ہم زندہ قوم ہیں

Print Friendly, PDF & Email

یہ ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ تھا جن کے انتظامات میں تین سے چار دن لگے تھے ۔جلسہ گاہ شامیانوں سے مزین اور چاروں طرف رنگ برنگ جھنڈ یوں  اور پارٹی پرچموں سے سجی ہوئی تھی۔ بیٹھنے کے لئے وافر مقدار میں نششتوں کا انتظام تھا۔صبح سے لوگ جلسہ گاہ کی طرف آنا شروع ہوگئے تھے ۔ اور جلسہ بھی ایک ایسی جگہ میں ہو رہا تھا جہاں اس ملک کو بنانے کیی قرارداد منظور ہوئی تھی ۔جلسہ گاہ میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے کاروباری ملازمت پیشہ طالب علم ،خواتین و حضرات کچھ بچوں کے ہمراہ،تو کچھ پارٹی جھنڈوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ۔کچھ جلوسوں کی شکل میں اور کچھ انفرادی طور پر جلسہ گاہ کے آس پاس موجود ہر شخص اپنی دُھن میں مگن۔جلسہ گاہ کے سٹیج میں موجود انتظامی کمیٹی ایک سے بڑھ کر ایک ملی نغمے سنانے میں ماہر لگ رہی تھی ۔ ان ملی نغموں کی دھنوں اور بول سے لوگ بڑے محظوط ہو رہے تھے۔اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا، اے نگار وطن تو سلامت رہے،اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں،جاگ اٹھا ہے سارا وطن سا تھیو مجاہدو، لوگ نغمے بھی سن رہے تھے اور ساتھ ہی ان کی نگاہئیں کسی آنے والی شخصیت کی راہ بھی تک رہی تھی جس کے لئے یہ سٹیج سجایا گیا تھا ۔تھوڑی دیر میں وہ سیاسی شخصیت بھی سٹیج میں موجود تھی۔ اب تقریروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ایک سے بڑھ کر ایک مقرر اور ملک کو سنوارنے ، ہر قسم کی برائی سے پاک کرنے اور لوگوں کو سہولیات بہم پہچانے کے عزم کا اظہار کر رہا تھا ۔ آخر میں جلسہ میں موجود اہم شخصیت اور پارٹی لیڈر نے خطاب فرمایا اس کے خطاب سے یوں لگ رہا تھا جیسے بس وہی اس قوم کا مسیحا ہے جس کا لوگوں کو انتظار تھا۔وہی ایک پارسا ہے باقی سارے گہنگار۔ان کا وعدہ تھا کہ وہ ملک کو جنت کا ایک نمونہ بنائینگے۔بڑی تالیاں بج رہی تھیں واہ واہ کے نعروں کے ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگ رہے تھے۔ساتھ ہی ملی نغمے کی آواز گونجی ہم زندہ قوم ہیں ہم پائندہ قوم ہیں اور جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا اور لوگ جلسہ گاہ سے یوں نکل رہے تھے جیسے کسی سرکاری سکول میں پریڈ کی آخری گھنٹی بج گئی ہو۔کوئی ادھر سے کوئی ادھر سے اور کچھ کو اتنی جلدی تھی کہ نششتوں کو اٹھا کر ادھر ادھر پھینک کر اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے۔ اور کچھ کرسیوں کو پھلانگ رہے تھے ۔ کئی لوگ موقع غنیمت جانتے ہوئے عورتوں کے پنڈال میں گھس گئے ۔جوان لڑکیاں اور عورتیں راستہ نہ ملنے کی وجہ اور اوباش نوجوانوں سے پریشان اور سہمی ہوئی تھیں ۔پارٹی لیڈر اور ذمہ داران اور کارکن بڑی بڑی گاڑیوں میں یہ جا وہ جا جلسہ گاہ سے غائب ۔ جب جلسہ گاہ سے لوگ جا چکے تو تو میونسپل کا عملہ جلسہ گاہ میں آخری کام یعنی صفائی ستھرائی کے لئے پہنچ چکا تھا ۔ جلسہ گاہ کی حالت بڑی ہی دیدنی تھی ۔ایک گند پڑا ہوا تھا۔کہیں پہ چھلکے کئی پہ ردی اور کہیں پہ نسوار اور پان کے پیکس۔ ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کا ایک انبار۔ خاکروبوں نے اپنے ہتھیار جھاڑو سنبھال لئے اور جلسہ گاہ کی صفائی میں لگ گئے اور سب مل کر یہی گا رہے تھے

ہم زندہ قوم ہیں
ہم پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان
ہم سب کا پاکستان

(ہدائیت اللہ اختر)

Short URL: http://tinyurl.com/j7b9bsu
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *