پاکستان کا موجودہ سیاسی اتار چڑھاؤ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر : شفقت اللہ


سال2013ء ضمنی انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد پاکستان پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جس میں میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا ۔2013ء کے ضمنی انتخابات سے پہلے پی ایم ایل این نے یہ منشور دیا کہ وہ دو سال میں پاکستان کو بجلی ،صحت ،تعلیم ،گیس اور دیگر بحرانوں سے نجات دلائے گی لیکن2013ء کے انتخابات گزرنے کے بعدیہ سال انتخابی تھکاوٹ اور مبارکبادیوں میں گزر گیا۔ اسی سال اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے عدالت اورالیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ادھر بھارت میں بھی انہی دنوں میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں نریندرا مودی کی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔نئے سال 2014ء کے شروع میں وہاں اقتدار میں آتے ہی نریندرا مودی نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر بے شمار مظالم ڈھائے اور یہاں پاکستان میں ن لیگ کی حکومت نے آتے ہی بادشاہت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کروایا جس میں درجنوں بے گناہ شہری ہلا ک ہوئے ۔دونوں ممالک میں ان واقعات سے جو پیغام دیا گیا وہ جمہوریت کے منہ پر طمانچہ تھا ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے 2014ء کے تحریک انصاف کے دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک بھی شامل ہو گئی اور گو نواز گو کا نعرہ لگایا۔اسی سال جب دھرنا ختم کروانے کی ہر حکومتی کوشش ناکام رہی تو اچانک سیلاب آگیا جس نے بہت زیادہ تباہی مچاہی لیکن اس کے باوجود دھرنا ختم نہیں ہوااور دھرنا جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔اسی سال کے اختتام میں اچانک پشاور میں ایک روح سوز واقعہ ہوا جس نے تاریخ کے اوراق پر دل دہلا دینے والے الفاظ رقم کئے سانحہ پشاور میں130سے زائد بچے شہید ہوئے جس کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔دھرنا ختم ہوتے ہی ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کی سانس بحال ہوئی۔لیکن ن لیگ کو اول دن سے پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا ہر لمحہ جوں کا توں ہے ۔2014ء اور 2015ء میں خارجی تعلقات خاصے اچھے رہے لیکن 2015ء کے آخر تک ن لیگ کسی بھی چیلنج چاہے غربت ہو یا صحت،بجلی ہو یا گیس،تعلیم ہو یا مہنگائی وغیرہ سے نبرد آزما ہونے میں ناکام رہی اور کوئی ٹھوس یا واضح پالیسیاں مرتب نہ کر سکی سوائے پاکستان کے اداروں کی نجکاری کرنے اور بھاری قرض اٹھا کر ملک میں میٹرو ٹرینوں،میٹرو بسوں ،سڑکوں اور قائد اعظم سولر پارک جیسے ناکام منصوبوں کی تعمیر کی۔2014ء میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے میں کافی حدتک مدد ملی جس میں مختلف اندرون ملک آپریشن سے بہت سارے سہولت کار بھی پکڑ میں آئے خاص طور پر عزیر خان بلوچ جو نہ صرف بلوچ گروپ اور پیپلز پارٹی کا سرغنہ تھا بلکہ ٹارگٹ کلر ،بھتہ مافیااور تخریب کاری کا ماسٹر مائنڈ کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے بڑے عہدے دار ہتھے چڑھ گئے جس کی وجہ سے ن لیگ کی حکومت پر بھاری مرحلہ آیا جب اس کی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اس کے خلاف ہو گئی۔جس کی وجہ سے میاں صاحب کچھ کچھ فوجی قیادت سے ناراض نظر آنے لگے اور اس طرح سیاست اور عسکریت کے درمیان ٹھن گئی۔مختلف پروگرام اور کئی جگہوں پر جہاں بھی سیاسی قیادتوں کو موقع ملتا وہ سندھ میں آرمی رینجرز آپریشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے اور انصاف کا رونا روتے نظر آتے۔ضرب عضب آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے شروع ہوتے ہی آصف علی زرداری ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے اور پارٹی کے بڑے بڑے فیصلے دبئی کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں ہونے لگے جبکہ بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین بنا کر ان کا سیاسی تعارف کروایا گیا۔اس پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں صاحب نے بھی سیاست کو اپنی وراثت میں پہنچانے کیلئے مریم نواز کو متعارف کروایا اور حکومت میں کسی بھی عہدے کے نہ ہوتے ہوئے جماعت کے تمام پارلیمینٹرین مریم نواز کو جواب دیتے اور ان سے آڈر لیتے جو کہ میاں صاحب کے جماعت پرسیاسی اثر کو ختم کرنے کے مترادف تھا۔2015میں یوں لگا کہ حکومتی جماعت تمام کام چھوڑ کر صرف اپنا آستین بچانے کے چکروں میں ہے یہاں سے وہاں بھاگ رہی ہے لیکن بارہا عوام کو یہ بھی باور کروایا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کا دور دورہ ہے اگر ہمارے خلاف کوئی آواز اٹھائی گئی تو تمہیں کہیں بم دھماکے میں اڑا دیا جائے گا یا گولیوں سے تمہارا سینہ چھلنی کر دیا جائے گا کہیں سیلاب سے تباہی کا سامنا کرناپڑے گا یا پھر تمہارے بچے اٹھا لئے جائیں گے۔اگر اس سے بھی باز نہیں آئے تو تمہاری معیشت کو اس طرح تباہ کر دیں گے کہ پھر آئندہ کبھی سر نہیں اٹھا پاؤ گے۔جب میاں صاحب اور دیگر اتحادی جماعتوں کی ان معاملات سے جان چھوٹ گئی تو 2015ء کے اختتام پر ملک کیلئے بہت بڑے معاشی استحکام کے منصوبے کا مغربی روٹ ژوب پر افتتاح کیا گیا۔2015ء میں بھی پاکستان میں حکومت کو درپیش چیلنج حل نہ ہوسکے۔2016ء کے شروع ہوتے ہی پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے ذریعے معاشی طور پر مستحکم ہونے کی طرف گامزن ہوا جس کیلئے پاک فوج نے ایک اہم کردار ادا کیا۔اور ملک مخالف دشمنوں اور سہولت کاروں کو پکڑ کر جیل کی ہوا کھلائی جبکہ بیشتر کو منطقی انجام تک بھی پہنچایا۔ویسے تو اول دن سے ہی میاں صاحب کے دور حکومت کے رواں دورانیہ میں اپنی جان بچانے کے لالے پڑے رہے لیکن سب سے بڑی امتحان کی گھڑی اس وقت آئی جب2016کے آغاز میں پانامہ لیکس کا شورو غل نے پوری دنیا کی سیاست میں تہلکہ مچا دیا۔کئی کاروباری طبقہ سیاست دان اور ادا کار ان پانامہ پیپرز کی زد میں آئے جنہوں نے اربو ں روپیہ ٹیکس چوری کرکے بیرون ملک آف شور کمپنیاں کھول رکھی ہیں۔انہیں میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی فیملی بھی شامل تھی۔اس پنڈورا باکس کے کھلنے کے بعد تمام اپوزیشن پارٹیاں متحرک ہو گئیں اور انہوں نے نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔شروع میں تو اسے میاں صاحب نے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور دو بار قوم سے خطاب میں آمریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن بنائی جائے گی۔اس کے علاوہ میں کسی کو جواب دہ نہیں ہوں! جس عوام نے انہیں اس منصب تک پہنچایا اسی کے سامنے میاں صاحب نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔میاں صاحب کے اس عمل نے عوام میں ایک احتساب کے دیو کو جنم دیااور پاکستانی عوام دہشتگردی سمیت تمام بحرانوں کو بھول کر اس دیو کو دیکھنے کیلئے مضطرب ہو گئی لیکن دوست وہی ہوتا ہے جو مصیبت میں کام آئے۔ویسے تو میاں صاحب اور ہمسایہ ملک کے وزیر اعظم نریندرا مودی کے درمیان خاصے اچھے تعلقات ہیں اور کافی حد تک بہترین کاروباری مراسم بھی لیکن اقتصادی راہ داری منصوبہ جو پورے خطے کیلئے مفید تھا ہمسایہ ملک کے گلے کی ہڈی بن گیا۔اس سے پہلے نریندرا مودی کا اچانک پاکستان میں ایک شادی کی تقریب میں شریک ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دوبارہ سے مذاکرات بحال کرکے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ختم کرکے نئی راہیں ہموار ہو سکیں گی جو دوں ممالک کی بقاء اور استحکام کیلئے ایک امید کی روشنی تھی لیکن حیف کہ اسی اثنا میں پٹھان کوٹ میں بھارتی ایئر بیس پردھماکہ ہو گیا جس کا الزام بھارتی حکومت نے بغیر وقت ضائع کئے پاکستان پر لگا دیا۔اب چونکہ ہم اچھے دوست ہیں تو پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کی طرف سے اس الزام کا خیر مقدم کرتے ہوئے تحقیقات کروانے کا ذمہ لے لیاحالانکہ اس معمہ میں پاکستان دور دور تک کہیں ملوث نہ پایا گیا پھر بھی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔قبل ازیں بلوچستان سے ایران کے راستے پاکستان آتے ایک بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنڈ کرنل کل بھوشن یادیو پکڑا گیا جس نے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پورے خطے کی عوام میں بھارت کا اصلی درندہ صفت چہرہ بے نقاب کیا اور قبول کیا کہ بھارت پورے خطے میں امن و استحکام کا دشمن ہے بھارت کی اس بھونڈی حرکت سے جب پردہ فاش ہوا تو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی عوام تلملا اٹھی اور بھارت کی اس پالیسی کی بھرپور مذمت کی یہاں تک کہ ترک صدر نے بھی اس پر اقوام متحدہ سے گہرے رنج کا اظہار کیا۔بھارت اس حد تک پاکستان میں مداخلت کرے صرف اسی صورت ممکن ہوسکتا تھا کہ جب گھر کا بھیدی بھی ساتھ دے۔یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد کئی بھارتی را ایجنٹ پکڑے گئے جن کے نہ صرف پاسپورٹ پاکستانی تھے بلکہ شناختی کارڈ بھی پاکستانی تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کچھ لوگ میاں صاحب کی شوگر مل میں ملازمت کرتے ہوئے پکڑے گئے جوکہ میاں صاحب کی سیاست اور کردار دونوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود پاکستان کی حکومتی جماعت میں سے مجال ہے کہ کسی نے مذمتی بیان دیا ہو اس کے برعکس صرف اپوزیشن کی ٹوپیاں اچھالتے رہے۔مذمت کرتے بھی تو کیسے کاروبار جو سب کو عزیز ہوتا ہے۔لیکن کل بھوشن یادیو کے پکڑے جانے سے نہ صرف بھارت کا غلیظ چہرہ فاش ہوا بلکہ میر جعفر ،میر صادق کے کردار اور پاکستان میں استحکام کے دشمن بھی بے نقاب ہو گئے۔انہیں دنوں میں ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی بڑھ گئی کہ جب ایک ایرانی مذہبی سکالر کو سعودیہ میں پھانسی دی گئی جس کی وجہ سے ایران نے عالمی برادری کے سامنے بہت سے احتجاج ریکارڈ کروائے رفتہ رفتہ حالات بگڑنے سے ایران اور سعودیہ کے درمیان جنگ کا خدشہ بڑھ گیاجن کے درمیان صلح کروانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی بات ابھی پاکستان کے منہ میں ہی تھی کہ پاکستان میں موجود منی ایران جاگ گیا۔اچانک میڈیا دفاتر پر حملے ہوئے اور توجہ افغانستان کی طرف دلائی گئی۔پٹھان کوٹ ائیربیس پر دھماکہ ہوا جس کی تحقیقات کیلئے بھارت جانے والی پاکستانی ٹیم کے سامنے شرط رکھی گئی کہ جب بھارتی ٹیم پاکستان آئے تو انہیں کل بھوشن یادیو تک رسائی دی جائے اور پرویز رشید کا بیان کہ اگر پاکستان ثالثی میں حصہ لے گا تو خانہ جنگی ہونے کا خطرہ ہے اس کے بعد جن خبروں اور باتوں کی تردید وزیر داخلہ چودھری نثار کی جانب سے بار ہاکی گئی وہی خبر ایک نجی ٹی وی چینل پر چلی کہ پاکستان میں داعش موجودہے جسے پاکستان میں کالعدم تنظیمیں تعاون کررہی ہیں۔کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد پاکستان دشمن عناصر بے نقاب ہوئے اور ہم نے اپنے ہی آستینوں سے سانپ نکلتے ہوئے دیکھے۔افغانستان کی ہٹ دھرمیوں اور ایران کی ہرزہ سرائی نے بھارتی عزائم کو پختہ کیااور ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے چاہ بہار پورٹ میں ایران اور بھارت کی مدد اور ایران سے تمام قسم کی پابندیاں اٹھا لی گئیں بلکہ اسے ترقی کیلئے سالانہ امداد بھی امریکہ کی جانب سے مختص کر دی گئی۔اسی طرح افغانی صدر کے بھارت میں دورے کے وقت بھارت کی جانب سے ہر طرح کے تعاون اور ترقیاتی فنڈ بھی افغانستان کیلئے مختص کر دیے لیکن بھارت کا یہ لالی پاپ افغانستان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا کیونکہ افغانستان اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب تک بھارت افغانستان میں موجود ہے نہ تو کبھی پاکستان دہشتگردی سے بچ سکتا ہے اور ایران بھی سکھ کا سانس نہیں لے گااور ان دونوں اسلامی ممالک کی دشمنی افغانستان کیلئے آئندہ وقتوں میں گلے کا پھندہ بن جائے گی گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ایک ریلی نکالی جاتی ہے جس میں ایک مبہم سے مطالبے پر یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر ہمارا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو یہ اقتصادی راہداری منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے یہ واقعہ عین اس وقت پیش آتا ہے جب سندھ میں ڈاکٹر عاصم جو کہ پیپلز پارٹی کے رہنماء ہیں کو رینجر گرفتا ر کر لیتی ہے اور اس سے بھی پہلے آصف زرادری کی خاص اور چہیتی ایان علی سر عام منی لانڈرنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتا ر ہوتی ہے ابھی آصف علی زرداری اور اس کے سینئیر رہنماؤں کی وجہ سے 2014 میں دھرنوں سے میاں صاحب کی جان چھوٹتی ہے اور اب اسی آصف علی زرداری کی گردن میں پھندہ نظر آنے لگتا ہے جس میں افسوس کے ساتھ کہ میاں صاحب کچھ نہیں کر پاتے ساتھ ہی
کرسی کیسے بچائی جائے !(قسط نمبر 3) تحریر:۔ شفقت اللہ
توجہ چاہے جتنی بھی بانٹنے کی کوشش کی گئی لیکن احتساب کے دیو کو اب عوام دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کتنے ہیکل ساخت کا مالک ہے اور بہت حد تک بے تاب بھی کہ کرپشن کا جن اور معاشی دہشتگرد بڑے ہیں یا احتساب کو دیو !چھوٹو گینگ کا معمہ جب پنجاب پولیس کے دائرہ کار سے باہر ہو گیا تو آرمی اور رینجرز مشترکہ آپریشن کر کے چھوٹو کو پکڑ لیتے ہیں ۔اب آرمی کے پاس پنجاب میں آپریشن شروع کرنے کی ایک ٹھوس وجہ بن جاتی ہے اور ادھر سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سمیت جماعت اسلامی کے کرپشن کے خلاف مظاہروں کا اعلان کرتی ہے ۔ پھر سے عوام کی توجہ بلوچستان کی طرف موڑ دی جاتی ہے کہ جب وہاں وکلاء برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور صدر بار کوئٹہ سمیت ستر سے زائد وکلاء شہید ہو جاتے ہیں لیکن اس قومی سانحہ سے پہلے میاں صاحب کی طبیعت نا ساز ہو جاتی ہے اور وہ بائی پاس کروانے امریکہ چلے جاتے ہیں ان کے دل کا ایک میجر آپریشن ہوتا ہے جس میں چار بائی پاس کئے جاتے ہیں جس کے بارے میں عوام اور دیگر حلقوں کے بہت سے تحفظات ہیں جو خیر کبھی بھی دور نہیں ہو سکتے۔ اسی بیچ پنجاب کی سرحدوں پر ہونے والے چھوٹو گینگ والے آپریشن کے بعد پاک فوج کے پاس ایک ٹھوس وجہ تھی کہ وہ پنجاب میں رینجر ز کو تعینات کرکے آپریشن شروع کریں کیونکہ جیسے پنجاب میں لوگوں کو سرعام مارا گیا پھر ان کیسز کو دبا دیا گیا ایک نہایت غلیظ حرکت اور قانون کی بالا دستی پر دھبہ تھا ۔