رقص کا عالمی دن ۔۔۔۔ تحریر: اختر سردار چودھری،کسووال

Akhtar Sardar Chodhary
Print Friendly, PDF & Email

پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں ۔ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔لیکن حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح ’’ اصل رقص‘‘ خاتمے کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں ) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔
ہماری فلموں خاص کر پاک و بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔لیکن اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے میل نہیں کھاتا۔بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چاہیئے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے ۔
رقص کب سے جاری ہے اور کن کن اغراض کے لئے یہ وجود میں آیا ۔آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ’موہن جو دڑو‘کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا کانسی کا مجسمہ ہے ۔بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ”روحانی جذبہ” بھی ہے ۔ ہمارے ہاں صوفیاء میں ”وجد” کی شکل میں ملتا ہے ۔کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں’ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے اس لیے بیان سے باہر ہے نیز وجد طالب اور مطلوب کے درمیان ایک راز ہے جسے بیان کرنا مطلوب کی غیبت کے برابر ہے وجد عارفوں کی صفت ہے ۔‘‘لیکن بعض اسے اہلِ ھوا کا شیوہ کہتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی ہے اس سے کون واقف نہیں ہے ۔اور گانوں کی شاعری ۔۔۔)رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ذلیل ہوتی عوام ،دفتروں ،سڑکوں ،پٹرول پمپوں ،پر ’’حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں ۔رہنما بدل بدل کر عوام ،جلسے جلوس میں ،کبھی انقلاب ،کبھی جمہوریت ،کبھی آمریت ،کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کے لیے ’’محو رقص ‘‘ ہیں ۔کب یاد آئے حبیب جالب ۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو ( انٹر نیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ )کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔
بعد ازاںیونیسکو نے اس کی تائید کر دی ۔اب یہ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے ،علاقائی ،ثقافتی سرمائے(رقص ) کو محفوظ کرنا ہے ۔ کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ ہیں۔
رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔’’ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے ۔‘‘
پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔
پنجاب کے لوک رقص میں،بھنگڑا،لڈی،سمی،گدھاشامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتداء پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔گدھایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے
بلوچستان کے لوک رقص میں لیوا،چاپ ،جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔جھومراسے سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔
خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے 25 منٹ تک جاری رہتا ہے ۔خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
سندھ کے لوک رقص،دھمال اورہو جمالوہیں۔دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jdfs6cx
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *