دوستی کا قرض

Print Friendly, PDF & Email

رات کے ایک بجنے کو تھے ،مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔میرے اندر انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔میں جلد از جلد انتقام لینا چاہتی تھی۔ماما،پاپا کو سوتے ہوئے چھوڑ کر میں ٹیرس پر چلی آئی۔نیلے آسمان پر بادل ہوا کے گھوڑوں پر سوار ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ڈور میں لگے ہوئے تھے۔نجانے کہاں جا برسیں گے۔کسی کچی بستی پر یا تنکوں سے بنی جھونپڑی پر یا پھر اونچی اونچی حویلوں پر۔پہاڑوں پر ،یا ندی نالوں پر ،تپتے ریت کے صحراؤں پر یا جنگلوں پر۔چاند یوں مجھے گم صم کھڑا تکے جا رہا تھا۔جیسے مجھ سے پرانا قرض لینا ہو اور اس انتظار میں ہو کہ کب جیب سے نوٹ نکلیں اور میرے ہاتھ میں آئیں۔یا اُسے میری بے بسی،بے قراری کا ادارک ہو چکا تھا۔جوبھی تھا بڑا دل کش نظارہ تھا۔چاند کی چاندنی کالی ناگن جیسے رات کے اندھیرے کو پرے بھاگانے میں لگی ہوئی تھی۔ہر طرف ہو کا عالم تھا۔سارا شہر خاموشی کی چادر اوڑھ چکا تھا ۔کہیں کہیں آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں وقفے وقفے سے سنائی دے رہی تھیں۔شائد ان کو غیر مرئی مخلوق نظر آرہی تھیں۔کتے تب ہی بھونکتے ہیں جب غیر مرئی مخلوق کو دیکھتے ہیں۔ان میں نیک جنات بھی ہوسکتے ہیں۔کمینے ،ظالم دیو بھی۔کالی چڑیلیں بھی ہو سکتی ہیں،بحر حال یہ تو کتے ہی جانتے ہوں گے۔کس کو دیکھ رہے تھے ۔پورا شہر برقی بتیوں سے جگمگا رہا تھا۔میرے گھر کے اردگرد گھروں میں مکمل سناٹا تھا اور برقی بتیاں روشن تھیں۔اشرف المخلوقات خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔ہاں البتہ میری طرح بہت سی لڑکیاں خوابوں کے تانے بانے بُن رہی ہوں گی۔سوچ رہی ہوں گی ،میری شادی ہوگی میں اپنے شہزادے کو خوب پیار کروں گی۔سپنوں میں اپنے دل کے شہزادوں سے شیرین ،میٹھی محبت بھری ڈھیروں باتیں کر رہی ہوں گی۔کوئی کہتی ہوں گی شادی کے بعد بچے تو پیدا کرنے نہیں ہیں اور کوئی سوچ رہی ہو گی کہ شادی کے بعد پورے چودہ بچے پیدا کرنے ہیں۔کوئی اپنے من مندر کے شہزادے کے ساتھ اونچے اونچے مری کے پہاڑوں میں ہنی مون منا رہی ہو گی۔سبھی کے سپنے الگ الگ ہوں گے اور پھر سپنوں پہ کسی کا اختیار بھی تونہیں ہوتا۔یہ وہ نگری ہے جو پل بھر میں محل تعمیر کرتی ہے اور آنکھ کھلتی ہی ان خوابوں کی مو ت واقع ہو جاتی ہے۔لیکن یہ پل دو پل کی زندگی سو سالہ ڈوبی مایوسی کی زندگی سے کہیں حسین اور خوبصور ت ہوتی ہے۔کوئی دردو الم،نہ اپنوں کے ستم نہ نوازشیں،ہر بے بسی کا رونا نہ بے وفائی کی دُہائیاں،یہ بس محبوب ،،،،،اور محبوب کی باتیں ہوتی ہیں،محبوب ہوتے ہیں اور ان کے قصدے گائے جاتے ہیں۔
میرے خواب تو اُس دن چکنا چور ہوگئے تھے ۔جس دن آنچل میرے بازؤں میں دم توڑ گئی تھی۔ہاں ۔۔۔۔میری آنچل۔۔۔کتنی پیاری ،معصوم تھی ۔آخری ہچکی لیتے ہوئے مجھے بہت بڑے امتحان میں ڈال گئی تھی۔
صائمہ باجی ،ایک وعدہ کروں۔۔۔۔
ہاں ہاں،بولوں آنچل۔۔۔بولو ۔
میں نے جواب دیا تھا،
صائمہ باجی !تجھے میری قسم۔۔۔۔اُس۔۔۔۔۔اُس درندے کو سزا ضرور دینا۔۔جس نے ۔۔۔۔تم سے۔۔۔تمھاری دوست چھین لی۔اُسے ضرور دینا۔۔۔جس ۔۔۔۔نے ۔۔۔۔
یہی آخری الفاظ تھے ،جو آنچل کے لبوں پر نامکمل رہ گئے تھے اور وہ لڑھک گئی تھی۔ہاں اُس کی گردن ایک طرف جھک گئی تھی ،اُس کا جسم بے سدھ ہو گیا تھا اور اُس کی مخملی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔شائد ان آنکھوں میں بہت سے سوال تھے،جن کا آنچل کو جواب چاہیے تھا۔۔۔ہاں آنچل یہ بے وفا دُنیاکو الوداع کہہ کر چلی گئی تھی اور اِس دُنیا کے ناسوروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھوڑوا گئی تھی۔بزدل تھی۔
میرے دل سے آواز آئی۔
ہاں بزدل تھی ۔۔ورنہ۔۔یوں خود کشی نہ کرتی۔۔۔
اِنسان ہمت والا ہو تو زمانے سے ٹکرا سکتا ہے ۔اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیناسیکھ جاتا ہے۔ناانصافیوں کا بدلہ لے سکتا ہے۔مگر یہاں تو چپے چپے پر وحشی درندے بستے ہیں۔بڑے بڑے ازژدھے پڑے ہیں جو شکار کی تاک میں رہتے ہیں۔آنچل معصوم نرم ونازک کلی تھی۔اور پھر لڑکیاں تو پھولوں سے بھی زیادہ نازک اور ملائم ہوتی ہیں۔چُھوتے ہی مرجھا جاتی ہیں۔یہ کلیاں تو آنگن میں بھلی لگتی ہیں۔ظالم ہاتھوں میں آتے ہی مرجھا جاتی ہیں۔
لیکن جدید زمانے میں ہر گلی ،ہر محلے میں وحشی درندے شکار کی تاک میں مورچے لگائے بیٹھے ہیں۔آتی جاتی لڑکیوں پر جملے کسانا،کبھی دولت کی چال چل کر،کبھی تصویریں ماں باپ کو دیکھانے کی دھمکی ،تو کبھی ویڈیو اوپن کرنے کی دھمکیاں،جسم سے کھیلواڑ کرنے کے حربے تیار کئے ہوتے ہیں۔
میں سوچوں کے نگر میں بہت دُور چلی گئی تھی۔پہلی بار آنچل تب ملی تھی جب میں گھر میں اکیلی بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی۔کوئی دروازہ زور زور سے پیٹے جا رہا تھا۔امی بازار گئی ہوئی تھی۔ابوتو صبح ہی ڈیوٹی پر چلے گئے تھے، علی اور ارسلان اسکول چلے گئے تھے۔دن کے دس بجے تھے۔جب امی بازار سے اشیاء خوردنوش لینے گئی ہوئی تھی۔جاتے جاتے تاکید کرنا نہیں بھولی تھی۔
صائمہ بیٹی،دروازے پر کوئی بھی آئے دروازہ مت کھولنا۔آج کل بہت سے لوٹنے والے شہر میں گھس آئے ہیں۔اور سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹ جاتے ہیں۔نقدی زیوارت کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو نوچتے ہیں۔زمانہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔۔
اچھا امی!۔۔۔۔۔
میں نے امی کی تاکید پر سر خم کرتے ہوئے کہا۔امی!آپ بے فکر ہو کر جائیں۔
امی بازار چلی گئی۔اب جانے کون دروازے کو بار بار پیٹے جا رہا تھا۔
ہمار ا گھر شہر کے مغربی کونے میں مین بازار سے کافی دُور تھا۔شہر تھا نہ گاؤں۔گاؤں اور شہر کو ملانے والا ہمارے علاقہ تھا۔ہمیں دیہاتی کہہ سکتے ہیں یا پھر شہری۔دروازہ لکڑی کا تھا اور بیل ڈور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔لکڑی کے دروزاے کو بے دردی سے پیٹا جا رہا تھا۔کیسے کیسے لوگ وارد ہو گئے ہیں۔رب رحمان کے فرمان کو جھٹلائے جاتے ہیں۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ تین بار دروازہ کھٹکایا جائے اور اگر کوئی جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ۔مگریہاں تو کوئی دیوانہ ہی تھا جو دروازہ اکھاڑنے پر تُلا ہوا تھا۔
میں کپڑے دھونے میں مصروف تھی۔صابن سائیڈ پر رکھا،کپڑے غصے سے پھینکے اور دروازے کی طرف لپکی۔
سر پر ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے میں نے آواز دی۔۔۔۔کون ہے۔۔۔؟
شاید دروازہ پیٹنے والا اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ میری آواز سن ہی نہیں پایا تھا۔میں نے دوبارہ کہا ،کون ہے؟
باجی !دروازہ تو کھولو ۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔آنچل ہوں۔۔آپ کی پڑوسن۔
میرے پڑوس میں تو کوئی آنچل نام کی لڑکی تھی ہی نہیں۔ہاں ساتھ والا مکان خالی پڑا تھا۔مالک مکان نے کئی بار ابو کو کہا بھی تھا کہ مکان کرائے پر چڑھا دے۔۔۔۔۔شایدکوئی نئے کرائے دار آئے ہیں۔۔مغرب کے بعد یہاں شورشرابہ بھی تھا۔سامان اٹھانے ،رکھنے کی آوازیں۔۔۔۔اِدھر رکھو۔۔۔اُدھر رکھو۔۔۔الماری وہاں رکھو۔۔۔کوئی سامان رکھنے والے کو گائیٖڈ کر رہا تھا اور میں کچن میں بیٹھی سن رہی تھی۔میری امی کی طبیعت خراب تھی اور کچن میں نے سنبھالا ہوا تھا۔
مجھے رات والا خیال در آیا۔
نسوانی آواز پر میں نے دروازے کے چھوٹے سے سوراخ سے باہر جھانکا۔معصوم ،کومل سی لڑکی بے تاب کھڑی تھی۔ہاتھ میں بالٹی تھی اور ماتھے پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے آزادنہ گھوم رہے تھے۔سورج کی روشنی ماتھے پر پڑتی تو لگتا سنہری کرنیں ستارہ بن کر ادھر اُدھر پھیل رہی ہیں۔
بادل نخواستہ میں نے دروازہ کھول دیا۔وہ لڑکی مجھے معصوم سادگی کا پیکر نظر آئی۔یہ بھلا کیا دھوکہ دے گی۔میں نے دروازہ کھول دیا۔بے تاب ،پریشان لڑکی نے بالٹی آگے کرتے ہوئے سلام کیا اور کہنے لگی۔
باجی !ایک بالٹی پانی چاہیے۔۔۔۔گھر میں نل خراب ہے۔اور بجلی کا کنکشن کاٹا ہوا ہے۔
آنچل !
آنچل نام بتایا تھا ناں۔۔۔۔۔میں نے تصدیق کرتے ہوئے پوچھا۔
جی۔۔۔۔جی۔
ساتھ والا مکان ہمارا ہے ۔۔۔ہم رات ہی شفٹ ہوئے ہیں۔۔۔آپ کے نئے پڑوسی۔
میں اُسے اندر لے گئی۔۔۔اور وہ پانی بالٹی میں بھرنے لگی۔اَس دوران ہم نے کافی گپ شب کر لی تھی۔
آنچل دُکھیاری لڑکی تھی۔سندھ کے چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی تھی۔بد قسمتی سے وہاں کے ظالم وڈیرے نے ان کے آشیانے کو مسمار کر دیا تھا۔اور اجڑا،برباد ،لوٹا ہوا گھرانہ رات کے اندھیرے میں اپنا گاؤں ،زمین ،ڈھور ڈنگر چھوڑ آئے تھے۔اپنی جان بچ گئی تھی ،یہی کافی تھا۔
بوڑھا باپ تھا۔جس کی ہڈیاں آوازیں دیتی تھیں اور اُس کی شریک حیات بوڑھی حلیمہ۔۔۔۔
آنچل کے دو بھائی تھے۔دونوں ہی آنچل سے بڑے تھے۔لیکن ظالم وڈیرے نے بوڑھے باپ کے سامنے قتل کروا دیا تھا۔بوڑھا باپ روتا رہا،معافیاں مانگتا رہا۔فریادیں کرتا رہا۔لیکن ظالم وڈیرے نے کارندوں کو اشارہ کیا اور دونوں بھائیوں کو کلہاڑی کے وار کر کے گردنیں اڑا دی تھی۔
ان کا قصور صرف اتنا تھا۔ان کی بھنسیں جاگیردار کے گھیت میں ڈر کر گھس گئی تھیں۔بے زبان جانور تھے۔دونوں بھائیوں نے اپنے طور پرہر کوشش کی تھی،مگر ناسمجھ جانور تھے۔اور پھر فصل کا نقصان زیادہ بھی نہیں ہوا تھا۔
آنچل کے بھائیوں نے معافی بھی مانگی تھی۔اور ان کے بوڑھے باپ نے معافیاں بھی مانگی ،وڈیرے کے پاؤں پکڑے،گڑ گڑاتا رہا۔۔۔لیکن ٖغرور،تکبر کی چکی میں پسنے والے کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی اور اُس کے ایک اشارے سے ۔۔۔۔اس کے کارندوں نے کلہاڑیوں سے وار کرکے گردنیں اڑادی تھی۔
کتنا ظالم شخص تھا۔ان کے جانور قبضے میں کر لیتا ،بے گناہ لڑکیوں کا قیل کروانے کا جواز نہیں بنتا تھا۔مگر کون اُس سے پوچھتا۔سارے قانون اُس کے تھے۔اُس کے حکم سے پرندے بھی پر نہیں مارتے تھے۔فرعون سے بڑھ کر غرور تھا۔
کرمو چاچا۔!کیا کرتا ۔اُس کی فریاد آسمان کو ٹکرا کر واپس پلٹ آئی تھی۔شاید اوپر والے نے آزمائش میں ڈالا ہوا تھا۔ورنہ وہ اپنے بندوں کو یوں ذلیل و خوارتو نہیں کرتا۔اُس کی فریادیں عرش سے لوٹ آئی تھیں اوریہاں تو ظالم کا راج تھا۔اِنسان کے رُوپ میں وحشی درندہ تھا۔اپنی مرضی چلاتا تھا اور وقت کا فرعون بنا بیٹھا تھا۔رب تعالیٰ نے بھی رسی ڈھیلی رکھی ہوئی تھی۔نافرمانوں کو موقعے پہ موقع فراہم کرتا جا رہا تھا۔
قیامت کا سماں تھا۔کرمو چاچا کی دُنیا لٹ گئی تھی۔ایک طوفان آیا اور اُس بوڑھے کے جینے کا سہارا چھین کراُسے روتا،آنسو بارتا چھوڑ گیا تھا۔آسما ن پھٹا نہ زمین لزری۔کبھی کبھی اوپر والا بھی کڑے امتحان لیتا ہے۔
کرمو چاچا نے اپنی دُنیا کا ماتم کرتے ہوئے ایک فیصلہ کر لیا۔یہاں سے چلے جانے کا۔اپنی معصوم،کنواری بیٹی کو محفوظ رکھنے کا۔اُس کی عزت بچانے کا۔یہاں اس نگری میں وحشی خون خوار درندے بستے تھے۔وہ مستقبل کو سوچ کر کانپ اٹھا۔یہاں انسان جانورورں سے سستے تھے۔یہاں خون کی ندیاں بہتی تھیں۔محبتیں ناپیداور وحشت ،دہشت کا راج تھا۔جاگیردار، دن کے اُجالے میں جانے نہ دیتا۔ یہ تو راتوں رات ۔۔۔۔۔سانس روکے ۔۔۔۔۔راہ فرار اختیار کر لی تھی۔تبھی تو آنچل کو بچانے کے لئے رُوپ بدل کر چھپتے،چھپاتے یہاں تک پہنچے تھے۔
*****
آنچل پہلی ہی ملاقات میں دوست بن گئی تھی۔کتنی مظلوم تھی۔کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی قربان ہو جاتا ہے۔۔۔۔
آنچل جیسے ہی دن کے کاموں سے فارغ ہوتی میرے پاس آجاتی۔میں سلائی کڑھائی کرتی تھی،آنچل بھی میرے پاس بیٹھ جاتی اور سلائی کڑھائی سیکھنے لگی۔اُس نے اپنے بیتے ماضی کا ایک ایک پل مجھے سُنایا تھا۔اُس کے آنسو آنکھوں کی زمین سے بغاوت کرتے ،رخساروں کو چھومتے ہوئے دامن گیر ہو جاتے۔۔۔۔۔۔۔ننھی سی جان نے کتنے ظلم سہے تھے۔کتنا درد تھا اس کی آواز میں۔۔۔۔کس کرب سے گزری تھی۔اپنی آنکھوں کے سامنے دو بھائیوں کے جنازے اٹھتے دیکھے تھے۔
کرمو چاچا اور حلیمہ نے جو جمع پونجی لے آئے تھے ختم ہو چلی تھی۔فاقوں کی نوبت آنے والی تھی۔کرمو چاچا نے ہمت کی اور کام ڈھونڈ لیا۔گھر کا نظام بھی چلانا تھا۔یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کچھ نہیں بننے والا تھا۔آخر زندگی کا پہہ چلانا تو تھا۔کرمو چاچا نے اپنے اجڑے خاندان کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔
********
میرے ابو چند دنوں سے بیمار پڑ گئے تھے۔جاب جاتی رہی تھی۔گھر میں فاقے پڑنے لگے تھے۔بھائی چھوٹے تھے اور امی گھریلو خاتون تھی۔کوئی سہارا نہیں تھا۔رشتے دار کب کے راہیں بدل چکے تھے۔پھر میں نے ایک فیصلہ کرلیا ۔۔۔۔۔۔۔ہمت کرنے کا،گھر کا بیڑا اٹھانے کا۔جاب کرنے کا۔۔۔۔۔۔
میں گریجوشن کر چکی تھی اور یہ میرے ابو کی مجھ سے بے پناہ محبت اور صحبت تھی۔میں نے اپنی سہیلی کے توسط ایک کپڑے بنانے والی فرم میں اپلائی کر دی۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دودن بعد مجھے انٹرویو کی کال آگئی۔مما ڈر رہی تھی۔اور پاپا کی نظریں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔جیسے خود سے شرمندہ سے ہوں۔مگر اس کے علاوہ کوئی حل بھی تو نہیں تھا۔گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ اتھا۔۔۔۔اور آخر پیٹ کا دوزاخ بھرنا تو تھا۔۔۔آج نہیں تو کل مجھے جاب کرنی پڑتی۔۔۔میں ابوکے پاس بیٹھ کر پیارے سے ان کا ماتھے چوم لیا۔پاپا جانی ۔۔۔مجھے سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔تیری یہ بیٹی تیر ا پُتر بن کر دیکھائے گی۔گھر کا نظام بھی چلانا ہے۔کسی نہ کسی کو قربانی دینے پڑے گی۔پھر میں ہی کیوں ناں گھر کا بیڑا اٹھا لوں۔۔۔۔بھائی چھوٹے ہیں اگر وہ کچھ کرنے کے قابل ہوتے تو میں یہ قدم نہ اُٹھاتی۔
انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا۔مجھے نوکری مل گئی ۔تنخواہ بھی اچھی تھی۔پک اینٖڈ ڈراپ بھی کمپنی کی ذمہ داری تھی۔دوپہر کا کھانا بھی کمپنی کی طرف سے ملنا تھا۔میں رب رحمان کی نعمتوں ،رحمتوں کا شکرانہ ادا کرنے لگی۔اور خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
رب رحمان نے خاص کرم کیا تھا۔گھر کا گزر بسر اچھا ہونے لگا۔صبح سویرے جاتی اور شام پانچ بجے گھر لوٹتی۔۔۔۔۔تھوڑا سستاتی اور پھر گھر کے کاموں میں جت جاتی۔والدین کی خدمت فرض عین تھی اور میں یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانا چاہتی تھی۔
یہ اتوار کا دن تھا۔فیکٹری سے چھٹی تھی۔میں نے صبح کا ناشتہ تیار کرکے برتن دھونے شروع ہی کیے تھے کہ آنچل آگئی۔
چہرے پر اُداسی ،جیسے کسی پریشانی میں گِری ہوئی ہو۔
آنچل !کیا ہوا ،تیرا سوہنا مکھڑا لٹکا ہوا کیوں ہے۔؟
پہلے تو خالی نظروں سے مجھے گھورتی رہی پھر کہنے لگی۔
صائمہ باجی!کیا بتاؤں ۔۔۔رب رحمان نے غریب بنا کر دُنیا کے حوالے کر دیا اور خود نظر کرم نہیں کرتا۔وہ اگر نواز دے تو آس کے خزانے میں کونسی سی کمی آجانی تھی۔۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔
آنچل ۔۔۔۔رب تو رحمان ہے۔وہ کسی کو تکلیف دے کر خوش نہیں ہوتا۔بلکہ اپنے پیاروں کو آزمائشوں میں ڈال کر امتحان ضرور لیتا ہے اور سر کش لوگوں کو ڈھیل دے کر آزماتا ہے۔انہیں توبہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔کس لمحے توبہ کر لے۔۔۔میری طرف لوٹ آئے۔۔۔وہ کسی کے ساتھ بُرا نہیں کرتا۔یہ انسان بے مروت ہو گیا ہے۔۔۔
میں نے لمبا چوڑا لٹرئچر دے کر پوچھا ۔۔۔۔
ہوا کیا ہے؟اتنی مایوس کیوں ہو؟
صائمہ باجی!بابا کی چھٹی کرادی گئی ہے۔فیکٹر ی والے کہتے ہیں ،بوڑھا ہے کام ٹھیک نہیں کر سکتا۔بوڑھے کندھوں میں وزن اُٹھانے کی سکت نہیں ہے۔ابو رو رو کرہلکان ہو رہے ہیں۔اب گھر میں کمانے والا کون ہے۔۔۔۔۔؟
کل سے کھانا نہیں کھایا۔۔۔گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔
ارے پگلی!۔۔۔میرے پاس چلی آتی۔کس نے روکا تھا۔تیری دوست کس لئے ہے۔
میں نے آنچل کو کھانا دیا۔۔۔میرے کندھے سے لگ کر رو دی تھی۔میں نے اُسے تسلی دی ۔جب گھر جانے لگی تو کرمو چاچا اور ماسی حلیمہ کے لئے بھی کھانا دیا۔
میں کام دلواؤں گی۔تیری دوست کس لئے ہے۔تو میرے ساتھ چلنا ۔دونوں ایک ساتھ کام کریں گی۔مگر۔۔۔۔
مگر باجی !مجھے تو کچھ کرنا نہیں آتا۔پگلی!کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر تھوڑا آتا ہے۔پیٹ کا دوزاخ بھرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں،خود جتن کرنے پڑتے ہیں۔تم صبح بس میرے ساتھ چلنا۔۔کرمو چاچا اور آپ کی امی کو میں سمجھا دوں گی۔
آنچل راضی ہوگئی۔میں نے اُسے نوکری دلوا دی۔آنچل بہت خوش تھی ۔اس کے گھر میں اُمید جاگ اٹھی تھی۔آنچل کے کمانے سے گھر کا ٹھنڈا چولہا چل پڑا تھا۔لیکن۔۔۔۔
کاش !میں آنچل کو نہ لے کر جاتی۔میری آنچل میرے قریب ہوتی۔مجھے سے ڈھیروں باتیں کرتی۔
آنچل میرے درمیان نہیں تھی۔میں خودکو آنچل کا قاتل سمجھ رہی تھی۔میری وجہ سے اُس نے خود کشی جیسا خرام فعل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میں سوچوں کی گرداب میں پھنس گئی تھی۔سوچوں کے نگر آباد ہو گئے تھے۔
اتنے میں امی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
صائمہ بیٹی۔۔!ارے او صائمہ۔کہاں ہو۔۔۔۔
میں اُس وقت آسمان کو تکے جا رہی تھی۔آسمان خاموش کھڑا خلقت کا پہرہ دے رہا تھا۔ننھے ننھے ستارے ایک دوسرے کے ساتھ گپیں ہانک رہے تھے۔چند ایک دوسرے کے ساتھ شرارتیں کر رہے تھے۔
امی کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میں سوچوں کے نگر سے واپس آئی اور سیڑھیاں اُترتے ہوئے نیچے کمرے میں گئی۔وہاں کا منظر دیکھ کر میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔آسمان گھومتا ہوا نظر آیا۔پاؤں من من وزنی ہو گئے تھے۔رات کے اِس پہر ،جب پورا شہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔کس کو مدد کے لئے پکاروں۔کدھر جاؤں ۔۔۔۔میرا دماغ ماؤف ہونے لگا۔اُف میرے اللہ!۔۔۔تو بھی کیسے کیسے امتحان میں ڈال کر آزماتا رہتا ہے۔
امی !پاپاکے سر کو دبائے جا رہی تھی اور ابو لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے۔آنکھیں بول رہی تھیں۔
پاپا جانی!چند سالوں سے بیمار پڑے تھے۔کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے۔سانس دان ابھی تک اس کا علاج ڈھونڈ نہیں پائے ،جب کہ قرآن مجیدواضح بتا رہا ہے کہ موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔
نجانے یہ بیماریاں کیوں آتی ہیں۔لمحہ لمحہ تڑپانے کے لئے،رولانے کے لئے،آزمانے کے لئے۔۔۔۔۔۔بیماریاں شاید جسم کا صدقہ ہوتی ہیں۔
الماری میں پڑی دوائی میں نے ابو کو پلائی اور اُمید دلائی کہ سحر ہوتے ہی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی ۔اِس وقت توگاڑی ملنی ہے نہ ڈاکٹر۔رات کے دو بجے مدد کے لئے بلاتی بھی تو کس کو؟گھر بھی شہر سے دُور تھا۔لیکن میں سوچتی رہی اور میرے پاپا۔۔۔۔۔۔۔آنسوؤں کی سوغات دے گئے۔۔۔۔ہاں ،میرے پاپا ۔۔۔ظالم دُنیا چھوڑ گئے اور مجھے وحشی زمانے میں تنہا کر گئے۔میرا سائبان لٹ گیا تھا۔
پاپا نے امی کی گود میں آخری ہچکی لی اور ان کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسوؤں نکل کر رُخساروں کو چھومتے ہوئے دامن گیر ہو گئے۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔پاپا مجھے کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو۔۔۔۔میں چلا رہی تھی۔مگر پاپا جانی ۔۔۔خاموش تھے۔۔۔ہاں ہمیشہ کے لئے خاموش۔
کاش !انسان کو کبھی موت نہ آتی۔لیکن اگر موت کا عنصر نہ ہوتا تو انسان زندگی سے بیزار ہو جاتا۔اور رب رحمان نے اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اپنے پاس بلاناتو تھا۔۔۔موت کا مزہ تو ہر شئے نے چکھنا ہے۔
یہ بیماریاں ۔۔۔یہ ایکسڈنٹ۔۔۔گولیوں کا لگنا۔۔۔۔سانپ کا ٖڈسنا۔۔۔۔سبھی موت کے بہانے ہی تو ہیں۔اور جب تک وقت مقررہ نہیں آتا ۔موت بذات خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔موت کا آنا حق ہے۔ہر ذی شئے کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔۔۔ایک نہ ایک دن سبھی نے لوٹ جانا ہے۔اپنی اصل زندگی میں،اپنی اصل دُنیا میں۔۔۔
میرے پاپا بھی اپنی زندگی جی چکے تھے اور ہم ماں بیٹی،بیٹوں کو روتا ،آنسوبہاتا چھوڑ کر چلے گئے۔نظام قدرت ہے۔اپنے ہی پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں منوں مٹی تلے سُلا دیتے ہیں۔پل بھر میں زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔صبر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔اور ہمیں صبر کرنا پڑا۔رب کی رضا میں راضی ہونا تھا۔
وقت کا کام ہے گزرنا۔سو گزرتا چلا گیا۔اُسے کیا فرق پڑتا ہے کوئی روئے،یا ہنسے۔کوئی بھنگڑے ڈالے یا ماتم کناں ہو۔وہ تو دن دیکھتا ہے نہ رات ،بس اپنی مستی میں اپنی مستانی چال کے ساتھ گزرتا چلا جاتا ہے۔وقت کبھی تھما ہے نہ کبھی تھمے گا۔
کئی دن ماحول سوگوار رہا۔پھر دھیرے دھیرے دُنیا داری میں کھو گئے۔اس دوران آنچل نے میرا بہت ساتھ دیا۔ہر پل میرے ساتھ چمٹی رہی۔مجھے تسلیاں دیتی رہی۔میرے غم میں برابر شریک ہوئی۔پاپا کی بڑی عزت کرتی تھی۔یوں بچھڑنے کا غم اُسے بھی تھا۔
گھر کی ذمہ داریاں میرے نازک کمزور کندھوں پر آن پڑی۔او ر ایک کمزور صفت نازک مردانہ وار حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیارتھی۔بھائیوں کی پڑھائی کا خرچ،امی کی دوائی،گھر کے اخراجات۔۔۔مسائل سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے تھے۔اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا،میری تنخواہ اچھی تھی۔
امی جان !میری چڑھتی جوانی دیکھ کر پریشان ہو جاتی،آخر تمھیں بھی ایک نہ ایک دن پیا گھر سدھارنا ہے،پھر میرا کون ہوگا۔میں نے امی کو بانہوں میں جکڑ لیا۔میری پیاری امی !میں بیچ راہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔امی جان ! کو دبے لفظوں میں اِس موضوع پر بات کرنے پر روک دیا۔لیکن کیسے ہو سکتا تھا۔؟چڑھتی جوانی ہو اور من میں اپنے آشیانے کے خواب نہ ہوں۔یہی تو عمر ہوتی خواب دیکھنے کی،گنگانے کی،میری آنکھیں بھی خواب سجاتی رہتی تھیں۔محبوب کے سپنے ہوتے تھے۔خوابوں پر کس نے پابندی لگائی ہے۔ان پر تو کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔غریبی،امیری کچھ بھی تو نہیں دیکھتے۔دولت ۔جائیداد،کاروبار،بزنس،بنک بیلنس کچھ بھی نہیں دیکھتے۔خوابوں کا کوئی دین ،بھرم نہیں ہوتا۔ان کی دُنیا الگ ہوتی ہے۔
خواب تو خواب ہوتے ہیں اور وہ سپنے ہی کیا جو شرمندہ تعبیر ہوجائیں۔خواب تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں۔میرے خواب بھی چکنا چور ہو گئے تھے۔ان کی کرچیاں کلیجہ چھلنی چھلنی کر دیتی تھیں۔ایک آہ سی من سے نکلتی اور خوابوں کی دُنیا مسمار ہو جاتی۔
****
فیکٹری کی گاڑی صبح سویرے ہمیں اسٹاپ سے لے جاتی اور شام کو واپس اُتار جاتی۔فیکٹری میں میل اور فی میل ایک ساتھ کام کر تے تھے۔پک اینڈ ڈراپ کی سہولت میں دونوں اکٹھے سفر کرتے تھے۔بظاہر فیکٹری کے قانون سخت تھے۔موبائل پر پابندی تھی اور ابھی موبائل اتنے متعارف بھی نہیں ہوئے تھے۔پھر بھی عشق نامراد کو کون روک پایا ہے۔اِس پر کس کا زور چلا ہے۔اِس کا جادو تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔انسان اندھا ہو جاتا ہے۔اور بس۔۔۔۔
مۂ سال گزرتے چلے گئے ۔اِس دوران آنچل کا پاپا (کرمو چاچا)بھی بے وفا دُنیا سے رخصت ہو گیا۔آنچل کی کل کائنات لٹ گئی تھی۔لڑکی کے لئے اللہ تعالیٰ کے بعد محافظ باپ ہی ہوتا ہے۔جب یہ سائبان بھی اٹھ جائے تودُنیا تاریک جنگل کا روپ دھار لیتی ہے۔جس میں خار دار کانٹے ہی کانٹے ہوتے ہیں۔زندگی عذاب بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔اپنے سانپ بن کر ڈسنے لگتے ہیں۔خیر۔۔۔۔آنچل کے اپنے تو تھے ہی نہیں۔بوڑھی ماں تھی۔ہم کام پہ جاتی تو ماسی حلیمہ میرے گھر آجاتی اور میری امی کے ساتھ سارا دن گزارتی تھی۔سارے دن اکٹھے زندگی کی ڈوریاں سلجھاتی رہتی۔۔بس یہی کل کائنات تھی ہماری۔۔۔۔۔۔
پھر وہ ہوا جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔آنچل اُبالی عمر میں محبت کر بیٹھی تھی۔اپنے من مندر میں شہزادے کے خواب سجا بیٹھی ۔زندگی کا آسان ہوتا دیکھ رہی تھی لیکن اُس نامراد عشق نے زندگی ہی اُجاڑ دی۔محبت نے اُسے تباہ کر دیا۔۔۔۔
ہاں عشق چیز ہی ایسی ہے۔بڑے بڑے سکندروں کے ہاتھوں میں کشکول تھما دیتا ہے۔یہی تو تخت و تاج چھوڑوا کر مجنوں بنا دیتا ہے۔لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ عشق ومحبت کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔عشق و محبت نے رُوپ بدل لیا ہے۔یا انسان نے اِسے بگاڑ دیا ہے۔اب عشق و محبت کے نام پر جسموں سے کھیلواڑ ہوتا ہے۔ہوس کی پیاس بجھائی جاتی ہے۔آج کی محبت نے لالچ،دھوکہ،فریب کے سوا دیا ہی کیا ہے۔اس پاکیزہ جذبے کوداغدار کیا جا رہا ہے۔محبت انسان سے شرمانے لگی ہے۔او ر انسان وحشی،درندہ بن گیا ہے۔انسانی روپ میں شیطان پیدا ہو گئے ہیں۔یہ وحشی درندے ہر گلی محلے میں کتوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔
آنچل ابھی کچی عمر میں تھی کہ عشق کے ہتھے چڑھ گئی ۔اور پھر زندگی ہی ویران کر لی۔عورت تو ایک ہی بار محبت کرتی ہے اور ٹوٹ کر کرتی ہے۔وہی محبت دھوکہ دے جائے تو عورت ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔آنچل صبح سویرے ہی میرے پاس آگئی تھی۔وہ بیٹھے بیٹھے کہیں کھو سی جاتی۔باتوں باتوں میں سوچوں میں کھو سی جاتی۔جب دو لڑکیاں مل بیٹھیں تو من کے شہزادوں کا ذکر کا چھڑ جانا ضروری امر ہے۔آنچل نے اپنے سپنوں کے راج کمار کے بارے بتایا تو میرے ہوش اڑ گئے۔یہ کب ہوا؟کیسے ہوا؟بڑی چھپی رستم نکلی ہو یار۔۔۔۔۔۔
بتایا تک نہیں۔کب سے موصوفہ عشق کی پتنگیں اڑا رہی ہے۔
آنچل پر میں جان وارتی تھی۔۔۔پھر بھلا یہ راز اپنے سینے میں کیسے چھپائے رکھتی۔آخر راز فاش ہو ہی گیا۔عورتوں کے بارے مشہور بھی ہے کہ راز ان کے اندر کیچوے لگاتا رہتا ہے اور جب تک راز دل سے باہر نہیںآتا بے چین کیے رکھتا ہے۔
صائمہ باجی!یہ اُس دن کی بات ہے۔جب آپ کو بخار تھااور میں اکیلی کام پر گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔کب؟
میں نے ذہن پر روز دیاتو مجھے یاد آیا پچھلے سال میں نے چار،پانچ چھٹیاں کی تھیں۔بخار نے مجھے آدھ موا کر دیا تھا۔تب آنچل اکیلی کام پر جاتی رہی تھی۔۔۔۔۔۔اُو۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔میری غیر موجودگی میں شہزادہ ڈھونڈ لیا۔۔۔ڈھونڈ کہاں لیا۔۔۔۔وہ تو میرے گلے پڑ گیا ہے۔
صبح میں گاڑی میں سوار ہوتی تو وہ پہلے سے موجود ہوتا اورکسی نہ کسی طرح میرے سامنے والی سیٹ پر آن وارد ہوتا۔۔۔۔۔واپسی پر بھی ایسا ہی ہوتا۔اُس کی نظریں میری جاسوسی کرتی رہتیں۔مجھے دیکھ کر مسکراتا رہتا۔کبھی آنکھوں سے عجیب و غریب اشارے کرتا۔مجھے یہ سب ناگوار گزرتا۔کئی بار سوچا کہ انتظامیہ کو مطلع کردوں۔۔۔یا پھر تمھیں۔۔۔۔۔مگر وہی نسوانی مجبوریاں۔وہی رسوائی کا ڈر،وہی بدنامی کا طوق۔۔۔۔بات کا پتنگڑ نہ بن جائے،سوچ کر خاموش ہو جاتی۔۔۔
جلتی پہ تیل کا کام اُس دن کی ہمدردی سے ہوا۔جس دن گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے میرے آگے ایک آوارہ لڑکا آن کھڑا ہوا۔وہ بدکلامی کرنے لگا۔میں ڈر گئی مگر کیا کرسکتی تھی۔میری آنکھوں نے ساون بھادوں کی طرح برسات شروع کردی اگر عدنان اُس وقت نہ آتا تو ۔۔۔۔۔جانے کیا ہوتا۔عدنان اُس لڑکے کے ساتھ لڑنے لگا ،بھلا ہو چوکیدار کا،اگر وہ بروقت وہاں نہ آتا ،دونوں ایک دوسرے کو مار مار کر لہولہان کر دیتے اور میں بدنام ہو جاتی۔میری نوکری بھی جا سکتی تھی۔جاب جاتی تو فاقے ہوتے۔پھر امی کی دوائیاں کہاں سے آتیں۔گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا۔
آنچل مایوس ہونے لگی۔میں نے اُسے تسلی دی،نہیں آنچل !ایساکبھی نہیں ہوگا۔جس طرح جاب کرنے کے لئے قوائد وضوابط سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح جاب چھوڑنے ،چھوڑوانے کے قانون ہوتے ہیں۔جن کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
میں نے آنچل سے کہا اور آنچل نے سر جھکا کر پھر کہنے لگی۔
خیر ۔۔۔اُس دن بات آئی گئی ہوگئی اور دوسری صبح آپ بھی کام پر جانے لگی تو عدنان کو موقع نہ مل سکا۔اُس کی نظریں میرا طواف ضرور کرتی تھیں اور پھر میں بھی چور نظروں سے اُسے دیکھ لیتی تھی۔شاید میرے دل میں بھی محبت کی چنگاری بھڑک اُٹھی تھی۔۔۔۔۔محبت کی چنگاری کو صاعقہ کے ہاتھوں آنے والی چٹھی نے ہوا دی۔جس میں محبت کا اظہار کیا گیا تھا۔اس چٹھی میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر دو دن میں جوب مثبت نہ ملا تو فیکٹری کے گیٹ کے پاس تمھارے سامنے خود کو اڑا دوں گا۔۔۔۔چٹھی کیا تھی۔ایٹم بم تھا۔۔۔کھلی دھمکی اور میری رسوائی بھی ۔میں ڈر گئی اور دل کے نہہ خانوں میں اُس نے جگہ بنا لی تھی۔یہ دل ہی تو ہے جو اندھا اعتبار کر لیتا ہے۔ہزار بار ٹوٹتا ہے پھر بھی عقل نہیں آتی۔میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوگئی اور محبت کا اقرار کر دیا۔۔۔۔
محبت کا پودا شجر بننے لگا۔جس دن آپ چھٹی پہ ہوتی،ہماری عید ہوتی،ہماری ملاقات ہو جاتی۔ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پارک میں گھومتے پھرتے،ہوٹل میں ڈنر ہوتے۔محبت کا جاوو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اور میں اس سحر میں ڈوب چکی تھی۔عدنان کی باتیں مسرور کرتی تھیں،وہ بہت ہنس مکھ،خوش اخلاق تھا،مجھے زمانے کے لڑکیوں سے الگ لگا اور میں نے اُسے من کے نہہ خانوں میں چھپا لیا۔عہد وپیمان ہونے لگے ،قسمیں وعدے ہونے لگے۔
مجھے سہار ا چاہیے تھا۔امی اور آپ کے سوا میرا تھا ہی کون۔پھر آپ بھی ایک نہ ایک دن کسی شہزادے کی دلہن بن کر اپنے پیا گھر چلی جاتی۔میں تنہا رہ جاتی۔مرد کے بغیرزمانہ جینے بھی تو نہیں دیتا۔مجھے عدنان کے رُوپ میں سہار ا مل گیا تھااور میں اُسے گھونا نہیں چاہتی تھی۔میں نے اُسے اپنا لیا،اُسے پوجنے لگی،اُسی کے سپنوں میں جینے لگی۔وہی تو میرے خوابوں کا شہزادہ تھا۔وہ مجھے گفٹ دیتاتو مجھے خوشی ہوتی۔کبھی پرفیوم،کبھی کپڑے اور بہت کچھ۔لیکن۔۔۔۔۔۔
****
شام ہو چکی تھی،میں نے کھانا بنا نا تھا۔خوابوں کے تانے بانے بُنتے بناتے آنچل رُخصت ہوئی اور میں بھی کچن میں مصروف ہو گئی۔اُس دن کے بعد مصروفیات نے ایسا گھیراکہ پھر ایسی محفل نہ جم سکی۔وقت گھوڑے پر سوار ڈورتا رہا۔کبھی کبھار آنچل کو چھیڑلیتی اور اُس کے شہزادے کو دیکھنے کی فرمائش کرتی رہتی۔مگر آنچل نے یہ راز دل ہی چھپائے رکھا۔کہتی تھی۔
صائمہ باجی!کسی دن ملاقات کریں گے تو آپ کو ساتھ لے جاؤں گی،پھر دیکھ لینا۔میرے شہزادے کو،یوں سب کے سامنے نہیں۔۔۔۔اور پھر روز ہمارے آس پاس ہی تو ہوتا ہے۔
آنچل کا شہزادہ ہمارے درمیان ہوتا تھااور میں پہچان نہیں سکی تھی۔
وقت بے لگام گھورے کی طرح سرپیٹتا چلا گیا اور ایک روز جب ہم کام سے واپس لوٹی تو آنچل کی دُنیا لٹ چکی تھی۔اُس کا باپ یہ دُنیا چھوڑ گیا تھا۔آنچل میرے طرح باپ کے سائبان سے خالی ہو گئی تھی۔میرے تو بھائی تھے۔آج چھوٹے ،کل بڑے،آج نہیں کل میرا ساتھ دیتے،میرا سہارا بن جاتے مگر آنچل کا کوئی نہیں تھا۔بھائی قتل ہو گئے،باپ بھی زندگی کی بازی ہار گیاتھا۔بوڑھی ماں کب تک ساتھ نبھاتی۔اُس دُوران اُسے عدنان کی ضرورت تھی۔عدنان نے اُسے تنہا نہ ہونے دیا۔
اُس دوران قیامت آئی اور سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا۔مجھے ضروری کام تھا اور میں فیکٹری نہیں جا رہی تھی۔میں نے آنچل کو اکیلا بھیج دیا۔۔۔اُسے چھیڑا بھی ۔۔۔آج تو اپنے شہزادے سے مل لو گی ناں۔۔۔اُس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔لیکن کیا خبر تھی،ایک طوفان آئے گا اور سب کچھ بکھر جائے گا۔یہی میری غلطی تھی۔کاش اُس دن میں اُس کے ساتھ چلی جاتی۔۔۔۔۔
******
چھٹی کے بعد آنچل اپنے شہزادے کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھانے چلی گئی۔ہوٹل کا روم بک کروایا گیا ۔باتوں باتوں میں عدنان آنچل کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔اوروہ سب ہو گیا جو شادی سے پہلے کسی لڑکی کے لئے باعث شرمندگی ہوتا ہے۔جذبات کی لہروں نے ایسا قید کیا کہ آنچل کو خبربھی نہیں ہوئی اور اپنا سب کچھ عدنان پر قربان کر دیا۔ہوش تب آیا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔محبت کا نشہ،زہر بھر چکا تھا۔عدنان سر جھکائے شرمندہ سا بیٹھا تھا۔آنچل آنسو بہا رہی تھی۔مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئی کھیت،کے مصداق،آنچل لٹ چکی تھی۔اب ندامت کے آنسو بہانے سے کیا ہونا تھا۔
عدنان نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔میری جان تم ہی تو میری دلہن ہو۔ایک نہ ایک دن میرے آنگن میں آہی جاؤں گی۔۔ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔آنچل ان کی شریں باتوں کی زنجیروں میں قید ہو تی چلی گئی۔پھر جیسے ہی موقع ملتا یہ سلسلہ گاہے بگاہے چلتا رہتا اور آنچل نے مجھے خبر تک نہ ہونے دی۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا،آنچل حاملہ ہوگئی ۔۔جب جسامت میں تبدیلی آنے لگی تو میرے پاس آئی۔گم صم سی ،بجھی بجھی سی۔مجھے بہت شاک لگا۔آنچل یہ تو نے کیا کرلیا۔۔۔پگلی!مجھے تو بتایا ہوتا۔۔۔۔
وہ سر جھکائے بیٹھے تھی۔
صائمہ باجی! ،میں شرمندہ ہوں۔۔مجھے خبر نہ ہوئی اور انجانے ڈر سے سب کچھ چھپاتی رہی۔اب کچھ کروں۔۔۔باجی تمھارے سوا میرا کون ہے؟اس مسلے کا حل تلاش کروں۔۔ورنہ ۔۔۔
ورنہ ۔۔۔کیا۔۔۔
میں مر جاؤں گی۔وہ گھبرا رہی تھی
پگلی !مایوس نہ ہو۔ہمت سے کام لے اورتم نے عدنان سے بات کی ہے؟
میں نے پوچھا!
جی صائمہ باجی۔۔میں نے کئی بار شادی کرنے کا کہا لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔۔مجھے ڈر ہے کہیں عدنان۔۔۔۔۔
نہیں آنچل ،ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔
اگر اُس نے انکار کر دیا تو میں مر جاؤں گی۔
آنچل رونے لگی اور میں اُسے تسلی دیتی رہ گئی۔گھبراؤ نہیں۔حوصلہ رکھو۔کسی لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔
دوسرے دن میں اُسے لے کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔لیکن معاملہ بگڑ چکا تھا۔اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
لیڈی ڈاکٹر نے جواب دے دیا۔ہم مایوس واپس لوٹ آئی۔اب ایک ہی حل تھا،کہ عدنان جلد از جلد آنچل سے شادی کر لے۔
آنچل تم ایسا کرو۔۔۔عدنان پر زور دو۔۔۔۔اُسے معاملے کی صورت حال سے آگاہ کرو،ممکن ہو تو میری ملاقا ت کراؤ،میں اسے سمجھاؤں گی۔ہوسکتا ہے وہ سمجھ جائے اور معاملہ حل ہو جائے۔اگر تم سے محبت کرتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ اُسے انکار کرنا چاہیے۔
آنچل نے حامی بھرلی۔اسی پریشانی میں دن گزر گیا اور آنچل اپنے گھر چلی گئی۔میں بہت پریشان تھی۔موبائل ابھی کم کم متعارف ہوئے تھے رابطوں میں آسانی نہیں تھی۔کئی دن گزر گئے۔
ٓآنچل نے عدنان سے ملاقات کی اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔عدنان کے تو تیور بدل گئے۔آنچل کو بد چلن،آوارہ،گناہوں کی دلدل جیسے القاب سے نواز دیا۔میں تم جیسی غریب لاوارث لڑکی کے ساتھ شادی کیسے کر سکتا ہوں۔؟تم نے تو اپنی تسکین کے لئے اپنا سب کچھ میرے حوالے کیا تھا۔تم جیسی ہزاروں روز میرے آگے پیچھے ہوتی ہیں۔تم لڑکیاں ہوتی بھی اس لئے ہو۔وقت گزری کے لئے۔ہم تو آزاد شکاری ہیں،جہاں سے شکار مل جائے۔کر لیا ۔۔۔۔۔۔تم جیسی آوارہ لڑکی سے کوئی بھی شادی نہیں کر ئے گا،جو شادی سے پہلے اپنی عزت نیلام کر دے۔۔۔۔
عدنان کے الفاظ ،آنچل پر انگاروں کی برسات کر رہے تھے۔اُسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔لاوارث یتیم لڑکی تھی۔کہاں جاتی۔کس سے انصاف مانگتی،کس کا در کھٹکھٹاتی۔یہاں تو ہر گلی میں نوچنے والے بیٹھے ہیں۔کوئی اُس کی فریاد سننے والا نہیں تھا۔
اُس رات مجھے بتاتے ہوئے آنسو بہاتی رہی۔میں خود پریشان تھی۔وہ خود کو ختم کرنا چاہتی تھی،
ایسی بے رونق زندگی کا کیا کروں گی۔۔۔باجی!
اندر تک وہ ٹوٹ چکی تھی۔
ایسے میں جینے کا تصور کون کر سکتا ہے۔؟
میں اُسے جھوٹی تسلی دیتی رہ گئی۔آنچل مایوسی گناہ ہے۔رب تعالیٰ سے معافی مانگو اور اسی کے آگے سر کو جھکا دو۔۔۔۔وہی کارساز ہے۔وہی کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دے گا۔
رات کا اندھیرا گہرا ہونے لگا تو آنچل روتی ،بلکتی اپنے گھر چلی گئی اور میں اس کے بارے سوچتے سوچتے سو گئی۔
*****
موذن اذان دے رہا تھاجب ہمارا بیرونی دروازہ کسی نے روز روز سے کھٹکایا۔یااللہ خیر۔۔میرے لبوں پر یہی کلمات تھے اور میں چارپائی چھوڑ کر وضو کرنے جا رہی تھی۔صبح صبح کون ہو سکتا ہے؟ابھی تو رات کا اندھیرا ٹھیک طرح سے گیا نہیں ہے۔سحر پھوٹنے والی تھی۔چریاں حمد و ثنا کی تیاری میں لگی تھیں۔
کون؟
میں نے چلتے ہوئے آواز دی۔
بوڑھی عورت روتے ہوئے دروازہ پیٹ رہی تھی اور میں یہ آواز لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔آنچل کی ماں دروازے پر تھی۔مجھے حیرت کا شاک سا لگا۔ہو نہ ہو،کہیں آنچل۔۔۔۔۔۔
ایک خدشہ سا اُبھرا۔
کیا ہوا خالہ؟
میں نے دروازے کے پٹ کھولتے ہوئے پوچھا۔
وہ۔۔۔و۔۔۔ہ۔۔وہ ۔۔۔آنچل۔۔۔۔
ماں جی کے الفاظ حلق میں پھنس رہے تھے۔
آنچل کو کچھ ہو گیا ہے۔خالہ حلیمہ نے بمشکل کہا۔میں ڈر گئی۔امی کو مطلع کرتی ،آنچل کی طرف ڈوری۔
آنچل بان کی چارپائی پر پڑی تھی۔منہ سے صابن کی جھاگ طرح سفید غبارے نما بلبلے نکل رہے تھے۔آنچل۔۔۔۔۔۔میں چیخی۔۔
ارے آنچل آنکھیں کھولو۔۔۔۔اُس کی آنکھوں میں خماری تھی۔
آنچل !دیکھو میں ہوں۔۔۔۔صائمہ باجی!
اُس نے آنکھوں کو جنبش سی دی،پپوٹے حرکت میں آئے اور بڑی غور سے میرے چہرے کو تکتنے لگی۔۔دائیں ہاتھ کی مٹھی بند تھی۔اُس نے ہاتھ میرے طرف کر کے مٹھی کھول دی۔سفید کاغذ تہہ کیا ہوا تھا۔لیٹر تھا۔لیٹر میں نے لے لیا تھا کہ آنچل نے ہچکی لی ۔اُس کے لب گردش میں تھے اور آنکھوں سے آنسووں کی برسات تھی۔آنکھوں میں چھپے الفاظ مجھ سے وعدہ لے رہے تھے۔۔۔۔
صائمہ باجی!
تم نے اُسے ضرور کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔جس نے میرے زندگی اُجار دی۔تم بھی اُس کی زندگی میں زہر گھول دو۔تجھے میری قسم۔۔۔میری قسم۔۔۔۔
آنچل کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی،اور یوں آنچل مجھ سے ہمیشہ کے لئے بہت دور چلی گئی۔
اُس نے کہیں سے زہریلی گولیاں لے لی تھیں۔جانے کتنی گولیاں حلق سے نیچے اتار لی تھیں۔زہر اُس کی رگوں میں پھیل گیا تھا۔پل بھر میں موت نے اُسے اپنی گود میں میٹھی نیند سُلا دیا تھا۔بے وفا دُنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی تھی۔
* * * * * *
آنچل کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا اور زندگی معمول پر آگئی۔لیکن میری زندگی کے شب وروز کرب میں گزر رہے تھے۔آنچل روز میرے خوابوں میں چلی آتی تھی۔مجھے پل بھر بھی چین نہیں تھا۔
آنچل کا لکھا ہوا آخری خط میرے پاس رہتا تھا۔اسی لیٹر میں اُس نے عدنان کی تصویر بھی دی تھی۔اُس کے بارے کافی معلومات لکھ دی گئیں تھی۔میں آسانی سے اُس تک رسائی حاصل کر سکتی تھی۔میرے اندر نتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔راتوں کی نیندیں ،دن کا چین اُڑ گیا تھا۔روح بے چین تھی۔آنچل کا معصوم چہر ہ میرے نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہوتا تھا۔
انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے میں نے اپنے پلان کو حتمی شکل دی ،جال بننا شروع کر دیا ۔اسی جال میں عدنان کو جکڑ کر انتقام لینا چاہتی تھی۔
وقت محو پرواز رہا اور میں فیکٹری جانے لگی تھی۔اب بھی وہی گاڑی ہمیں لے جاتی اور واپس چھوڑ جاتی تھی۔عدنان ۔۔۔سامنے والی سیٹ پر بیٹھا مجھے گھورے جا رہا تھا۔میں بھی اِسی انتظار میں تھی۔اُس نے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا تو میں مسکرا دی۔قاتلانہ اداؤں سے اپنا جال پھینک دیا۔مرد تو ایک اشارے کے محتاج ہوتے ہیں۔بھنورکی طرح لڑکیوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔
مجھے عدنان کو زِیر کرنے میں دیر نہیں لگی ،عدنان میری زلفوں کا اسیر ہو گیا۔اُسے شاید خبر ہی نہیں تھی کہ میں آنچل کی دوست ہوں۔آنچل نے بھی کبھی میرا ذکر نہیں کیا تھا۔اِس طرح مجھے اپنے شکار میں آسانی رہی ۔۔۔۔۔شکار ی چالاک ہوتو شکار آسان ہو جاتا ہے۔جو میں چاہتی تھی،وہی ہو رہا تھا،شکار خود چل کر شکاری کے پاس آرہاتھا۔
عدنان مجھے موقع دیتا تو میں اور بھی قریب ہو جاتی،میں اُسے یہی تو محسوس کروانا چاہتی تھی کہ میں اُس پہ مر مٹی ہوں ،وہ جہاں سے چاہے حاصل کر لے،میں جان بوجھ کر بے ہودہ لباس زیب تن کر کے اُس کے سامنے جاتی،زلفیں کھلی رکھتی ،اور دعوت عشق دیتی مسکراہٹ تو ہر وقت سجی رہتی۔باتوں باتوں میں ہماری گفتگو ایسی ہو جاتی جو میاں ،بیوی بھی کرتے ہوئے شرماتے ہوں۔
کہتے ہیں عورت جیسا چالاک،مکار کوئی نہیں ہے۔قُربان ہونے پہ آئے تواُس جیسا جان نثار کوئی نہیں۔نرم اتنی کہ ہواؤں کے جھونکوں سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائے اور سخت اتنی کہ فودلاد بھی اثر نہ کرسکے۔رحمدلی پر آئے تو اس جیسا مہربان کوئی نہیں۔انتقام پر اُتر آئے تو بھوکی شیرنی کی طرح چیر پھاڑ دے۔آج تک عورت کو کوئی پہچان ہی نہیں سکا،کوئی پہچان ہی نہیں سکتا۔اس کی نظریں وہ بھی جان لیتی ہیں جو مرد نہیں جان پاتا۔عورت نہ حل ہونے والی پہیلی ہی تو ہے۔اس کے ہزاروں روپ ہیں اور ہر رُوپ نرالہ ہوتا ہے۔کہیں اپنے آشیانے سجاتی نظر آتی ہے تو کہیں اپنے ہاتھوں اپنے ہی آشیانے کو آگ لگا دیتی ہے۔حسد کی آگ میں جل کر اپنے ہم منصب کو زہر جام پلا دیتی ہے،کہیں مظلوم تو کہیں جابر بنی بیٹھی ہے۔عورت ایک راز ہی تو ہے۔ایسا راز جو ابھی تک کوئی نہیں جان پایا۔جدید ٹیکنالوجی بھی ناکام نظر آتی ہے۔اب تک ہزاروں کتابیں لکھی گئیں مگر یہ راز ،راز ہی رہا اور شائد قیامت تک راز ہی رہے۔
میری ادائیں،مہربانیاں اتنی بڑھی کہ عدنا ن دیوانہ ہو گیا۔مجھے جان ہی نہیں پایا وہ تو طوطا چشم تھا،کچا پھل کھانے کا عادی تھا۔میں اُسے جلا رہی تھی،عدنان کو تڑپانا چاہتی تھی۔وہ مجھ پر قربان ہو چکا تھا،جس طرح لوہار کی بھٹی میں لوہا سرخ لال ہوتا ہے،اُسے چوٹ لگا کر کسی بھی حالت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔عدنان بھی سُرخ لال پھل کی طرح مجھے نوچنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔بس ایک اشارہ کرنے کی ضرورت تھی۔ابھی تک میں اپنے مقصد میں کامیاب رہی تھی۔عدنا ن میری قریب ہو تا چلا گیا۔وہ اپنی ہوس پوری کرنا چاہتا تھا،مجھے نوچنے کے لئے بے تاب تھا،اب تک جانے کتنی معصوم کلیاں اس بھیڑے کے ہتھے چڑھ چکی تھیں۔کتنی زندگیاں برباد کر چکا تھا۔انسانی روپ میں درندہ تھا۔شاید سبھی مرد ایسے ہی ہوتے ہیں
مرد ذات ہے بھی ایسی،اپنے گھروں میں بہن،بیٹی،بہو کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اورخود ہی درندہ بن کر دوسروں کی عزتیں تار تا ر کرتا پھرتا ہے۔دوسروں کے گھروں میں آگ لگا کر راکھ کرتا پھرتا ہے،ان کی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں کے ساتھ کھیلواڑ کرتا جاتا ہے۔جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں ،مرد
حسن کے پوجاری،جسموں کے خواہاں،صورت پر مر مٹنے والے،چال باز،فریبی،دولت کے نشے میں دھت،اپنی راتیں رانگین کرنے کے لئے کتنے گھروں کے چراغ گل کر دیتا ہے۔روز نئی مٹیارکی بانہوں میں سونے کا خواہش مند ہے۔کبھی ناگن جیسی زلفیں ہوں توکبھی ہونٹ شرابی،کبھی آنکھیں مخموری،ہو تو کبھی رُخسارچمکتے ہوں۔اپنی بیوی بُری ،دوسروں کی ہیرا لگتی ہے۔میں حیران ہوں ان مردوں سے۔کتنے حربے استعمال کرتا ہے صرف ہوس کی خاطر۔۔۔۔
اور پھر عورت کی عقل بھی تو ٹخنوں میں ہوتی ہے۔سب کچھ دیکھتی ہے مگر دھوکہ کھا جاتی ہے۔مردوں کی فریبی،میٹھی باتوں میں آکراُسے اپنا مان لیتی ہے۔اپنا جسم،اپنی روح،اپنا سب کچھ اس پر قربان کر دیتی ہے۔یہی تو آنچل کے ساتھ ہوا تھا۔عدنان کے رُوپ میں ایک مرد نے اُسے نوچ کھایا تھااور وہ اپنی مرضی سے روبھی نہ سکی۔
آنچل کا نام آتے ہی میرا خون کُھول اٹھا۔عید کی چھٹیاں ہونے والی تھیں۔آج فیکٹری میں آخری دن تھا اور میں تیار تھی۔مجھے شام کو عدنان کے پاس جانا تھا۔کسی ہوٹل میں نہیں،اُس کے گھر میں۔۔۔ہاں ۔۔۔مکمل آزادی ۔۔۔۔۔یہی تو عدنان چاہتا تھااور میں بھی۔۔۔۔عدنان بھی چاہتاتھا کہ میں اکیلی آؤں اور میرا پلان بھی تھا کہ اُس کے پاس اکیلی ہی جاؤں۔درمیان میں تیسرا کوئی نہ ہو۔بہترین موقع ہاتھ آیا تھا۔عدنان نے ڈیرے پر دعوت دی تھی اور میں نے بھی حامی بھر لی تھی۔
*****
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اورمیں عدنان کے پاس جانے کے لئے تیار تھی۔اِس دوران عدنان کی کئی کالیں آچکی تھیں۔ہاں۔۔۔میں نے موبائل رکھا ہوا تھا اور میرے پاس جو موبائل تھا ،عدنان نے گفٹ کیا تھا۔
کال ریسو کر کے میں نے عدنان سے کہا،
ہاں۔۔۔میری جان۔۔۔۔میں گھر سے چل پڑی ہوں۔بے صبرے کیوں ہو رہے ہو،بس تھوڑی دیر میں تمھاری بانہوں میں ہو ں گی،۔۔میں نے اُس کے ارمانوں پر ،اس کے جذبوں پر جلتی پر تیل والا کام کیا تھا۔میں نے اُسے اسٹاپ پرسے لے جانے کا کہہ کر کال ڈراپ کر دی۔
اوکے۔۔۔۔اوکے۔۔۔
عدنان نے ہاں میں ہاں ملائی۔
میں ،امی سے سفید جھوٹ بول کر آئی تھی کہ سہیلی کے گھر جا رہی ہوں،جلدی آجاؤں گی،پریشان نہ ہونا،پھر بھی ۔۔۔۔بیٹا۔۔۔جلدی آنا۔زمانہ بہت خراب ہے،امی فکر نہ کریں۔
میں نے امی کو تسلی دی۔
میں اپنی ماں کا بیٹا ہی تو تھی۔تیری صائمہ اب بچی نہیں رہی۔اچھا بُرا سب سمجھتی ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے
جا بیٹی،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے۔میں ماں جی کی دعاؤں کے نذرانے وصول کرتے گھر کی چوکھٹ پار کر گئی۔میری منزل عدنان تھا۔میں اندھیرا چھانے سے پہلے واپس گھر بھی آنا چاہتی تھی۔
میں نے مارکیٹ سے قیمتی تحفے خریدے۔پرفیوم لیا اور اُس میں بے ہوشی کا محلول ملا دیا۔اچھی طرح مکس کرکے ،اپنارومال اُس میں بھگو دیا۔پرفیوم میں بھی محلول تھا،اور میرا ارادہ تھا کہ سب سے پہلے پرفیوم عدنان کو دوں گی اور وہ میری خوشی کے لئے پرفیوم ضرور لگائے گا۔اس کے استعمال کر نے سے،چندلمحوں میں غنوگی چھانے لگتی ۔بے ہوشی والا محلول میری سہیلی نے مجھے لا کر دیا تھا۔اس کے بعد سموسے لئے،کیونکہ عدنان سموسے بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ہم جب بھی ملاقات کرتے ،سب سے پہلے سموسے ہماری ٹیبل کی زنیت بنتے۔،پھر باوتوں باتوں میں سموسے ختم ہو جاتے اور ملاقات بھی ہوجاتی۔
عدنان کو میری پسند اور غیر پسندکی جانکاری تھی۔میں بھی عدنان کی پسند اور غیر پسندجان چکی تھی۔ ۔عدنان ،مجھ پہ فدا ہوا۔جسم حاصل کرنے کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔خمیاری ،بے قراری زبردست تھی۔میں اپنے پلان کے مطابق ،عدنان کے گھر کی طرف رواں دواں تھی۔
ٹھیک دس منت کے بعد میں عدنان کے بتائے ہوئے اسٹاپ پہ کھڑی اُس کا انتظار کر رہی تھی۔میں پنک کلر کی شرٹ اور جین کی پینٹ زیب تن کر رکھی تھی۔اُس کی بناوٹ ایسی تھی کہ جسم کا انگ انگ جھلکتا تھا۔،کالی چادر کا برقعہ اوڑھ رکھا تھا۔شریر لڑکے مجھے گھور رہے تھے ۔برقعہ معاشرے کے لئے،زمانے کے لئے اور پینٹ شرٹ عدنان کو زِیر کرنے کے لئے زیب تن کی ہوئی تھی۔میں اسٹاپ پر کھڑی اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی کہ عدنان کی بائک آکر رکی۔
