سولہ دسمبراور پاکستان کے دو المناک واقعات

Syed Anwar Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تھا لیکن اسے وجود میں آئے ہوئے ابھی صرف چوبیس سال چار ماہ اور دو دن ہی گزرے تھے کہ بھارتی سازش نے 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کو دو لخت کردیا۔سقوط ڈھاکہ یا سانحہ مشرقی پاکستان کو گزرے آج 45 سال ہوگئے ہیں اور تب سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ تینتالیس سال بعد پھر اسی سیاہ دن پاکستانی قوم کو طالبان دہشتگردوں کے ہاتھوں سانحہ پشاور کی صورت میں رونا پڑا۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے کینٹ ایریامیں وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور148 لوگوں کو مار ڈالا جس میں 132 بچے تھے، زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 124 تھی۔سولہ دسمبر 2014 کے دن دہشت گردوں نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا تھا اس پر انسانیت ہمیشہ شرمندہ رہے گی ۔ 16 دسمبر دو مرتبہ پاکستانی ماوں کی گودیں اجاڑ چکا ہے۔

بھارت نے پراپیگنڈے کے میدان میں بہترین صلاحیتوں کامظاہرہ کرکے عوامی لیگ کی علیحدگی پسند تحریک پر جمہوریت کا رنگ چڑھا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن پاکستان کی حمایت کرنا چاہتے تھے، ان کی حمایت کا اصل ہدف مغربی پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانا تھا نہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو کیونکہ بقول اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کہ ’’مشرقی پاکستان تو کسی بھی صورت میں پاکستان سے علیدہ ہوگا‘‘۔ اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی ایکشن کے وقت ہی ٹوٹ گیا تھا، باقی 16دسمبر کو جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال کر رسم پوری کردی۔ سقوط ڈھاکہ محض بھٹو یا یحیی خان‎ کی وجہ سے نہیں ہوا یہ توبیچ میں آگےورنہ اس کے پیچھے چوبیس سالہ بھارتی سازش تھی، جسکا ذکر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے گذشتہ سال بنگلہ دیش کے دورے کے دوران کیا تھا اور اپنی دہشتگردی کا برملااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اوربھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ مل کرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی”۔

مشہورتاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’بلاشبہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت نے فیصلہ کن کردار سر انجام دیا اور اگر بھارت پاکستان سے 1947 کی تقسیم کا بدلہ چکانے اور سبق سکھانے کے لئے عوامی لیگ کی سرپرستی نہ کرتا، مکتی باہنی کو اسلحہ اور تربیت سے لیس نہ کرتا اور مشرقی پاکستان پر فوجی یلغار کرکے ہمارا بازو نہ کاٹ دیتا تو شاید ہم اس سانحے سے دوچار نہ ہوتے۔ بھارت کے علاوہ پاکستان کو توڑنے میں روس نے بھی اہم کردار سر انجام دیا جس کی مکمل اور خوفناک حمایت بھارت کو حاصل تھی۔ اس حمایت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دس سالہ دوستی کے معاہدے کی آڑ میں جہاں روس نے بھارت کو بے پناہ اسلحہ فراہم کیا گیا وہاں روس نے بھارتی کارروائی کو ڈپلومیٹک چھتری بھی فراہم کردی۔ چنانچہ روسی کھلم کھلا حمایت نے نہ صرف اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قراردادوں کا راستہ روکے رکھا بلکہ امریکہ کے بحری بیڑے کو بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور چینی مداخلت کے امکانات بھی معدوم کر دیئے‘‘۔

نریندر مودی کی طرف سے 1971کے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعتراف نے بھارت کی پاکستان دشمنی کو پورئے طریقے سے ننگا کردیا ہے۔سقوط ڈھاکہ ایک ایسا دردناک واقعہ ہے کہ جس قدر اسکے بارے میں سوچو اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے مگرافسوس اس بات کا ہے کہ ہمار ئے حکمرانوں نے مادر وطن کے دو ٹکڑے ہوجانے والے اس سانحے سے آج تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ کم از کم پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو پاکستان توڑنے، پاکستانیوں کو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لینا چاہیے۔

سولہ دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں نے حملہ کیا، دہشتگرد اسکول کی پچھلی طرف سے آڈیٹوریم میں داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہی بچوں اور اساتذہ پر فائرنگ کردی ۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی لیکن اُسکے باوجود مرنے والوں کی تعداد 148 ہے، جس میں 132 بچے تھے، زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 124 تھی۔ تحریک طالبان پاکستان نےپشاور میں اسکول پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی تھی۔ اس سانحہ نے جہاں پوری دنیا کو غمناک کیا، وہیں پاکستانی قوم کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اوردہشتگردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے پوری قوم متحد ہوگئی تھی ۔آرمی پبلک اسکول کےمعصوم بچوں پرحملہ ظلم وبربریت کی بدترین مثال ہے۔ ماوں کی گودیں اجاڑنے والے انسانیت اورپاکستان کے دشمن ہیں،تعلیم دشمن دہشتگرد انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ طالبان دہشتگردوں کے حملے میں مارئے جانے والوں میں 10ویں جماعت کے طالب علم اسفند خان کی والدہ مسز شاہانہ اجون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ والدین کو سکون نہیں آرہا، انہوں نے کہا تھا کہ”وہ اپنے بچوں کی فیس کے ساتھ اسکول کی سکیورٹی فیس بھی دیتے تھے”۔ اُن کا کہنا تھا کہ “اسکول کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری آرمی کی تھی اور اُنہوں نے کیا سکیورٹی کی تھی وہ اس بارے میں والدین کو بتائیں اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں”۔

لال مسجد کےدہشتگردمولانا عبدالعزیز نے پشاور حملے کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، سول سوسایٹی کی طرف سے اُس کے خلاف کئی کیسز بھی دائر کیئے گئے تھے تاہم اس کے باوجود اُس کے ہاتھوں میں ہتکڑیاں پہنانے کی ہمت کوئی نہ کرسکا، پاکستان کے وزیر داخلہ اس کے خاص ہمدردوں میں سے ہیں۔ سول سوسایٹی کی طرف سے حکومت سے کہا گیا کہ دہشتگردی کے خلاف زرہ برابر بھی لچک کا مظاہرہ نہ کریں اورنام نہاد جہادیوں اور عسکریت پسند سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی کے تحت ایکشن لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔آج پشاور اسکول پر دہشتگردی ہوئے پورے دو سال ہوچکے ہیں ، کچھ سوالات اس دہشتگردی کے بارئے میں باربار اٹھائے جارہے ہیں، آج بھی بچوں کے والدین یہ سوال کررہے ہیں کہ ان تمام واقعات میں حکومت پاکستان اور اس کے ادارے کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے؟ پشاور اسکول حملے کے متاثرہ والدین یہ سوال بار بار اٹھاتے ہیں کہ اسکول کی سکیورٹی کی ذمہ داری کس کی تھی، کیوں اور کس نے ایک سال قبل اس کی سکیورٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟ فوج بتائے کہ طلبہ کے تحفظ میں غفلت کہاں ہوئی؟قومی ایکشن پلان کو پشاور اسکول حملے کا منتظر کیوں ہونا پڑا؟ شدت پسندوں کی فوج کو ملک کے اندر کن کن کی مدد حاصل تھی؟ اور انکے سہولت کار کون تھے یا ہیں؟ اور آخری سوال وہ کون ہیں جو دہشتگردں کی سرگرمیوں سے پہلو تہی کرتے رہے؟ گذشتہ سال بھی یہ سوال تھا اور آج بھی یہ ہی سوال ہے کہ” سانحہ پشاور کا ذمہ دار کون ہے؟”۔؟  اگر اس سوال کا جواب  کسی نے نہیں دیا تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پشاور میں ان طلبا کے قتل عام کے ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکوریٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت  کے ذمہ داران ہیں۔ ان سب نے ان بچوں کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ سب ان مرحوم  بچوں اور ان کے والدین  اور گھر والوں کے مجرم ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/zx6s4c3
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *