ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا
تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی، پائی خیل
سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات ایک ممتازشان انفرادیت رکھتی ہیں ۔جنہیں ”امہات المومنین“کے منفردخطاب سے نوازا گیاہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ۔”یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَس±تُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَی±تُنََّ فَلَا تَخ±ضَع±نَ بِال±قَو±لِ فَیَط±مَعَ الَّذِی± فِی± قَل±بِہ مَرَضµ وَّقُل±نَ قَو±لًا مَّع±رُو±فًا۔وَقَر±نَ فِی± بُیُو±تِکُنَّ وَلَا تَبَرَّج±نَ تَبَرُّجَ ال±جَاھِلِیَّةِ ال±اُو±لٰیوَ اَقِم±نَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِی±نَ الزَّکٰوةَ وَاَطِع±نَ اللّٰہَ وَرَسُو±لَہ¾۔ اِنَّمَا یُرِی±دُ اللّٰہُ لِیُذ±ھِبَ عَن±کُمُ الرِّج±سَ اَھ±لَ ال±بَی±تِ وَیُطَھِّرَکُم± تَط±ھِی±رًا“۔(پارہ ۲۲،سورة الاحزاب، آیت۲۳،۳۳)
اے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کی بیویو!تم اورعورتوں جیسی نہیں ہو۔اگرتم اللہ سے ڈرتی ہوتوبات کرنے میں ایسی نرمی نہ کروکہ دل کامریض آدمی کچھ لالچ کرے اورتم اچھی بات کہو۔اوراپنے گھروں میں ٹھہری رہواوربے پردہ نہ رہو۔جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی اورنمازقائم رکھواورزکوٰة دواوراللہ اوراس کے رسول کاحکم مانو۔اے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے گھروالو!اللہ تویہی چاہتاہے کہ تم سے ہرناپاکی دورفرمادے اورتمہیں پاک کرکے خوب صاف ستھراکردے۔ان آیات بینات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویو!تم فضیلت اورشرف میں اورعورتوں جیسی نہیں ہو۔کیونکہ تم سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج اورتمام مومنوں کی مائیں ہواورتمہیں میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے خاص قرب حاصل ہے اورجب تمہاری قدراتنی اعلیٰ اورتمہارارتبہ اتناعظیم ہے تویہ بات تمہاری شان کے لائق نہیں کہ تم دنیاکی زینت اورآرائش کامطالبہ کرو۔اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج !تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہواوراپنی رہائش گاہوں میں سکونت پذیررہو(اورشرعی ضرورت کے بغیرگھروں سے باہرنہ نکلو)۔یاددرہے اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کوہے لیکن اس حکم میں دیگرعورتیں بھی داخل ہیں۔(تفسیرروح البیان)
سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا ۔”تم میںسے بہترین وہ ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھاہے اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے بہتر ہوں“۔(سنن ترمذی)ازواج مطہرات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطف ومدارت کااندازہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گھریلوزندگی کے واقعات سے ہوتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلی بیوی ام المومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عمرمیں25سال بڑی تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی ۔ام المومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعدآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھرکاانتظام چلانے کے لئے کوئی خاتون نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تبلیغی مصروفیات بڑھ گئیں توسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک بڑی عمرکی خاتون ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اورایک نوعمرخاتون ام المومنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کرلیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکانکاح نبوت کے دسویں سال ماہ ِشوال المکرم میں ہجرت سے تین سال قبل ہوا۔ہمدم مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بننے کاشرف ماہِ شوال المکرم ہی میں ۲ہجری کوحاصل کیا۔اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عمرمبارک نوسال تھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نوسال سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بسرکیے یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاوصال ہوااس وقت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمرمبارک۸۱سال تھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا واحدکنواری خاتون تھیں جوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عقد( نکاح) میں آئیں۔
ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ولادت مبارکہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کے چارسال بعدماہِ شوال المکرم میں ہوئی۔نام نامی اسم گرامی ”عائشہ“ لقب ”صدیقہ“ کنیت”ام عبداللہ“جو سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اجازت سے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر اختیارکی ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاصدق ووفاکے پیکرامیرالمومنین سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں ۔ والدہ ماجدہ کانام زینب جن کی کنیت اُم رومان بنت عامرابن عویم ہیںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش کے قبیلہ بنوتیم سے تعلق رکھتی تھیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاسلسلہ نسب سیدة عائشہ بنت ابوبکرصدیق بن ابوقحافہ بن عامربن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی تک جاپہنچتاہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاعہدبچپن سے انتہائی ذہین اورسادگی پسندتھیں ۔اپنی عمرمبارک میں سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوکبھی شکایت کاموقع نہ دیااورایک وفاشعاربیوی کی حیثیت سے رہیں گھرکاساراکام خودکرتیں اگرکبھی مال کی فراوانی ہوتی بھی توراہِ خدامیں تقسیم فرمادیتیں ۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے توشام ہوتے ہی سب خیرات کردیے اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا۔اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاخودروزے سے تھیں ۔جب افطارکاوقت ہواتوخادمہ کہنے لگی ۔اے ام المومنین !میں نے سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔اب افطارکے لئے کھجورکاایک دانہ تک نہیں ہے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے شکراورصبرکے ساتھ سادہ پانی سے روزہ افطارکردیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں جذبہ سخاوت اسقدروسیع تھاکہ کوئی سائل خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاحافظہ بہت تیزاورحصولِ علم کابہت شوق تھا۔سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہرطرح کے مسائل بے جھجک معلوم کرتیں اورخواتین کی رہنمائی کرتی تھیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے معلم کائنات سے تعلیم حاصل کی اسی وجہ سے اتنی بلندپایہ عالمہ ہوگئیں کہ آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعدبڑے بڑے صحابہ کرام علہیم الرضوان ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا“ سے مسائل دریافت فرماتے تھے۔حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ”جب بھی ہمیں کوئی علمی مشکل پیش آتی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی خدمت میں حاضری دیتے ۔آپ اس کے بارے میں تسلی بخش معلومات فراہم کردیتیں“۔(ترمذی)
سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرجب وحی اترتی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہااسے یادفرمالیتیںخلاصہ تہذیب میں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے دوہزاردوسودس 2210احادیث مبارکہ مروی ہیں اسی بناءپرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو”کثیرة الحدیث “بھی کہاگیاہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہافن خطابت حدیث قرآن وفقہ میں بے حدماہرتھیں ۔(البدایہ والنہایہ)۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا بے حدزاہداورعابدہ تھیں ہرسال حج اداکرتیں غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی اورزخمیوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری اٹھاکرجہادمیں حصہ لیتی تھیں۔غزوہ خیبرمیں سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کادوپٹہ میدان جنگ میں بطور”علم “لہرایا۔(مواہب اللدنیہ جلد،اول،صفحہ375) اسی بناءپراللہ پاک نے مسلمانوں کوفتح عطافرمائی جوکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عظمت کی دلیل ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی نعلین مبارک میں پیوندلگارہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی۔میں نے سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ پرُنورکودیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہاتھااوراس پسینہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میری طرف نگاہ کرم اٹھاکرفرمایاکس بات پرحیران ہو؟ام المومنین سیدہ عائشةالصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں میں نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!آپ کے رخ ِ روشن اورپسینہ جبین نے مجھے حیران کردیاہے اس پرحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہوئے اورمیرے پاس آئے اورمیری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیااورفرمایااے عائشہ!اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیردے تم اتنامجھ سے لطف اندوزنہیں ہوئی جتناتم نے مجھے مسرورکردیا۔(حلیة الاولیائ) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایااے فاطمہ !جس سے میں محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کروگی؟سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیاضروریارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں محبت رکھوں گی اس پرسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاتو”عائشہ“ سے محبت رکھو۔(صحیح مسلم)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوساری امہات المومنین میں بعض خصوصی امتیازات حاصل تھے ۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاخودفرماتی ہیںکہ مجھے دیگرازوا ج مطہرات پرچندایسی فضیلتیں حاصل ہیں جن میں کوئی دوسرامیراشریک وہمسرنہیں۔1۔”میں سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایسی زوجہ ہوں جس کے ماں باپ کوحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مہاجرت کاشرف حاصل ہوا“۔
2۔”سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس برتن سے غسل فرماتے مجھے بھی اس برتن سے غسل کرنے کی اجازت تھی ۔یہ شرف تنہامجھے حاصل ہوا“۔
3۔”یہ انفرادی سعادت صرف مجھے حاصل ہوئی کہ کئی بارایساہواکہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے بسترپردرازہیں اورجبرائیل امین علیہ السلام وحی لیکرحاضرہوئے۔اس وقت میرے اورآقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سواکوئی اورموجودنہ تھا“۔
4۔”سب سے بڑھ کریہ شرف تنہامیرے حصے میں آیاکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے وقت سراقدس میری گودمیں تھااورمیرے ہی حجرے کوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدفن کے لئے منتخب کیاگیا“۔ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاکہ ”تم مجھے تین رات خواب میں دکھائی گئیں تھیں تمہیں فرشتہ ریشمی ٹکڑے میں لاتاتھامجھ سے کہتاتھایہ تمہاری بیوی ہیں میں نے تمہارے رخ سے کپڑاہٹایاتوتم تھیں میں نے کہاکہ اگریہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تواسے جاری یعنی پورافرمادے گا“۔(بخاری ومسلم)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ لوگ اپنے تحفوں کے لئے”سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا“ کادن تلاش کرتے تھے اس سے وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مرضی چاہتے تھے ۔(متفق علیہ)فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویاں دوگروہ تھیں ایک گروہ وہ جس میںسیدہ عائشہ صدیقہ ،سیدہ حفصہ اورسیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماتھیں اوردوسری جماعت میں ام سلمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باقی بیویاں توام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گروہ نے گفتگوکی ان سے کہاکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کلام کروکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں سے فرمادیں کہ جوبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ بھیجناچاہے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوہدیہ بھیج دیاکرے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم جہاںبھی ہوں ۔چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیاآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے فرمایاکہ مجھے ”عائشہ“کے بارے میں تکلیف نہ دوکیونکہ سوائے ”عائشہ“ کے کوئی بیوی نہیں جن کے بسترمیں ہوں اوروحی آئے۔ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں آپ کی ایذارسانی سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں “پھرتمام بیویاں نے ”سیدہ فاطمہ “ کوبلایاانہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں بھیجاانہوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیاتوفرمایااے بیٹی فاطمہ!کیاتواس سے محبت نہیں کرتی جس سے تیراباپ محبت کرتاہے ؟سیدہ فاطمة الزہراسلام اللہ علیہاکہنے لگیں ۔”کیوں نہیں اباجان!میں توان کے ساتھ آپ سے بڑھ کرمحبت کرتی ہوں۔(بخاری ومسلم)
غزوہ بنومصطلق جوشعبان ۵ہجری میں پیش آیاتھااوریہ پہلامعرکہ تھاجس میں مسلمانوں کے ساتھ منافقین کاایک گروہ بھی شامل تھا۔یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں ”واقعہ افک“سے موسوم ہے ۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سفرکررہی تھیں واپسی پرقافلے نے راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔صبح صادق سے پہلے ام المومنین رفع حاجت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں۔جب واپس پڑاﺅکی طرف آرہی تھیں توانہیں پتاچلاکہ گلے کاہارجوبعض روایات کے مطابق وہ اپنی بہن حضرت اسماءرضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مانگ کرلائی تھیں ۔بے خبری میں کہیں گرگیاہے ۔پھراس خیال سے پیچھے گئیں کہ قافلے کے چلنے سے پہلے ہارڈھونڈکرواپس پہنچ جائیں گی ۔کافی تلاش وجستجوکے بعدہارتومل گیالیکن قافلہ روانہ ہوچکاتھاقافلہ والوں کوپتہ نہ لگاکہ ام المومنین قافلہ میں موجودنہیں ہیں ۔وہ محمل جس میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوارتھیں اس کے ساربان نے غلطی سے یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محمل میں ہی ہیں اونٹ کی مہارتھامی اورقافلے کے ساتھ شریک سفرہوگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پریشانی کے عالم میں وہیں چادراوڑھ کرلیٹ گئیں۔ ایک صحابی رسول حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بلندکرداراورامانت دار صحابی رسول تھے ۔وہ قافلہ کی گری ہوئی اشیاءکوسنبھالتے تھے اورشرکائے قافلہ کی نگہداشت کرناانکے ذمہ تھاوہ جب پڑاﺅکے مقام پرپہنچے توام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکودیکھ کرحیران ہوئے۔ ادب و احترام سے اونٹ پرسوارہونے کوکہاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوارہوگئیں اورحضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ کی مہارپکڑے ہوئے آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ قافلے میں پہنچادیا۔جب منافقوں کے سردارعبداللہ ابن ابی جس کاتخت اقتدارسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدینہ آمدسے چھن چکاتھا۔وہ درپردہ آپ سے سخت بغض وعداوت رکھتاتھا اورحسدکی آگ میں جلتارہتاتھا۔جب اسے ا س واقعے کاعلم ہواتواس منافق نے ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپرتہمت لگائی جس سے چندسادہ لوح مسلمان غلط فہمی کاشکارہوگئے ۔اس ناحق بدنامی سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمارہوگئیں۔سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اجازت لیکرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاچنددن کے لئے اپنے میکے تشریف لے گئیں اوراس غم میں اتناروئیں کہ کئی رات بالکل نیندنہ آئی ۔آخرکاررحمت خداوندی جوش میں آئی وحی نازل ہوئی جس سے ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طہارت،عفت وعصمت کی خودرب نے گواہی دی اورالزام لگانے والوں کے جھوٹ کاپول کھل گیا۔سورة النورکی قریباًاٹھارہ آیتیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برات میں نازل ہوئیں ۔ان آیات کے نزول سے پہلے تمام مومنوں اورحضورانورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل ام المومنین کی پاکدامنی پرمطمئن تھے چنانچہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا ”کہ مجھے اپنی بیوی کی پاکیزگی بالیقین معلوم ہے“ ۔(بخاری) قربان جاﺅںجب سیدہ مریم علیہا السلام اورحضرت یوسف علیہ السلام پر بہتان لگاتوبچے گواہ مگرمحبوبہ ،محبوب رب العالمین کوبہتان لگاتوخودرب تعالیٰ گواہ،
یعنی ہے سورہ نورجن کی گواہ ان کی پُرنورصورت پہ لاکھوں سلام
پاک دامن عورتوں پرجوبہتان باندھتے ہیں اس کی سزاکے بارے میں سورة نورکی آیت کریمہ نازل ہوئیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے۔ “اورجوپارساعورتوں کوعیب لگائیں پھرچارگواہ معائنہ کے نہ لائیں توانہیں اَسّی 80کوڑھے لگاﺅاوران کی کوئی گواہی کبھی نہ مانواوروہی فاسق ہیں۔ (پارہ ۸۱،سورة النورآیت۴)
غزوہ بنومصطلق میں ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ہارکی گمشدگی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پڑاﺅکے دوران قیام طویل کردیاتاکہ گمشدہ ہارمل جائے ۔ اس پڑاﺅکی جگہ بھی پانی نہ تھااورنہ ہی مجاہدین کے پاس پانی تھاتمام صحابہ کرام علہیم الرضوان پریشان تھے کہ نمازکاوقت نکلاجارہاہے اورپانی کاکوئی انتظام نہیں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پروحی نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمادی اور لشکراسلام نے صبح کی نمازتیمم کرکے پڑھی ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برکت سے امت کوتیمم کی سہولت ہوئی۔ حضرت اسیدبن حضیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ ”اے آل ابوبکر“یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے یعنی تمہاری برکت سے مسلمانوں کوبہت آسانیاں ہوئیں اوربہت فوائدپہنچے ۔پھرجب اونٹ اُٹھایاگیاتواس کے نیچے ہارمل گیا“۔(بخاری،کتاب التیمم)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ قرآن حکیم میں پردہ کرنے کے احکامات جاری ہونے سے قبل بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ فرماتی تھیں احادیث مبارکہ میں بکثرت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاتذکرہ ملتاہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نمازتہجدکی بے حدپابنداور نفلی روزہ بھی کثرت سے رکھتی تھیں ۔حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیںکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہامسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔اورحضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہامسلسل روزہ سے ہوتی تھیں۔اورصرف عیدالاضحی اورعیدالفطرکوافطارفرماتی تھیں۔(شعب الایمان،مصنف عبدالرزاق)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت میں اسقدر حیاءواحترام کہ امیرالمومین سیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن ہونے کے بعدسرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبرانور پرکبھی بے پردہ نہیں گئیں ۔حضرت جبرائیل امین علیہ السلام بتوسط حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوسلام کیا۔حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشة الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاکہ اے عائشہ ! یہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام ہیں تم کوسلام کہتے ہیں انہوں نے جواب دیاکہ ان پرسلام اوراللہ کی رحمت اوربولیں حضوروہ دیکھتے تھے جومیں نہ دیکھتی تھی۔ (بخاری،مسلم)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاوصال حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِحکومت میں۷۱ رمضان المبارک ۷۵ہجری بدھ کے روز۶۶سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میںہوا۔بعض شب سہ شبنہ ۷۱رمضان ۸۵ بیان کرتے ہیںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہامدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ جلیل القدرصحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازہ جنازہ پڑھائی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی وصیت کے مطابق جنازہ رات کواُٹھایاگیااوردفن بھی رات کوکیاگیا۔اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہوااوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
Leave a Reply