نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے پہلو

Muhammad Jawad Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد جواد خان


رسول نبیِ کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کے تین پہلوؤں کوتفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے جو کہ تین باتوں پر مشتمل ہیں ، نبی کریم ﷺ کی زندگی ہم جیسے گناہ گار انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ اگر ہم کامیابی و کامرانی کے خواہش مند ہیں تو نبی پاک ﷺ کی اسوہ حسنہ کے پہلوؤں کو اپنا مقصد حیات بنانا ہو گا۔ اسوہ حسنہ کے تین پہلوؤں کوبیان کرتے ہیں۔
۱۔ توکل علی اللہ
۲۔ مناسب تدبیر یعنی منصوبہ بندی
۳۔ دستیاب دنیاوی وسائل کی فراہمی
سفر ہجرت میں قدم قدم پر یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ آپ ﷺ نے دستیابِ انسانی وسائل کا بھر پوراستعمال کیا۔ بہترین انسانی تدابیر کا مظاہر ہ کیااور جب تدبیر اور انسانی وسائل بے بس نظر آنے لگے تو وہاں اللہ پر توکل کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ اسوہ حسنہ کا یہ خاص پہلو ہمارے اور قیامت تک آنے والے تمام اہل ایمان کے لیے مینارہ نور کا کام دیتا رہے گا۔ جب تک اہل ایمان ان تین باتوں کو حرز جان بنا کر پورے اخلاص کے ساتھ عمل کریں گے انشاء اللہ کامیاب رہیں گے۔ آج مسلمانوں کی ناکامیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ یا تو دنیاوی وسائل کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں جو بالعموم کفار کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ یو ں وہ ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا وہ تدبیر کو ہی کامیابی کا یقینی ذریعہ مان کر “توکل علی اللہ” کو بھو ل جاتے ہیں ۔ حالانکہ تدبیر کامیابی کی ایک اہم شرط تو ضرور ہے لیکن یقینی وجہ نہیں ہے، یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہر دفعہ نتائج طے شدہ منصوبے کے مطابق ہی حاصل ہوں۔ مشیت الٰہی سے بعض یقینی تدابیر ناکامی سے دو چار ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح دنیاوی اسباب اور تدابیر کو نظر انداز کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا بھی کوئی اسلامی رویہ نہیں ہے۔ اسوہ حسنہ کا یہ پہلو صرف ہجرتِ مدینہ ہی کے موقع پر نہیں بلکہ باربار سامنے آیا ہے، مثلاََ غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے تما م دستیاب اسلحہ اور افرادی قوت کو میدان میں لا کھڑا کیا پھر اپنے رب کے حضور کامیابی کے لیے دعا گو ہوئے۔اس کے نتیجے میں دنیا نے حیرت بھری آنکھوں سے یہ ناقابلِ یقین منظر دیکھا کہ کس طر ح اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ایک قلیل گروہ اپنے سے کئی گناہ باوسائل گروہ پر غالب آگیا۔
اسی طرح سفر ہجرت کے وقت توکل علی اللہ کی شاندار مثال ، ایک طرف تو بیت اللہ جیسی من پسند جگہ کو چھوڑنے کا افسوس ہے تو دوسری طرف اطاعت الٰہی کے جذبات سے معمور وہ عزم جو تن من دھن غرضیکہ ہر طرح کی قربانی دینے کابھی احساس دلاتا رہتا ہے کہ “حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”۔ دلوں میں امید کی یہ کرن بھی روشن ہے کہ مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ ایسا سازگار ماحول میسر فرمائے گا جس میں عدل پر مبنی اسلامی معاشرہ اپنے تما م لوازمات اور برکتوں کے ساتھ ضوفشاں ہو گا۔ ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں انسان ہر طرح کے طاغوت اور انسانی غلامی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں گئے۔ اپنے خالق، مالک، حاکم اور رب العالمین کے دیئے ہوئے قوانین کی پیروی کریں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا التزام ہو گا۔ انسانی جان، مال، عزت و حرمت کو یقینی تحفظ حاصل ہو گا۔ معاشرے کے کمزور طبقوں عورتوں یتیموں اور غلاموں کو ظلم و جبر سے نجات ملے گی۔ بے لاگ اور فوری انصاف میسر ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف کفارِ مکہ اپنے ہر حربے کی ناکامی پر افسوس منا رہے تھے کہ یہ کیوں کر ممکن ہو ا کہ آپ ﷺ ہجرت کر کہ مدینہ تشریف لے گئے۔ یہاں تک کہ سب کفار نے یکسو ہو کر دارالندوہ کے اجلاس بھی منعقد کر ڈالا جس میں آپ ﷺ کو معاذاللہ قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ ہر طرح کے ظلم و جبر کی داستان رقم کی گئی۔ آپ ﷺ کے گھر کو رات دن گھیرے میں رکھا گیا۔ لیکن وہ اپنی سب کوششوں پر ناکامی کا ماتم منا رہے تھے۔
کفران مکہ نے اپنی طاقت و بساطت کے مطابق ہر قسم کے ظلم و جبر کے پہاڑ آپ نبی کریم ﷺ پر ڈھائے تھے ، جو کچھ ہو سکتا تھا انھوں نے کیا، طائف کے میدانوں میں بچوں کے ہاتھوں سے لگے پتھر، ان سے نکلنے والا خون ، اور پھر ان سے بدلہ نہیں ان کے حق میں ہدایت کی دعا۔۔۔روزانہ عورت کا آپ پر گندگی کا ڈالنا، اسکا بیمار ہونا اور آپ ﷺ کا اس کے گھر میں جا کر اس کی تیماداری۔۔۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت، اور اس عورت کو معاف کردینا۔۔۔ فتح مکہ کے وقت عام معافی کا اعلان۔۔۔یہ سب وہ واقعات ہیں جو اسوۃحسنہ کو بیان ہی نہیں کررہے بلکہ معاشرے کے اندر درگزر کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔ دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے اور بھائی چارہ کا فروغ بھی دے رہے ہیں۔۔۔ موجودہ حالات میں کامیابی کا راز بھی اسوۃ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ہی ہے۔۔۔

Short URL: http://tinyurl.com/h6kzwbv
QR Code: