تعلیم کا فروغ کیسے ممکن؟
تحریر: الیاس محمد حسین
ہماری حکومت کو یہ جان کرخوف نہیں آتا کہ سکول جانے کی عمر کے5کروڑ سے زائد بچے ورکشاپوں،ہوٹلوں، چائے کی دکانوں ، اور اسی نوعیت کے کاروباری مراکز پر کام کررہے ہیںلاکھوں پیدل پھرکر کھانے پینے کی اشیاءبیچ رہے ہیں ،بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں بھیک مانگنے والے بچوںکی تعداد بھی توقع سے زیادہ ہی ہوگی ایک کروڑ سے زائد مستقبل کے معمار چائلڈ لیبر کا شکارہیں کام کرنے والے بچے سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں یہ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہےں کرسکتی حکومت کوسب کام چھوڑ کر ایجوکیشن کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہےے اس وقت پاکستان کو شدید عالمی دباﺅ اور حالات کا سامنا ہے اس قسم کی صورت حال سے نکلنے اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے حکمران وقتی طور پر پالیسیاں بناتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں لگتاہے شرح خواندگی بڑھانا کسی بھی حکومت کی پہلی ترجیح نہیں رہا اگر اخوت جیسا ادارہ بغیر فیس کے یونیورسٹی بنا سکتاہے تو حکومتوںکے پاس تو لا محدود وسائل ہوتے ہیڈ وہ کرنا چاہیں تو کیا نہیں کر سکتے عام آدمی یہ تہیہ کر لے کہ ا س نے اپنے اہل خانہ کو تعلیم یافتہ بنانا ہے تو صرف انفرادی پر حالات کا مقابلہ کرتا کرتا تھک جاتاہے یہ بات یقینی ہے کہ تعلیم ہی سے پاکستان اقوام عالم میں سر بلند ہو سکتا ہے۔صرف اس طریقے سے ہم اپنے دشمن کا ،حالات کا،دور حاضر کا ، امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہےں۔ یہی ایک طریقہ ہے پاکستان کو بچانے کا ، اسے دشمن سے محفوظ بنانے کا۔اسے مستحکم کرنے کا۔ ہماری حکومت کو یہ جان کرخوف نہیں آتا کہ سکول جانے کی عمر کے5کروڑ سے زائد بچے ورکشاپوں،ہوٹلوں، چائے کی دکانوں ، اور اسی نوعیت کے کاروباری مراکز پر کام کررہے ہیںہمارے ملک کے سیاستدان بھی دن رات ملک وقوم کی ترقی کے بلندبانگ وعدے کرتے نہےں تھکتے ،جس طرح انصاف نظر آنا چاہےے بعینہ©ٰ ترقی کےلئے بھی یہی شرط ہے،ہر گورنمنٹ نے تعلیمی ترقی کےلئے اپنی ترجیحات اور پالیسیاں تشکیل دی ہوئی ہےں لیکن سکولوں کی تعداد بڑھانے، کالجوں کواپ گریڈ کرنا جیسے اقدامات کے علاوہ کچھ نہےں کیا جاتاپاکستان میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ جس گھر میںدوتین بچے کالجز میں پڑھ رہے ہےں اس گھر کاسربراہ سارا مہینہ خرچے کرکرکے گنجا ہو جاتا ہے اور ایجوکیشن کےلئے گورنمنٹ جتنے فنڈ سالانہ مختص کرتی ہے اس سے زیادہ توگھر گھر چلنے والی کیبل سے اکھٹے ہو جاتے ہےں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا عدم استحکام سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں معاشی چکی میںپسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہےں ہےں وہ اپنے بچوں کو سکول میں کیوںکر داخل کروا سکتے ہیں جس کے پاس روٹی کھانے کے لئے پیسے نہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلا سکتاہے کمال ہے کوئی بھی حکومت اس انداز سے سوچتی ہی نہیں شاید ہماری حکومت کو یہ جان کرخوف نہیں آتا کہ سکول جانے کی عمر کے5کروڑ سے زائد بچے ورکشاپوں،ہوٹلوں، چائے کی دکانوں ، اور اسی نوعیت کے کاروباری مراکز پر کام کررہے ہیں اس کے باوجود اپنے بچوں، بھائیوں، بہنوں اور دیگر فیملی ممبروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے انہےں ڈاکٹر،وکیل، انجینئر،سائنسدان بناکر انہےں معاشرہ میں ایک باوقار مقام دلا سکتے ہےں ہمارے نبی¿ رحمت ﷺنے بھی علم کے حصول پر بڑا زور دیا ہے اس لحاظ سے یہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔فروغ ِ تعلیم کےلئے جو بھی حکمت ِ عملی طے کی جائے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے ٹھوس منصوبہ بندی کئے بغیر عمل نہ کیا جائے اس ضمن میں ایک چا رنکاتی پروگرام پر عمل کیا جائے تو ملک میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتاہے سب سے پہلے تو پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام رانج کرنا انتہائی ضروری ہے دوسرا تعلیم کو سستا کیا جائے حکومت نجی تعلیمی اداروں کے لئے فیس کی حد مقرر کرے تاکہ تعلیمی اخراجات تک عام آدمی کی رسائی ہو سکے اور پرائیویٹ سیکٹر کے شتر بے مہار اخراجات کو کنٹرول کرنے میں آسانی ہو، تیسرا سرکاری سکولوں ،کالجز اور یونیورسٹیوں کا معیار بہتر بنانا بھی فروغ ِ تعلیم میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے اس وقت پاکستان میں تعلیم برِ صغیر میں سب سے مہنگی ہے حکومت کو چوتھااہم اقدام یہ کرنا چاہےے کہ سکول سے یونیورسٹی سطح تک تمام تعلیمی اداروں کو ڈبل شفٹ کردیا جائے اس چا رنکاتی ایجنڈے پر عمل کرنے سے تعلیمی میدان میں انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔ کیا اعدادو شمار ہماری آنکھیں کھولنے کےلئے کافی نہیں کہ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے5کروڑ سے زائد بچے ورکشاپوں،ہوٹلوں، چائے کی دکانوں ، اور اسی نوعیت کے کاروباری مراکز پر کام کررہے ہیںلاکھوں پیدل پھرکر کھانے پینے کی اشیاءبیچ رہے ہیں ،بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں بھیک مانگنے والے بچوںکی تعداد بھی توقع سے زیادہ ہی ہوگی ایک کروڑ سے زائد مستقبل کے معمار چائلڈ لیبر کا شکارہیں کام کرنے والے بچے سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ۔ ہماری حکومت کو یہ جان کرخوف نہیں آتا کہ غربت نے ہمارے پیارے پیارے بچوں کی معصومیت چھین لی ہے۔ اب والدین کو بھی اس بات کااحساس کرنا ہوگا کہ ایجو کیشن کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ عام آدمی کو بھی چاہےے کہ وہ ڈرامے باز حکمرانوںکی طرف دیکھنے کی بجائے خوداٹھ کھڑے ہوں حالات جو بھی وں جیسے ہی کیوں نہ ہوں کچھ نہ کچھ اپنے بچوںکے تابناک مستقبل کےلئے ضرور کرنا چاہےے حالات کا مقابلہ کئے بغیر بہتری نہیں آسکتی۔
Leave a Reply