٭ مجید احمد جائی ٭

بیری کادرخت اور۔۔۔۔وہ۔۔۔؟

مصنف: مجیداحمد جائی (ملتان)۔ جو کچھ میری نظریں دیکھ رہی تھیں۔میں حیران تھا۔میرے پسینے چھوٹ گئے اور جسم کا رُوں رُوں کانپ رہا تھا۔دسمبر کی یخ بستہ رات تھی۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب خلقت لحافوں میں محو خواب

عذاب مسلسل

افسانہ نگار: مجیداحمد جائی، ملتان تنہائی مجھے ڈسنے کو آتی ہے ۔کال کوٹھری کے درودیوار وحشت زدہ کسی درندے کی طرح کانٹنے کو تیار کھڑے ہیں ۔تاریکی میں خوف کے سائے اور بڑھ جاتے ہیں ۔میں سنٹرل جیل کی بیرک

دوستی کا قرض

رات کے ایک بجنے کو تھے ،مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔میرے اندر انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔میں جلد از جلد انتقام لینا چاہتی تھی۔ماما،پاپا کو سوتے ہوئے چھوڑ کر میں ٹیرس پر چلی آئی۔نیلے آسمان پر بادل ہوا

ماں کا قرض۔۔۔۔ افسانہ نگار: مجیداحمد جائی،ملتان

عدیل نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔اُس کے پیدا ہونے کے چند ماہ بعد ہی اس کے والد وفات پا گئے۔اُس کی ماں نے بڑی چاہا سے،محبت سے ،پیارسے اُس کی پرورش کی۔اُسے ماں ،باپ دونوں کا پیار دیا۔باپ

سوگ زندگی کا۔۔۔۔ افسانہ نگار: مجیداحمد جائی، ملتان

بہار کی رُت ہر طر ف اپنے پر پھیلائی کھڑی تھی۔پھولوں کی مہکار،بھینی بھینی خوشبو دل کو لبھارہی تھی۔ٹنڈ منڈ درختوں پر جوانی چلی آئی تھی۔کونپلیں نئی نویلی دولہن کی طرح اکڑا کر،ایک دوسرے کو بانہوں میں لئے جھول رہی

اور میں رجسٹرڈ ہو گیا۔۔۔۔ مصنف: مجیداحمد جائی، ملتان

بہار رُت آتے ہی شہنائیاں بج اُٹھتی ہیں۔ہر شہر ،محلے ،گاؤں میں ڈھول پیٹنے کی آوازیں،شہنائیوں کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔بلند آواز میں ڈیک پر سونگ چلائے جاتے ہیں۔زردی مائل چہروں پر جوبن آنے لگتاہے۔مرجھائے چہروں پر سُرخی پھیلنے لگتی

قربانی۔۔۔۔ مصنف: مجیداحمدجائی، ملتان

’’افشاں کہاں ہو ۔؟جلدی کرو ناں،بہت دیر ہو رہی ہے‘‘۔زین نے اپنی بیٹی کو آواز دی،جو کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ ’’ابھی آئی پاپا جانی۔‘‘افشاں نے کچن سے ہی آواز دی۔ عید الاضحیٰ قریب تھی۔موسم خوشگار تھا۔آسمان