عدنا ن آچکا تھا اور میں پل بھر میں اُس کی بائیک پر بیٹھ گئی تھی۔اُس کے لبوں پر وحشی مسکراہٹ پھیل گئی اور بائیک منزل کی طرف چل پڑی۔گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ روشن ہو گئیں تھیں اور اندھیرے نے چاروں طرف کالی چادر کی بُکل مار لی تھی۔میں نے برقعہ اُتا ردیا ۔
اُف اللہ!آج تو جان لے کر ہی چھوڑو گی۔بس ارادے تو کچھ ایسے ہی ہیں ،میں نے عدنان کو جواب دیا،پھر دونوں کی شیطانی مسکراہٹ فضا میں سرایت کر گئی۔میری جان یہ سب کچھ تیرے لئے ہی تو ہے۔عدنان اور کھل اُٹھا۔ہماری بائیک کھتیوں سے ہوتی ہوئے ڈیرے پرجارکی ۔ہرطرف ہو کا عالم تھا۔ڈیرے پر دوسرا کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔دور ،دور برقی بیتاں روشن تھی جو ستاروں جیسا منظر پیش کر رہی تھیں۔
عدنان نے بائیک سائیڈ پر کھڑی کرتے ہوئے ،مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔میں نے عدنا ن کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لے لیا اور اس کے ہاتھوں میں ہاتھ لئے اندر کی طرف چلے گئے۔
بڑاساکمرہ تھا،بیڈ روم صاف ستھرا،ایک کونے میں ڈیک ،ایل سی ڈی پڑا تھا۔کمرے کی دیواریں حوا کی بیٹییاں لٹنے کی صدائیں سنا رہی تھی۔مجھے یہ دیواریں آنچل کے لٹنے کی صدائیں سنا تی محسوس ہوئی تھیں،اُس کی چیخیں میری سماعتوں کے پرڈے پھاڑ رہی تھیں۔مجھے یوں لگا کہ یہی وہ جگہ تھی،جہاں آنچل اپنی عصمت گنوا گئی تھی۔
آنچل کا خیال آتے ہی میرا خون جوش مارنے لگا۔انتقام کی آگ نے زور پکڑلیا۔میں صبر کا دامن تھماے ہوئے تھی۔میری ذرا سی غفلت سے سارا پلان خاک میں مل جاتااور میں دوسروں کی طرح ایک بھیڑے کے ہاتھوں لٹ جاتی۔مگر میں تو ایسا نہیں چاہتی تھی۔
******
عدنان اور میں بیڈ پر بیٹھ چکے تھے۔عدنان ۔۔۔لو سموسے میرے ہاتھوں سے کھاؤ۔۔خاص تمھارے لئے لائی ہوں۔میں نے سموسے کا نوالہ اُس کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے زہر آلودہ سموسے اُس کے معدے میں اپنی سرگرمیاں دیکھانے لگے تھے۔میں نے کولڈ ڈرنک بھی پلا دی۔سموسوں میں نشہ آور گولیاں ملاکر آئی تھی اور میں نے ایک نوالہ بھی نہیں لیا تھا۔عدنان بارہا کہتا رہا مگر میں نے بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔اُس کا دل رکھنے کے لئے کولڈ ڈرنک پی لی تھی۔عدنان کہتا ہی رہ گیا ،جان تم بھی لو ناں سموسہ۔۔۔۔یار میرا معدہ خراب ہے۔سموسے گڑبڑ کریں گے۔بس کولڈ ڈرنک بہت ہے۔میں نے کہا
اچھا میں کچھ اور منگواتاہوں۔۔۔۔عدنان بیڈ سے اترنے لگا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔
میں نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔پیٹ پر ہاتھ رکھنا صرف اور صرف بہانہ تھا۔تاکہ عدنان کو کسی قسم کا شک نہ ہو۔اتنے میں ۔۔۔۔پرس سے پرفیوم نکال چکی تھی۔۔۔میری جان۔۔یہ خاص تمھارے لئے۔۔۔۔میں نے پرفیوم اُس کی طرف کی۔تم اُسے چیک کرو میر ی پسند کیسی ہے۔
عدنان نے پرفیوم لیتے ہوئے بوتل کا ڈھکن کھولا ہی تھا کہ میں نے پیٹ میں درد ہونے کی ڈرامائی انذاز اپنایا اوراٹھ کھڑ ی ہوئی۔۔۔
کیا ہوا؟عدنان بے چین ہونے لگا۔۔۔۔
واش روم۔۔۔۔اُدھر۔۔۔۔
اچھا ! میں آتی ہوں۔تم پرفیوم چیک کرو۔کیسی ہے؟باقی پھر۔۔۔۔
میں نے فقرہ اُدھورا چھوڑ دیا تھا تاکہ عدنانسمجھیں کہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔
میں واش روم میں گھس گئی اور شاور کھول دیا۔
پرفیوم لگانے کی آواز میں نے بآسانی سن لی تھی۔عدنان نے پرفیوم اپنے کپڑوں اور بغلوں میں لگائی تھی۔میں واش روم میں کھڑی ٹائم گزارنے لگی۔کافی دیر کے بعد میں باہر آئی۔عدنان ۔۔۔بیڈ پر بیٹھا ڈرنک گلاسوں میں انڈیل رہا تھا۔
آؤ،آؤ ڈارلنگ ڈرنک پیؤ۔اس سے پیٹ کی خرابی ٹھیک ہو جائے گی۔
یہ کون سی ڈرنک ہے۔۔۔میں نے اُس سے اٹھنے والی بد بو سے بیزار ہو کر پوچھا۔۔۔یار خاص اشپشل منگوائی ہے۔اس کو شراب کہتے ہیں۔کیا نشہ ہے اِس کا۔۔۔۔محفلوں میں رنگ بھر دیتی ہے۔
نشہ !نشہ تو میں نے تمھیں دے دیا ہے۔۔۔میرے دل میں چھپے انسان نے جواب دیا۔۔۔
عدنان نے شراب سے بھرا گلاس میری طرف بڑھایا ہی تھا کہ جھٹکے سے بیڈ پر لیٹ گئے۔
میں ہنسنے لگی۔۔۔۔یار ابھی تو پی نہیں اور نشہ پہلے ہی چڑھ گیا۔عدنان کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔اُس نے بیڈ سے اُٹھنے کی کوشش کی مگر میں نے اُسے لیٹا دیا اور اپنی شرٹ کے بٹن کھول دئیے۔
عدنا ن بے قابو ہو گیا اور میرے قریب ہوتا گیا،اُس کے سانسوں کی آواز میں سن رہی تھی۔عدنان نے میرے ابھاروں کی طرف ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ جھٹکے سے ہاتھ لڑھک گئے۔زہر نے اپنا کام دکھا دیا تھا۔عدنان میری بانہوں میں جُھول گیا۔
کتنی آسانی سے ۔۔۔۔۔۔میں کامیاب ہو گئی تھی۔درندوں کی اِس طرح موت نہیں ہو نی چایئے ۔انھیں تو چوراہوں پر لٹکا کر پتھر مار مار کر ہلا ک کرنا چایئے۔ایسی عبرت ناک سزا ہو نی چائیے کہ بعد میں کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرے۔
میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتی تھی۔عورت ذات تھی اور اپنی بدنامی سے ڈرتی تھی۔میں نے یہی طریقہ ڈھونڈا تھا۔
عدنان۔۔۔۔۔۔عدنان۔۔۔۔۔میں نے اس کے بازوؤں پکڑ کر حرکت دینی چاہی۔۔۔۔اُس کا جسم بے جان تھا،آنکھیں کھلی تھی جیسے ابھی باہر کو اُبل پڑے گی۔پھر دیکھتے دیکھتے عدنان نے آخری دو لمبی لمبی ہچکیاں بھری اور بے سدھ ہو گیا۔۔۔۔عدنان مر گیا۔۔۔میں نے اُس کے کانوں میں کہا۔۔۔۔اتنی جلدی مر گئے۔۔۔۔درندے کی یہی سزا ہونی چایئے۔۔۔کم از کم آج کے بعد کوئی حوا کی بیٹی تیری ہوس کا نشانہ تو نہیں بنے گی۔میرے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی اور میں نے نفرت سے گھورتے ہوئے ۔۔۔۔حقارت سے عدنان کے مردہ جسم کو پرے کیا اور بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔جاتے ہوئے شراب کی بوتل اُس کے ہاتھ میں تھما دی ،تاکہ شراب نوشی کی کثرت سے موت واقع ہونے کا سندسہ مل سکے۔
میں نے اپنا پرس اٹھایا اور دروازہ کراس کر گئی۔آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد میں اپنے گھر موجود تھی۔رات کا ندھیرا ہر سوں پھیل چکا تھا اور میں پُرسکون تھی۔میری روح کو چین مل گیا ۔۔۔۔اور آنچل بھی خوش ہو رہی تھی۔۔۔۔میں نے کھلے آسمان پر سفید بادلوں میں آنچل کو ہاتھ ہلاتے ،مسکراہتے دیکھ لیا تھا۔میں نے دوستی کا قرض اُتار دیا تھا۔
دوسرے روز میں فیکٹری گئی۔۔۔۔اخبار میرے آفس میں پڑا تھا۔سراسری جائزہ لینے کے لئے اٹھایا تو نظریں ایک کونے میں لگی انسانی تصویر پر ٹک گئیں۔
عبار ت یوں تھی،زہریلی شراب نے ایک اور نوجوان کی زندگی کاچراغ گل کر دیا۔اورمیری فیکٹری میں اظہار افسوس کے لئے کام روک دیا گیا ۔۔۔عدنان ہماری فیکٹری کا ورکر تھا۔سبھی کے لبوں پر عدنان کے لئے تعریفی کلمات تھے مگر اصلیت سے ہر کوئی عاری تھا۔پاک دھرتی سے ایک کمینہ ،انسان کے روپ میں شیطانی درندہ کم ہو گیا تھا ،اور میں واحد تھی جو اس کی موت پر خوشیاں منا رہی تھی۔۔

(مجیداحمد جائی، ملتان)

Short URL: http://tinyurl.com/jumxgak
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *