمیر کے فارمولے کو عملی شکل دینے میں ممکن ہے کیونکہ اس میں سماجی سیاسی اقتصادی اور معاشی حقوق کو وضح کیا گیا ہے 8 ریاستوں کا رضاکا رانہ رول ہے ۔ اس حوالہ سے ایک معا ئدہ کے زریعہ سے انہیں آپس میں جوڑا جا سکتا ہے جس میں ہر سٹیٹ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا ئے گا ۔ عارف شاھد ایک ہمہ جہد قوم پرست لیڈر تھے جنہو ں نے آل پارٹیز الا ئنس کے حوالہ سے ایک نظریہ پیش کیا وہ کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہو نے والی نا انصافیوں اور غیر انسانی سلوک کے خلا ف تھے پہلے انکی فریڈم موومنٹ پر پابندی عائد کی گئی اور جب انہو ں نے اپنی تحریک سوچ ارو افکا ر کو تبدیل نہ کیا اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے فکری سطح پر ایک بھرپور انقلا بی اقدامات اٹھا نے شروع کیے تو انہیں بھی خفیہ اداروں کے زریعہ سے قتل کروایاگیا۔ مجھے خود پاکستان میں موجود گی کے دوران کشمیریوں کے زریعہ سے اس مسئلہ پر مکالمہ آرائی اور با ت چیت سے روکا گیا گلگت بلتستان کے دوروں کے دوران جان سے ما رنے کی دھمکیا ں ملیں دو دفعہ مجھے کشمیر سے اغواء کر لیا گیا جہا د کونسل اور دیگر خفیہ اداروں سے وابستہ تنظیما ت نے بھی مجھے اور میرے خاندان کو جان سے ما رنے کی دھمکیاں دیں صرف خو دمختار کشمیر پر آواز اٹھا نے کی پا داش میں مجھے سا ڑھے 8 ماہ قید تنہائی میں رکھا گیاپارٹی کارکنان اور میرے خاندان پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی مجھے تحریک آزادی کشمیر سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا صرف کشمیر کی آزادی کی بات کرنے اور اس پر ڈٹہ رہنے پر میری زندگی اللہ رب العزت نے محفوظ بنائی ان کے ہا تھوں قتل نہ ہو سکا بے شک ما رنے والے سے بچانے والا زیادہ طا قتور ہے ۔ اپنے وطن عزیز کی آزادی اور اپنی قوم کی خوشحالی کے لیے جلا وطن ہونا پڑا کیونکہ کارکنان اور دوست احباب کا یہ کہنا تھا کہ تحریک کو میری ضرورت ہے کسی کی گولی کا نشانہ بننے یا بے موت ما رے جا نے سے بہتر ہے کہ با ہر رہ کر ایک منظم اور مربوط حکمت عملی کے زریعہ سے سیاسی سرگرمیاں جا ری و ساری رکھی جائیں میرا با العموم کشمیری قوم اور با الخصوص نوجوانوان نسل کو صرف یہی ایک پیغام ہے کہ وہ اپنی ریاست کے دشمنوں اور دوستوں کو پہچانیں اور ان لوگوں کا ساتھ دیں جو حقیقی آزادی و خودمختاری اور کشمیری قوم کے وقار کی خا طر اپنی جد و جہد عملی سطح پر جا ری رکھے ہو ئے ہیں ۔

Short URL: http://tinyurl.com/h7dgudl
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *