اردو فکشن کا بڑا نام۔۔۔ سید ماجد شاہ کے ساتھ بیٹھک

Print Friendly, PDF & Email

میزبان انٹرویو : شعبان جھلن شعبانؔ 

اسلام علیکم!
وعلیکم اسلام 
سب سے پہلے اپنا اصل نام بتائیں
ج:سید ماجد شاہ
قلمی نام کیا ہے؟
ج:مجھے تو ایک نام بھی خود پر بوجھ لگتا ہے۔اس لیے جسمانی اور قلمی نام ایک ہی ہے یعنی ۔سید ماجد شاہ۔
فکشن کا یہ سورج کب طلوع ہوا؟
ج:جب سورج سوا نیزے پر آچکا تھا۔یعنی آغاز تو شاعری سے ہواجو ابھی تک جاری ہے۔فکشن لکھناغالبا ۱۹۹۲ سے شروع کیاتھا۔
پیدائش کا شہر کونسا ہے؟
ج:والد صاحب ایئر فورس میں تھے اورمیری پیدائش کے وقت ان کی پوسٹنگ راولپنڈی تھی۔اس لیے پیدائش کا شہر راولپنڈی ہے ۔رہنے والا میں ایبٹ آباد کا ہوں۔پچھلے کوئی بائیس تئیس سال سے اسلام آباد میں مقیم ہوں۔ 
آجکل کہاں ہیں؟
ج:آج کل اسلام آباد اور ایبٹ آباد دونوں شہروں میں رہائش پذیر ہوں۔کبھی ادھر کبھی ادھر۔
ماں بولی کونسی ہے؟
ج:ماں بولی ہندکوہے۔ ہزارے کی ہندکو کا ایبٹ آباد کا لہجہ۔
تعلیم کیا ہے؟ 
ج:ایم ۔اے اردو۔پنجاب یونی ورسٹی سے۔
آپ کا پروفیشن کیا ہے؟
ج: کالج کی سطح پر پڑھاتا رہا۔
مشاغل کیا کیا ہیں؟
ج:مشاغل کی ایک لمبی فہرست ہے۔کھیل تمام پسند ہیں۔ موقع ملے توکھیلنے سے دریغ نہیں کرتا ۔اب اس عمر میں دیکھ کر گزارا کر لیتا ہوں۔نیشنل جیوگرافک بھی بہت شوق سے دیکھتا ہوں ۔گھومنے پھرنے کا شوق بھی بہت ہے۔پہاڑوں ،ویرانوں اور جنگلوں میں جانا بے حد پسند ہے۔ کھنڈرات میں گھومنے پر جان دیتا ہوں۔ 
ازدواجی زندگی کے بارے میں بتائیں
ج:شادی ۱۹۹۳ میں ہوئی۔بیگم کا نام مفیدہ ماجد ہے ۔وہ افسانہ نگار ہونے کے ساتھ مترجم بھی ہیں اور ہندکو لغت لکھنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
کتنے بچے ہیں؟
ج: ایک ہی بیٹا ہے۔ اس کا نام ژند ماجد ہے۔
پسندیدہ ڈش کونسی ہے؟
ج:کوئی خاص ڈش تونہیں ہے۔ویسے کلسٹرول اور یورک ایسڈ کے باوجود، بڑاگوشت اوردنبہ تو بدتمیزی کی حد تک کھا جاتا ہوں۔ان سے علاوہ ساگ،مکئی کاپراٹھا وغیرہ بھی بہت پسند ہیں۔
پسندیدہ رنگ کونسا ہے؟
ج:تمام رنگ اچھے لگتے ہیں ۔
پسندیدہ موسم کونسا ہے؟
ج:گرمی کے علاوہ سارے موسم۔
پسندیدہ لباس کونسا ہے؟
ج:پینٹ شرٹ
اچھا حضور ادبی زندگی کا آغاز کب شروع کیا اور کس صنف سے کیا
ج:بچپن سے اور شاعری سے
ادبی زندگی کے آغاز کے محرکات کون سے تھے؟
ج:محرکات کا تو نہیں پتا ،بچپن سے تنہا رہنا ،پڑھنااور سوچنا یہ تین مشاغل تھے۔یہیں کہیں سے ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا۔

کتنے مجموعے چھپ چکے اور کس کس صنف میں چھپ چکے ہیں؟
ج:اردو میں دو مجموعے چھپے ہیں۔دونوں افسانوں کے ہیں۔پہلا ۲۰۱۶ میں ’’ ق‘‘اور دوسرا ۲۰۱۸ میں’’ ر ‘‘۔ حالانکہ شاعری کا مجموعہ کوئی ۲۰۰۵ سے تیار ہے لیکن ابھی تک اشاعت کے مرحلے سے نہیں گزر سکا۔
اسی طرح ہندکو کی بھی دو کتابیں آچکی ہیں۔ایک افسانوی مجموعہ ’’ اورش‘‘ ہے۔جبکہ اس سے پہلے ’’ درشاہی ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب آئی تھی جس میں نثر اور شاعری دونوں اصناف موجود تھیں۔ 
آپ کی کتاب “ق” ہو “ر” ہو یا جو بھی موضوعات بڑے شوخیلے نوکیلے ہیں ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج: میرے موضوعات شوخیلے یا نوکیلے نہیں ہیں۔ہاں بھڑکیلے ضرور ہیں۔ بس!اتنا کہوں گا کے جنس میرا خاص موضوع ہے اور میں کبھی لذت لینے کے لیے نہیں لکھتا بلکہ جنسی محرومی یا ناآسودگی سے پیدا ہونے والے بگاڑکا المیہ ضرور لکھتا ہوں۔(یہ صرف ان افسانوں کے متعلق ہے جنھیں شاید آپ نے شوخیلے یا نوکیلے کہا ہے۔)
کیا کسی افسانے پہ مقدمہ چلا یا خدشہ ہے
ج:خدشہ تو ہر وقت رہتا ہے اسی لیے ’’ق ‘‘ کے دیباچے میں ذکر بھی کیا تھا کہ دوست احباب نے ڈرا دھمکا کر منع کیا تھا کہ کچھ افسانے ابھی نہ چھپواؤں ۔لیکن میرا خیال یہی تھا کہ بات سلیقے سے کی جائے اور بحث کا آغاز کیا جائے۔ پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔اب کاغذ قلم سے دوستی کی ہے تو جو ہوگا بھگتنا پرے گا۔
ہر افسانہ آپکی زندگی کا فسانہ لگ رہا ہے اس بارے میں بتائیں 
ج:ہر افسانے کا تعلق میری زندگی سے نہیں ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ میں نے خود کو بھی لکھا ہے ۔جیسے’’ آئی ایم سوری ژندی جان۔‘‘ بعض موضوعات پر لکھنے کے لیے میں نے مشاہدے ،یا سنے سنائے پر اکتفا نہیں کیا۔تجربے سے بھی گزراہوں۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مختلف افسانوں کی نوعیت مختلف ہے۔
کسی ادبی گروہ، تحریک یا تھیوری سے وابسطہ ہیں
ج:میں تخلیق کا ر کے لیے ادبی گروہ،تحریک ، تھیوری یا عقیدہ وغیرہ کوضروری نہیں سمجھتا ۔لوگ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔لیکن میں تخلیق کار کی حیثیت سے سوچتا ہوں تو بعض اوقات تو مجھے لفظ ،معنی، زبان اوررسم الخط تک کسی جیل کی سلاخیں لگتی ہیں ۔میں مکمل آذادی کا قائل ہوں ،لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم جبر کا شکار ہیں۔ 
علامت نگاری ضرورت تھی یا فن؟
ج: علامت میری ضرورت ہے ۔میں علامت کے بغیر شاید لکھ ہی نہیں سکتا۔اس لیے میں توعلامت کو فن ہی کہوں گا۔
کس ادبی شخصیت سے متاثر ہیں؟
ج:میں کسی ادبی شخصیت سے متاثر ہونے کی بجائے ہر اچھے فن پارے سے متاثر ہوتاہوں۔اس لیے میری پسندیدگی کی فہرست بہت طویل ہے۔میری اس بات کو کوئی فخر کی بات نہ سمجھا جائے کہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کسی ادبی شخصیت سے متاثر نہیں ہوں۔مجھے ان لوگوں سے سخت اختلاف ہے جو ان ادیبوں کو جنھیں وقت نے بڑا نام عطا کیا، ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
سیاست میں کسے پسندکرتے ہیں۔
ج: سیاست میں ،میں کوشش کے باوجود کوئی ایسا آئیڈیل نہیں بنا سکا۔اس بار تو ووٹ نہیں ڈالا ہاں پچھلی مرتبہ عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔تمنا ہے کہ ملک حالات بہتر ہوں۔
مذہبی وابستگی کس سے ہے؟
ج:مذہبی وابستگی بھی کسی کے ساتھ نہیں ہے۔
مزاج کے بارے میں بتائیں غصہ آتا ہے آئے تو کیا کرتے ہیں
ج: غصہ آتا ہے ۔پہلے تو قہر درویش بر جان درویش والا معاملہ تھا ۔ اب یا تو لوگوں کے رویوں کی وجہ سے یا بوڑھا ہو گیا ہوں ۔کوشش برداشت کی ہوتی ہے ۔کرتا بھی ہوں۔لیکن اب کبھی کبھی ،یعنی صرف دو تین بار ایسا ہوا ہے کہ غصے سے پھٹ پڑا گالیاں بکیں،ہاتھا پائی کی نوبت بھی آئی ۔۔۔ہا ں ایک بات جو اب زیادہ ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کوسامنے برا بھلانہ بھی کہوں، بعد میں خیالوں ہی خیالوں میں جتنی گندی گالیاں کہیں حافظے میں محفوظ ہیں۔۔۔منہ بند کر کے تا دیر دیتار ہتاہوں۔ 
سر محبت کیا ہے، کیا کسی سے ہوئی؟
ج: محبت شدید لگاؤ ہے جس کی پنہائیوں میں کہیں جنسی جذبے کا جوش ہے ۔جیسے ہم جس زمین پر رہتے ہیں اس کی گہرائیوں میں کہیں لاوہ ہے۔اوپر جتنے حسیں نظارے ہیں پہاڑ دریا صحراوغیرہ وغیرہ یارنگ ،پھول اور خوشبوئیں ہیں۔ان سب کے نیچے کہیں ہلکی سی آنچ اس لاوے کی ضرور موجود ہو گی۔اسی طرح محبت بھی اسی لاوے سے تپش لیتی ہے۔محبت کسی سے؟ میں محبت میں معیارکا قائل ضرورہوں،توحید کا ہرگز نہیں۔ 

نفرت کیا ہے؟
ج:اچھا نفرت کے بارے میں میں بہت کنفیوز ہوں۔میں اس جذبے سے اچھی طرح واقف نہیں ہوسکا۔میں جس سے شدید نفرت کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔اس سے دور ہو جاتا ہوں ۔پھر اچانک مجھے ترس آنے لگتا ہے اور پتا نہیں پھر کیا ہوجاتا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اس کی شدت کو محسوس کروں اس کی اتھاہ گہرائیوں تک محسوس کروں لیکن مجھے اس کا کامل تجربہ نہیں ہو سکا۔
اچھی اور بری عادتیں کونسی کونسی ہیں؟
ج:اس کا مجھے نہیں پتا
آئندہ کی زندگی کے کیا پلانز ہیں؟
ج:لکھنے لکھانے کے ہی کام ہیں ۔دو ناول ہیں ایک ہندکو اور ایک اردو وہ مکمل ہو گئے تو سمجھ لو ں گا کہ کوئی کام کر لیا�آآخر میں پیپر کے قارئین کو کیا پیغام دیں گے؟
ج:پیغام میں نے کیا دیناہے۔ بس! اتنا کہوں گا کہ دنیا کی کسی بھی بات کو سن کریا پڑھ کر تسلیم نہ کریں۔دنیا کی ہر بات کو پہلے بغیر کسی ڈر اور لگاؤ کے رد کریں۔فطرت کا مشاہدہ کریں اور خالصتا اپنے زاوی�ۂ نظر سے اپنی رائے قائم کریں۔

Short URL: http://tinyurl.com/yy5zyxog
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *