جا گو بھئی تم کب جاگو گے

Muhammad Sajawal Nawaz
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد سجاول نواز
ہم ایک قوم ہیں،ہم آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔خود کو خود مختار تصور کرتے ہیں،اپنے وطن میں رہتے ہوئے اپنی تمام تر رسومات ،عبادات اور اقتصادیات آزادانہ اداکر سکتے ہیں۔ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے معاشی،سماجی،ثقافتی،اسلامی اور باقی بنیادی حقوق کی پاسداری خود کر سکتے ہیں۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم جس شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہیںاس میں خود جدوجہد کر کے ترقی حاصل کر سکتے ہیںاور اعلیٰ سطح پر اس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔لیکن کچھ افعال ایسے بھی ہیںجن کو سر انجام دینے ،کامیاب بنانے میں ایک مخلص ٹیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔حقیقت کچھ اس کے بر عکس ہے اگر ہم اپنی عبادات کی طرف نظر ڈالیں تو ہر فرقہ کے لوگ اپنے علماءکرام کی پیروی کرتے اور ان کے دیئے ہوئے اصولوں پرچلتے ہوئے عبادات ادا کرتے ہیں۔اگر اپنے معاشی حقوق کی طرف دیکھیں ،سماجی حقوق کی طرف نظر ڈالیں یا بات کریں ثقافت کی تو کہیں نہ کہیں ہم دوسرے انسان کے تابع ضرور ہیں۔جاگو بھئی تم کب جاگوگے؟ خودکوخود ساختہ سمجھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہوئے نظر آتے اشخاص بھی درحقیقت اندرونی طور پر کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ہمیشہ کسی دسرے پر امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جاگو بھئی تم کب گے ؟وہ وقت کب آئے گا جب ہم خود کو پر اعتماد ،جوش و ولولہ ،عظیم عزائم،پختہ ارادے اور قیاد ت سے نکھاریں گے؟یہی وقت بیداری کا ہے۔ہمیشہ ایک شخص دوسرے پر امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ کب کوئی دوسرا انسان آئے گا اور آکر ہماری حالت سنوارے گا۔کب ملکی حالات ٹھیک ہوں گے ؟تو ہم بھی کچھ کریں گے ۔خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا۔یہ قرآنی آیت کا ترجمہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں خود بھی اپنے آ پ پرتوجہ دینی چاہیے کوشش کرنی چاہیے ۔قائد اعظم ؒ نے بھی فرمایا: کام ،کام اور صرف کام ۔ کہ امتِ مسلمہ کامیابی کو تھا مے رکھیں اپنی کوشش جاری رکھیں،چاہے لاکھ تکالیف،مسائل ،پریشانیاںاور مصیبتیں بھی آئیں لیکن ہمت نہ ٹوٹنے دیں کسی بھی وجہ سے مایوس نہ ہوں۔کیونکہ ہماری قوم میں ماےوسی بہت زیادہ پائی جاتی ہے،مایوس آدمی کاتھوڑا سا کام نا ہونے سے اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید پوری دنیا ہی ختم ہو گئی،باقی کچھ نہیںرہا حالانکہ اگر سوچا جائے تو ہزاروں رستے نکل سکتے ہیں۔لیکن آجکل کا نوجوان طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ میںنے اتنی ڈگریاں کیوں حاصل کی ہیں؟ پھر مجھے یہی چند ہزار کی ملازمت ہی کرنے کو ملنی تھی؟ پہلے ہی معاشرے میں ملازمت کے مواقع بہت کم ہیں۔دوستو! جب ہم صرف اسی وجہ سے پڑھائی کریں گے کہ کوئی اچھی سی نوکری ملے تو پھر پڑھائی ختم ہونے پر ہمیں نوکری نہ ملنے پر مایوسی ہی ہو گی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ہمیں بھی چاہیے کہ پڑھائی تو کریں دل لگا کر اچھے مارکس بھی حاصل کریں۔ملازمت ملنے میں صبر ،مستقل مزاجی،ہمت اور حوصلے سے کام لیں۔مایوس کبھی نہ ہوں،کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔کوشش کرتے رہیں، کوشش کرنے سے ہی انسان آگے بڑھتا ہے اور بہت کچھ سیکھتا ہے۔کسی بھی قوم کا قیمتی ترین سرمایہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں،اگر سب سے زیادہ مایوسی اسی طبقے میں پائی جائے تو پھر قومیں اور بھی پستی کی طرف چلی جاتی ہیں۔علامہ اقبالؒ نوجوانوں کا حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ہمارے ہاں تو یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں بہت استحکام نصیب ہے ۔حالانکہ ہم نے یہاں زینب اور فرشتہ جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم وزیادتی جیسے کیسیز دیکھے ۔ہمیں استحکام کیسے نصیب ہے؟اگر ہم وطنِ عزیز کے نظامِ تعلیم کی طرف نظرڈالیںتو بھی تقسیم نظر آتی ہے ،جہاں پر امیر کے لیے تعلیم کا معیار تو کچھ اور ہو اور غریب کے لیے تعلیم کچھ اور اس طرح احساس ِ کمتری جیسے افعال سامنے آتے ہیں۔اگر کوئی فرد انگریزی کے دو چار حروف بولنا شروع ہوجائے تو لوگ اسے بہت پڑھا لکھا تصور کرنے لگتے ہیں۔جب بھی کسی ملک نے تر قی کی ہے اس نے اپنی مادری زبان کو فروغ دیا جس سے اس نے ترقی حاصل کی۔انگریزی بولنایا سیکھنا،سکھانا کوئی بری بات نہیںلیکن اس سے پہلے اپنی ارد و زبان پر تو پورا عبور حاصل ہوناچاہیے۔اگر کبھی بھی کسی کام میں ناکامی حاصل ہو تو مایوس نا ہوں۔ہمیشہ اپنے وطن عزیز سے محبت کیجیے،فروغِ تعلیم اور مجموعی طور پر لوگوں کے اور اپنے مسائل حل کیجیے ہر ممکنہ طور پر انسان کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے انسان کو دکھ یا تکلیف نہ پہنچے جہاں تک ہو سکے لوگوںکا ہمدرد بننا چاہیے۔بقولِ اقبالؒ:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

Short URL: http://tinyurl.com/y3rg8hvj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *