ٹرین حادثے ایک لمحہ فکر

Aqeel Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:عقیل خان


آج صبح اپنے آفس پہنچنے کے بعد میں نے حسب عادت موبائل پر سوشل میڈیا کو ٹچ کیا۔ پہلے فیس بک
(facebook)
پر نظر ڈالی پھر ٹیوٹر
(twitter)
کوچیک کیا اس کے بعد وٹس ایپ
(whatapp)
کی باری آئی۔ وٹس ایپ
(whatsapp)
کو باری باری چیک کرنے لگا ۔اس دوران پرائیویٹ سکول آنرز کے گروپ میں ایک ویڈیو دیکھی جو کسی دوست نے شئیر کی ہوئی تھی۔ پہلے تو میں نے جلدی جلدی میں اس ویڈیو کو اہمیت نہ دی اور ایک سرسری سی نظر ڈال کر اپنے آفس ورک میں مشغول ہوگیا پھر جب دوپہر کو کام سے کچھ فرصت ملی تو پھر فون کو اٹھایا اور دیکھنے لگا ۔اس دوران اُسی ویڈیو پردوبارہ نظر پڑی تو پتہ چلا کہ یہ ویڈیو لودھراں میں آج صبح پیش آنے والے حادثے کی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ آدم واہن ریلوے اسٹیشن کے قریب 2 رکشے ٹرین کی زد میں آنے سے 6 بچے جاں بحق ہو گئے۔اطلاعات کے مطابق ہزارہ ایکسپریس حویلیاں سے کراچی کے لئے آ رہی تھی کہ آدم واہن اور لودھراں کے درمیان ریلوے پھاٹک کھلا ہونے کے باعث 2 رکشے ٹرین کی زد میں آگئے۔اس حادثے کے نتیجے میں اسکول کے 6 بچے موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ان شہید ہونے والے بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھااور یہ پنجا ب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پروگرام فاس
(FAS)
کے پارٹنررائل پبلک سکول میں زیرتعلیم تھے۔یہ سکول راؤ شفیق انجم صاحب کی زیر ملکیت چل رہاہے ۔
میڈیا ذرائع کے مطابق ریلوے پھاٹک کھلا ہوا تھا جب کہ حادثے کے وقت ریلوے کا کوئی ملازم اس پھاٹک پرموجود نہیں تھا۔جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیاجبکہ دیگر ذرائع کے مطابق پھاٹک پر ملازم موجود تھا مگر سگنل ڈاؤن نہ ہونے کی وجہ اس نے پھاٹک بند نہیں کیا۔حقیقت کیا ہے یہ معمہ ہی رہے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو رات قبر میں لکھی ہے وہ رات ہم کہیں اور نہیں گزار سکتے مگر دکھ اس بات کا ہے آنکھوں دیکھے اندھا بھی نہیں بنا جاسکتا۔ جہاں تک ریلوے کا تعلق ہے تو یہ کوئی پہلا یا دوسرا حادثہ نہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں انسان یا جانور قاتل ٹرین کی نظر ہورہے ہیں۔ اکثرحادثے کے بعدساری ذمہ داری ٹرین ڈرائیور پر ڈال دی جاتی ہے ۔ جہاں تک ریلوے کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ رکشے والے بھی لوگوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ میں نے بذات خود اکثر سفر کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ رکشہ ڈرائیور ایسے کٹ مارتے ہیں کہ گاڑی والا خود بچالے تو ٹھیک ورنہ یہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگادیتے ہیں۔ کیا رکشے والوں کا فرض نہیں تھا کہ اگر پھاٹک کھلا ہوا ہے تو ایک بار اس کو ادھر اُدھر دیکھ کر رکشہ نکال لیں مگر وہ بھی جلدی میں بس نکلنے کی کوشش کرتے ہیں خواہ اس میں ان کی اپنی جان بھی چلی جائے۔ اکثر رکشے حادثوں میں ڈرائیورز کو زیادہ چوٹیں یا جان سے جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے مگر پھر بھی ہم لوگ ایسے سانحات سے سبق حاصل نہیں کرتے ہیں۔
شہید ہونے والے بچوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ آج آخری بار تیار ہورہے ہیں۔ سکول تو وہ بچے روز جاتے تھے۔ راستہ بھی وہی اور رکشہ بھی مگر اللہ کے فیصلے کا کسی کو علم نہیں تھا کہ آج صبح یہ بچے سج دھج کر سکول نہیں بلکہ جنت میں جائیں گے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کس کس بچے کی ماں کی گود خالی ہوگی؟گھر کے کسی فرد کو نہیں پتا تھا کہ بچے آج خداحافظ ہمیشہ کے لیے بول کر جارہے ہیں۔ جس وقت اس حادثے کی خبر بچوں کے ورثا کو پہنچی ہوگی کیا کہرام برپا ہوا ہوگا ؟جو ماں اپنے لال کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھی رہتی تھی آج اس کی آنکھ میں پانی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہوگا۔ وہ باپ جو گھر آکر اپنی بچوں کو دیکھ کر ساری تھکاوٹ بھول جاتا تھا آج اس کا جسم ٹوٹ کر چور چور ہوگیا ہوگا۔ گھر کے وہ افراد جو اپنے ان چراغوں کی روشنی میں ہمیشہ خوش و خرم رہتے تھے آج ان کے وہ چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے ہیں۔ کوئی ہے جو ان کے اس دکھ و غم کو ہلکا کرسکتا ہے؟ کوئی نہیں بس ہمدردی کے بول ہر کوئی بولے گا اور اپنے اپنے گھرہولے گا۔ آگ جس گھر میں لگی ہوتی ہے درد بھی اس گھر تک محدود رہتاہے۔
اب کیا ہوگا محکمہ ریلوے اور وزیر ریلوے ایکشن میں آئیں گے ۔انکوائری ہونگی اور پھراپنی ذمہ داری کا بوجھ ڈرائیور یا پھاٹک ملازم پر ڈال کربری الذمہ ہوجائیں گے۔زیادہ سے زیادہ مرنے والوں کو چند لاکھ اور زخمیوں کو چند ہزار دے کرہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اکثر ہونے والے ٹرین حادثات کے بعد آج تک محکمہ ریلوے نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا؟ جان سے جانے والے اپنی جان سے گئے۔ گھر وں کے گل بجھ گئے اور بس کہانی ختم۔
اس سانحے پر ہم افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اور دکھ کی اس گھڑی میں ہم بچوں کے ورثاء کے ساتھ ہیں اور دعا گو ہیں اللہ ان کو صبرو جمیل عطا فرمائے۔آمین

Short URL: http://tinyurl.com/jtebbfk
QR Code: