کہانی

ہرجائی۔۔۔۔ مصنف: علی حسنین تابش، چشتیاں

Hy,how are you? ’’جی اللہ پاک کا شکر ہے ،میں ٹھیک ہوں۔آپ کون۔۔۔۔۔؟‘‘ ’’میرانام عنبرین ہے اور میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ ’’کس سلسلے میں ،آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔؟‘‘ ’’آپ بتائیں کہ آپ مجھے کہاں مل سلتے

زادگانِ راہ۔۔۔۔ (سید اکبر شاہ، پشاور)۔

سیکرٹ۔۔۔انٹیلی جنس۔۔۔را۔۔۔کے احمدآباد سیکٹر میں ۔۔۔راہول۔۔۔جیسا خاموش طبع اور نڈر ایجنٹ شاید کوئی اور نہ تھا۔اس کی عقبی آنکھیں ذہانت اور متانت کی عملی تفسیر تھیں۔۔۔اس کی توجہ ہر وقت اپنے کام پر مرکوز رہتی۔۔۔خاموش طبع راہول کا یہ طلسم

آدم خور مردے کا انجام۔۔۔۔ مصنف: ش۔م۔دانش، پائی خیل

اس وقت رات کے ۲ بج رہے تھے ،یہ سردیوں کی ایک اندھیری رات تھی،ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ گلیاں اور سڑکیں ویران پڑی تھیں ،کوئی ذی روح کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ویسے بھی سردیوں میں گرم بستر

نمک پارے۔۔۔۔ انتخاب: حافظ کریم اللہ چشتی، پائی خیل

۔*سماجی کارکن معروف سماجی کارکن سیف الاسلام قریشی کے والد صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے:۔ ۔’’بیٹا، وہ ہمارا ذرہ برابر بھی خیال نہیں رکھتے….. ان کی ساری خدمات شہر کے لوگوں کے