اُرد و کی نفسیاتی کہانیاں۔۔۔۔ تبصرہ نگار: سلمان عبدالصمد، نئی دہلی۔انڈیا

Print Friendly, PDF & Email

کتاب: ارد و کی نفسیاتی کہانیاں
مرتب:شموئیل احمد
صفحات :164
ناشر:ارم پبلشنگ ہاؤس ، دریا پور ، پٹنہ
قیمت:200
پیش نظر مجموعہ’’اردو کی نفسیاتی کہانیاں‘‘ __جسے شموئیل احمد نے ترتیب دیا __ جہاں اردو میں نفسیاتی کہانیوں کی روایت کا احساس دلاتا ہے ، وہیں ایسی کہانیوں کے افہام وتفہیم کے باب میں بھی اہم ہے ۔ شموئیل احمد اپنی کہانیوں میں نفسیاتی درون بینی کے حوالے سے منفر د حیثیت رکھتے ہیں ، ظاہر ہے نفسیات کے پس منظر میں مرتب کردہ ان کا مجموعہ قابل التفات ہوگا ۔ نفسیات کسے کہتے ہیں ، اس کی جھلک دکھانے دینے کے تعلق سے شموئیل احمدکے یہ جملے ہی کافی ہیں’آدمی دوزندگی جیتا ہے ۔ ایک وہ جو جینے پر مجبور ہے اوردوسری وہ جو جی نہیں سکا تو اپنے اندر جیتا ہے ‘۔ درون کی یہی وہ زندگی ہے ، جس کا ظہور کبھی کبھی فکشن رائٹر کے قلم سے بھی ہوتا ہے اوروہ نفسیاتی ادب میں جگہ پاجاتا ہے ۔
164صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں مختلف افسانہ نگاروں کے تیرہ افسانے شامل ہیں ۔ معنون ماہر نفسیات پروفیسر کلیم الرحمن کے نام ہے ۔
اس کے بعد چند سطری’ عرض ناشر‘ اجمالاًشموئیل احمد کے فکروفن سے متعلق ہے ۔ افسانوں کی شروعات سے قبل چودہ صفحات پر مشتمل پیش لفظ میں جس انداز سے نفسیاتی کہانیوں کا تجزیہ کیا گیا ، وہ دیگر نفسیاتی کہانیوں کی تفہیم میں معاون ثابت ہوگا۔ محمد محسن کی کہانی ’’انوکھی مسکراہٹ ‘‘میں گورکنی کے پس پردہ غربت کی نفسیات ملتی ہے۔ عبدالصمد کی کہانی’’گومڑ‘‘ لاشعور میں پیوست شکوک وشبہات کی غماز ہے۔ سلام بن رزاق کی کہانی’’استفراغ‘‘ میں ناکام ادیب کی نفسیات ہے ۔منٹوکی کہانی ’’ننگی آواز‘‘میں جنسیت کے درپردہ ایک ایسے نوجوان کی نفسیات واضح گئی ، جس نے نئی نئی شادی کی ہے ۔ شموئیل احمد کا افسانہ ’’برف میں آگ‘‘ میں سلیمان کی بیوی سلطانہ اور الیاس کے پس پردہ نفسیات سامنے آتی ہے اور ضمیر الدین احمد کی کہانی’’کبھی کھوئی ہوئی منزل بھی…‘‘بھی پاکستانی کسی’ مہمان ‘کی آمد کے بعد نفسیات کی جھلک دکھاتی ہے ۔کرشن چندرکا افسانہ ’’شہزادہ‘‘ تحت الشعورمیں شہزادی بن کر جینے کی مثال ہے ۔ جاوید نہال حشمی کی کہانی’’کرچیاں‘‘ عرشی نامی لڑکی کی نفسیات ہے ، جو کبھی کانوں پر سے گزر کر آنکھوں کو موندھ لینے والی انگلیوں سے خوش ہوتی تھی ، مگر یہی صورت کسی حادثہ کے بعد اسے انتہائی ناگوار لگنے لگی ۔ ممتاز مفتی کا افسانہ ’’ماتھے کا تل‘‘ میں ایک نوجوان کو اپنی بھابھی کا عکس کسی اور لڑکی میں نظر آتا ہے ، تاہم اس کے ماتھے پر تل کہا ں، اس لیے وہ اس لڑکی کا عاشق نہیں ، بھابھی کا ہی ہے ۔ اقبال کرشن کی کہانی ’’نماز پڑھو ‘‘میں نوجوان کے خواب کے پس منظر میں جنسیت ابھر کرسامنے آتی ہے، اسی طرح طارق چھتاری کی کہانی ’’گلوب‘‘ جنسیت زدہ مالکن کی تحکمانہ نفسیات پر مبنی ہے ۔غیاث احمد گدی کا افسانہ ’’افعی‘‘بھی زہرہ کی جنسیت زدگی اور پارسائی کے درمیان سے نفسیات کی عکاسی کرتا ہے ۔ غلام عباس کاافسانہ’’ اس کی بیوی‘‘ میں بیوی کی بدچلنی کے پس منظر میں ایک نوجوان کی نفسیات ہے ۔
یہ حصہ جو شائع نہیں ہوا :::
اس مجموعے میں شامل تمام افسانوں کے تجزیہ کا متحمل یہ تبصرہ نہیں ، البتہ موخرالذکر کہانی پر اجمالاً مگر قدرے تفصیلی گفتگو مناسب لگتی ہے ۔اس کہانی کے متعلق فضیل جعفری کاکہنا ہے کہ ’غلام عباس نے بڑی مہارت کے ساتھ جنسی خواہش اور لذت کو خالص محبت کے قالب میں ڈھال دیا ہے ‘تاہم مرتب شموئیل احمد کا کہنا ہے’ محبت نفرت میں‘ بدل چکی ہے ۔ وہ اس طرح کہ بیوی کے غیر مرد سے تعلقات تھے ، جوکہ اب مرچکی ہے۔ جس کا علم اس کے مرد کو بھی تھا ، مگر اس نے بدچلنی پر کچھ نہیں کہا کہ کیا فائدہ ؟ مگر اب جب کہ وہ کسی ایسی طوائف کے پاس ہے ، جس کے نین ونقشے، عادات واطوار اورزلفیں اس کی بیوی سے ملتی جلتی ہیں تو مرد اس کی ہی تحقیر کررہا ہے ، ایک جسم بیچنے والی عورت کی حیثیت سے وہ اپنی بیوی کی شناخت کررہا ہے ،کیوں کہ وہ بدچلن بیوی کو کچھ کہہ نہیں سکا تھا۔میرے نظریہ سے ’’اس کی بیوی ‘‘کی فضا شموئیل احمد کے نظریہ کے علاوہ نظریہ کی بھی تصدیق کرتی ہے ،کیوں کہ بیوی کی بد چلنی کا علم ہونے کے بعد بھی نوجوان بیوی سے متنفر نظر نہیں آتا ، حتی کہ اس کے انتقال کے بعد وہ صدمے سے چور ہوجاتا ہے اور نہ ہی اس کی بیوی غیرمردسے رشتہ استوار کرنے کے بعد اپنے آپ کو شوہر کے لیے کسی جزودان میں لپٹے ہوئے مذہبی صحیفے کی حیثیت اختیار کرنے کی کوشش کرتی ۔اگر وہ پاکباز بننے کی کوشش کرتی تو مرد کے اندر تحقیر کی نفسیات جنم لیتی۔ مزیداپنی بیوی کی طرح طوائف کے ساتھ سلوک کر نا ، گوشت خرید کر لانا اور اسی کے گھر پر خود اپنے ہاتھوں سے بنانا، بہن کی کہانی سنانا ، بازار میں ٹہلانااور تحفے تحائف ’محبت کو نفرت‘ میں بدلنے کی علامت شاید نہیں ہوسکتی ۔ اگر نسرین سے نوجوان یہ کہتا کہ میری بیوی نجمی تمہاری جیسی تھی ، میں اسے فُلاں فُلاں چیزیں لاکر دیتا تھامگر تمہارے لیے نہیں لاسکتا ، حالانکہ تم اس سے مماثلت رکھتی ہو۔ اس کے لیے ہنڈیا پکاتا تھا ، مگر تمہارے لیے نہیں پکاسکتا ، یعنی مردکا رویہ بدل جاتا تو یہ کہنے کی گنجائش رہتی کہ بیوی کو بدچلنی کی وہ سزا نہیں دے سکا تو اب اس عورت کو جس میں بیوی کا عکس نظر آتا ہے ، سزا دے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بین السطور سے ابھرنے والی کہانی کے مد نظریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نوجوان کی نفسیا ت جنسیت زدگی کی بد ترین شکل میں ابھررہی ہے ، بایں طور کہ شاید اب اس کی نگاہ میں ایسی عورت ہی بھلی لگنے لگی ، جس پر صرف ایک ہی مرد حکمراں نہیں ہو ، تاکہ نوجوان زعم میں مبتلا رہے کہ جس عورت سے میری دلچسپی ہے ، اسی سے بہت سارے مرد بھی الجھے ہیں ، یعنی میری عورت کی خوبصورتی اور پرکشش اداؤں کا جلوہ دیکھ !یہی وجہ ہے کہ وہ نسرین کے ساتھ بھی بیوی کی طرح ہی حسن سلوک کررہا ہے ۔
یہ حصہ جو شائع نہیں ہوا :::
ا س مجموعہ کے اختصار کی وجہ شاید یہ ہو کہ بیشتر کہانیوں میں نفسیات کا ایک ہی پس منظرجنسیت ہے ،تاہم ’’گومڑ ‘‘ ،’’انوکھی مسکراہٹ ‘‘، ’’استفراغ‘‘ کو اس میں شامل کرنے سے یہ اشکال بھی ہوتا ہے کہ ’اردو کی نفسیاتی کہانیاں‘ میں انہی چند کہانیوں کو ہی کیوں جگہ ملی اور کیوں دوسری اہم نفسیاتی کہانیاں اس مجموعے میں جگہ نہیں پاسکیں ، حالانکہ ماضی قریب اور حال میں بھی متعدد اچھی نفسیاتی کہانیاں لکھی گئیں اور خود بیدی کے یہاں بہترین نفسیاتی کہانیاں ملتی ہیں۔ یا پھر پیش لفظ میں اس کی کچھ نہ کچھ وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ دیگر نفسیاتی کہانیوں سے قطع نظر فقط انہی کہانیوں کو کیوں یکجا کیا گیا ہے۔ طباعت کا معیار عمدہ ہے مگر قیمت کچھ زیادہ ۔
تبصرہ نگار: سلمان عبدالصمد
این 160 فرسٹ فلو ر ، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ،نئی دہلی

Short URL: http://tinyurl.com/j7qsw5x
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *