اس بولنگ اٹیک کو سرفراز کی ضرورت ہے

Print Friendly, PDF & Email

پندرہویں اوور تک پاکستان میچ میں موجود تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ ہر گزرتی گیند کے ساتھ پاکستان کے ارمان بھی باونڈری پار جاتے نظر آنے لگے۔ ورنہ ممکن ہی نہ تھا کہ پاکستان اس ٹیم کے ساتھ میچ ہار جاتا۔

ہر سنہری دور کا اختتام ضرور ہوتا ہے۔ زوال کبھی نہ کبھی تو ہر کسی پہ آتا ہی ہے۔ بدلتے وقت کے اثرات دیکھیے اور سوچیے کہ پچھلے تین سال میں سری لنکا سی شاندار ٹیم کو کیا ہو گیا۔ اور تو اور آسٹریلیا پہ ہی دیکھ لیجیے اس وقت کیا بیت رہی ہے۔

مگر پاکستان کا پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے بعد جو سفر شروع ہوا تھا، اس کے بعد بطور شائق نہ سہی، بطور مبصر بھی یہی لگتا تھا کہ اس فتوحات کے سلسلے کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ کیونکہ بادیٔ النظر میں ایسی کوئی مضبوط ٹی ٹونٹی ٹیم نظر ہی نہیں آتی جو اس بولنگ اٹیک کو مات کر سکے۔

یہ تو طے ہے کہ ہر سنہرے عہد کی طرح یہ فتوحات کا تسلسل بھی کبھی تو ختم ہونا ہی تھا۔ مگر اس طرح سے ہو گا، یہ گمان بھی نہ تھا۔ اس ٹیم میں سے کوئی بولر ایسا برا سپیل پھینک دے گا، یہ ناقابلِ فہم نہ سہی، ناقابلِ یقین سی بات تو ہے۔

اگرچہ ٹی ٹونٹی پہ مباحث کی تان اکثر اس پہ آ کر ہی ٹوٹتی ہے کہ جی بولرز کی گیم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بولرز نے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں کہ یہ کھیل اب بلے بازوں سے زیادہ بولرز کا بن گیا ہے۔

یہ الگ بات کہ کلاسک اصطلاحات میں بولنگ کا جو مفہوم ہے، وہ کبھی بھی بمراہ جیسےبولر میں نہیں جھلک سکتا۔ مگر ٹی ٹونٹی نے خود ہی اپنی طرح کے بولر بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ محمد عامر ایسے بولر پٹتے پھرتے ہیں اور فہیم اشرف سے کامیاب ہیں۔

عثمان شنواری ون ڈے گیم کے بہترین بولر ہیں۔ بالخصوص پرانے گیند کے ساتھ جس طرح کے خطرناک سپیل وہ پھینکتے ہیں، اکثر ڈیوڈ ملر کے بھی سر سے گزر جائیں۔ مگر ٹی ٹونٹی ذرا الگ نوعیت کا کھیل ہے۔

ون ڈے میں بلے باز اور بولر کی جگل بندی سراسر زورِ بازو اور مہارت کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ ٹی ٹونٹی میں سکوربورڈ پریشر اور چھوٹی باونڈریز کے زیرِ اثر بولنگ پلان تشکیل دیے جاتے ہیں جہاں مبادیات سے زیادہ دھیان چال بازیوں پہ رکھنا پڑتا ہے۔

جس طرح کی فارم میں ڈیوڈ ملر تھے، مخالف کپتان کے لئے سب سے ضروری چیز تھی کوئی ایسا بولر جو ’کٹر‘ پھینک سکتا ہو۔ مگر بدقسمتی کہ اس سکواڈ میں ’کٹر‘ پھینکنے والا بولر ایک ہی تھا اور وہ بھی بینچ پہ بیٹھا تھا۔ عین ممکن ہے کہ عثمان شنواری کی جگہ فہیم اشرف آخری اوور پھینکتے تو اتنے رنز نہ بنتے۔

اس سب کے باوجود بابر اعظم کی اننگز ایسی مفرحِ قلب و نظر تھی کہ پاکستان کی امیدوں کے دیے پھر سے جل اٹھے۔ منزل پھر قریب نظر آنے لگی۔ بلکہ جب وہ آوٹ ہو گئے تب بھی میچ پہ پاکستان کی گرفت ٹکی رہی۔

آخری چار اوورز میں جو کچھ پاکستانی بیٹنگ نے کیا، وہ کسی بھی کرکٹ ناظر کےلیے کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کےلیے ایسے حادثات اب معمول بن چکےہیں۔

اس میچ میں پاکستان کا بہترین چانس بولنگ میں ہی تھا اور آخری پانچ اوورز میں بار بار یہی سجھائی دیا کہ اس بولنگ اٹیک کو سرفراز احمد کی ضرورت ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8j4kz4o
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *