ایک نئی ’زمین‘ کی دریافت

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ٹیلی سکوپ کیپلر نے زمین سے ملتے جلتے ایک سیارے کی دریافت کی ہے۔ کیپلر 452 بی نامی یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد تقریباً زمین جتنے فاصلے پر اپنے مدار میں چکر لگاتا ہے، تاہم اس کا نصف قطر زمین سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ کیپلر مشن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ یہ زمین سے سب سے زیادہ مماثلت رکھنے والا سیارہ ہے۔ خلابازوں کے لیے یہ کلمات حوصلہ افزا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس کی سطح پر پانی کی موجودگی اور زندگی کے لیے سازگار ماحول ہو۔ ناسا کے سائنس چیف جان گرنسفیلد نے اسے زمین کے ’قریب ترین‘ ایک نئی دنیا قرار دیا ہے۔ اس نئی دنیا کا شمار بھی ان سیاروں میں ہوتا جو زمین سے مماثلت رکھتے ہیں، ایسا ہی ایک سیارہ کیپلر 186 ایف بھی ہے۔ زمین سے زیادہ قریب تر کون سا سیارہ ہے اس کا اندازہ ان کی خصوصیات سے لگایا جاسکتا ہے۔ کیپلر 186ایف کے بارے میں سنہ 2014 میں بتایا گیا تھا، یہ نئے سیارے سے چھوٹا ہے لیکن ایک سرخ ستارے کے گرد مدار میں گھومتا ہے۔ اس کا ستارہ ہمارے سورج کے مقابلے میں کم گرم ہے۔

ناسا کے سائنس چیف جان گرنسفیلد نے اسے زمین کے ’قریب ترین‘ ایک نئی دنیا قرار دیا ہے
تاہم کیپلر 452 بی ایک بڑے ستارے کے گرد گھومتا ہے، جسے سورج کی گروہ میں شمار کیا جاتا ہے، البتہ یہ چار فیصد زیادہ بڑا اور دس فیصد زیادہ روشن ہے۔ کیپلر 452بی اپنے ستارے کے گرد چکر 385 دنوں میں مکمل کرتا ہے یوں اس کا مدار مکمل کرنے کا دورانیہ زمین کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ کیپلر 452 بی کا وزن ابھی نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اس کے لیے خلابازوں کو مختلف ماڈلز کے ذریعے اس کے وزن کا اندازہ لگانا ہے، جو کہ ہماری زمین سے تقریباً پانچ گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس کی سطح پتھریلی ہے تو اس میں زندہ آتش فشاں بھی ہوسکتے ہیں اور اس کی کشش ثقل ہمارے سیارے سے دگنی ہوسکتی ہے۔ کیپلر 452 کا نظام زمین سے 1400 نوری سال کے فاصلے پر سائگنس نامی تاروں کے جھرمٹ میں واقع ہے۔ یہ نئی دنیا 500 ممکنہ سیاروں کے جھرمٹ میں شامل ہے جسے کیپلر کی خلائی ٹیلی سکوپ سے دیکھا گیا ہے۔ ایسے ہی 12 نئے امیدوارں کا قطر زمین سے دو گنا کم ہے، جو ’رہنے کے قابل‘ زون میں اپنے ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں۔

کیپلر 452 کا نظام زمین سے 1400 نوری سال کے فاصلے پر سائگنس نامی تاروں کے جھرمٹ میں واقع ہے
اس زون سے مراد فاصلوں کی وہ حد ہے جس سے سیاروں کی سطح پر اگر کچھ اور حالات بھی سازگار ہوں تو اپنے ستارے سے حاصل ہونے والی توانائی سے مادے کی موجودگی ممکن ہوسکتی ہے ۔ ان 500 امیدواروں میں کیپلر 452 بی کو سب سے پہلے سیارے کا درجہ دیا گیا ہے۔ حجم میں چھوٹے اور سورج سے روشن، کیپلر 452بی کا ستارہ ہمارے سورج سے عمر میں ایک ارب 50 کروڑ سال بڑا ہے۔ کیپلر مشن پر کام کرنے والے سائنس دان ڈاکٹر ڈوگ کالڈویل کہتے ہیں: ’اگر کیپلر 452 بی واقعی ایک پتھریلا سیارہ ہے اور اس کے ستارے سے فاصلے کے مطابق کا مطلب ہے یہ کہ وہ اپنی آب و ہوا کی تاریخ میں ایک بے قابو گرین ہاؤس دورانیے میں داخل ہورہا ہے۔ ‘ ’بڑھتے ہوئے سورج سے سطح گرم ہو رہی ہوگی جو سمندروں کو بخارات میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ بخارات اس سیارے سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گے۔‘ ’کیپلر 452 بی ہوسکتا ہے اس دور سے گزر رہا ہے جس کا سامنا زمین کو ایک ارب سال بعد ہوگا، سورج عمر میں بڑا اور زیادہ روشن ہوگا۔
(بشکریہ: بی بی سی اُردو)
Leave a Reply