چونکہ بلوچستا ن میں پہلے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را عدم استحکام کی صورتحال پیدا کرنے میں ملوث پائی گئی ہے اس لئے ان دنوں نیب کی کارکردگی کو متاثر کرنے کیلئے ایک سانحہ اور عوام کو دیا گیا اور وہ سانحہ ٹھیک ان دنوں کی بات ہے جب نیب نے بلوچستا ن کے وزیر اعلیٰ کو پکڑا جس سے کتنی ہے مقدار میں کالا دھن برآمد ہوا یہ بات یہاں اور آزاد کشمیر میں اسی سال کے اول دنوں میں ضمنی انتخابات منعقد ہوتے ہیں جس میں متوقع طور پر ن لیگ بھاری اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ن لیگ کی امیج پھر سے عوام میں مثبت شکل اختیار کر تی ہے حالانکہ آزاد کشمیر میں حکومتی جماعت کی کامیابی کوئی نئی بات نہیں لیکن ن لیگ کے پاس اس حکومت کی صورت میں یہ ایک پلس پوائنٹ تھا اور دوسرے جانب پاناما پیپرز کا معاملا جوں کا توں رہتا ہے میاں صاحب اور ان کی فیملی کی جان بخشی ہوتی نظر نہیں آتی اور میاں صاحب امریکہ میں بیٹھے ویسے تو زیر علاج ہی رہتے ہیں لیکن بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بحال ہو سکیں وزیر اعظم کی یہ ناراضگی نریندرا مودی کو اچھی نہیں لگتی اور لائن آف کنٹرول پر اچانک حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں پھر سانحہ بلوچستا ن اور لائن آف کنٹرول ملکر پاک فوج اور حساس اداروں کی توجہ پنجاب سے ہٹا کر اپنی طرف مرکوز کر لیتے ہیں اور میاں صاحب اور ان کے حواریوں کو نئی سانس مل جاتی ہے جبکہ پورے پچاس دن اسی صورت حال میں گزر جاتے ہیں اور سابقہ آرمی چیف کیلئے یہ سیاسی پیچ و خم بہت برا چیلنج ثابت ہوتے ہیں ۔ادھر آئے دن جلسے جلوس کبھی جماعت اسلامی تو کبھی تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی دھمکیاں کہ وہ اب اور حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھانا مفاد پرستی کی جانب اشارہ کرتا ہے انہیں دنوں سندھ کا وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو تبدیل کر کے مراد علی شاہ مقرر کر دیا جاتا ہے جس کے پاس پیپلز پارٹی کو بچانے کیلئے واضح پالیسیاں موجود ہوتیں ہیں یہ پالیسیاں اس صورت میں مرتب ہوتیں ہیں جب کراچی میں صفائی کے معاملات گھمبیر صورت حال اختیار کر جاتے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے سابقہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ناکام نظر آتے ہیں اور پھر بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر نیب متحرک ہوتی ہے اور نادرا کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا جاتا ہے جس سے یہ انکشاف واضح ہوتا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کو سہولت کاری کی ایک وجہ افغانستان سے آئے مہاجروں کو آسانی سے پاکستانی شناختی کارڈز کا میسر ہونا ہے جسکے بعد افغانی مہاجر باشندوں پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا جاتا ہے جو کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی سیاست پر ایک گہرا اثر ڈالتی ہے بنیادی طور پر یہ اقدام پی ٹی آئی کو کے پی کے میں کمزور کرنے اور ن لیگ کو پھر سے متحرک کرنے کا راستہ بنانے کیلئے اٹھایا جاتا ہے کیو نکہ یہ نہ اہلی بنیادی طور پر پیپلز پارٹی اور اس سے پہلے کی حکومتوں کی تھی کہ جب افغانی مہاجر یہاں آباد ہوئے تھے اور مزے کی بات یہ کہ انہی دنوں میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک اقتصادی راہداری منصوبے میں وفاقی حکومت کی جانب سے اعتماد میں نہ لئے جانے اور کرپشن ہونے پر گہرے رنج و تشویش کا اظہار کرتے ہیں جنہیں پرویز رشید مختلف صورتوں اور کوششوں سے منانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انکی تمام کوششیں بے سود ہوتیں ہیں ۔وفاق کی جانب سے کہیں بھی جمہوریت کے تقاضوں کو اولین ترجیح نہیں دی گئی بلکہ اس کے بر عکس آمریت دکھائی گئی لیکن پاک فوج کی طرف سے جو شعور عوام میں پھیلایا دیا گیا وہ اس بار اندھیروں میں ڈوبتا نظر نہیں آ رہایہی وجہ تھی کہ پاناما پیپرز کے معاملات اسی قوت سے بڑھتے رہے جس طرح اول دن سے تھے ۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں جو صفایا کرنا تھا وہ کر کے دکھایا ایم کیو ایم کے جتنے بھی دفاتر غیر قانونی یا تجاوزات میں آتے تھے گرا دئیے گئے یہ کام پچھلے کئی سالوں میں کوئی نہ کر پایا جو سید مراد علی شاہ نے چند دنوں میں کر دکھایا اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایم کیو ایم حقیقت میں بھارتی اور ملک دشمن عناصر سے فنڈڈ ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں اچانک سے تحریک آزادی کی ہوا زور پکڑ لیتی ہے جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لیتی کہ جب وہاں تحریک آزادی کے مرکزی کردار برہان وانی کو شہید کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کو پھر سے عوام میں اپنا مثبت امیج بنانے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اسے کیش کر کے دکھاتے ہیں بھارت کا چہرہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے سامنے بے نقاب کرتے ہیں جو ان کے بزنس پارٹنر اور دوست نریندر مودی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ کبھی سندھ طاس معاہدے تو ڑنے کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی لائن آف کنٹرول پر صورتحال اتنی کشیدہ ہو جاتی ہے کہ دونوں ممالک میں جنگ لگنے کی خبریں پھیل جاتیں ہیں یہ خبریں بھارتی کانگریس ،سماجی حلقوں اور سکھ برادری میں ایک نیا جوش بھر دیتیں ہیں جو نریندر مودی اور اپنی فوج کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہ سبق دیتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کسی صورت جنگ نہ کی جائے جبکہ مسلمان اور سکھ طبقہ وہاں ایک نئی ریاست کے حصول کیلئے تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں اس طرح دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ناکام خارجی اور داخلی پالیسیوں کے متحمل ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری دنیا میں اکیلا کرنے کی کوششوں میں مگن ہو جاتے ہیں ان دنوں میں دیکھا جائے تو میاں صاحب کا مزاج قدرے برہم نظر آتا ہے کیونکہ ان کے اپنے گھر سے انہیں یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی نشست سے برخواست ہو جائیں اور کسی دوسرے کو موقع دیں اس صورت حال میں ن لیگ کے اندر ہی دھڑے بن جاتے ہیں ایک چوہدری نثار مخالف اور پیپلز پارٹی کا حامی دھڑا اور دوسرا چوہدری نثار کا حامی دھڑا یہ باتیں ابھی چل رہی ہوتیں ہیں کہ پی ٹی آئی شیخ رشید اور پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر جماعتیں وزیر اعظم کو ڈیڈ لائن دے دیتیں ہیں لیکن جب وزیر اعظم ن لیگ کو دوبارہ متحد کرنے اور چوہدری نثار کو وزیر اعظم بنائے جانے کو رد کر دیتے ہیں تو پیپلز پارٹی خود بخود پیچھے ہٹ جاتی ہے اور پاکستان عوامی تحریک بھی عدالت پر اعتماد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اسی دوران پی ٹی آئی دھرنا دینے لگتی ہے جسکی وجہ سے وفاقی حکومت اور کے پی کے حکومت کے مابین ٹھن جاتی ہے۔
معاشی دہشتگردملک کا اثاثہ ہیں!!!(آخری حصہ) تحریر : شفقت اللہ
ویسے تو کرپشن کے خلاف آواز لگائی گئی تو جمہوریت کو خطرہ تھا یہاں ملک ٹوٹنے جا رہا تھا لیکن بات ذاتی مفاد پرستی کی تھی تو اس دفعہ حکومت نے اپنی آستین بچانے کیلئے یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے گریز نہ کیا ۔2014 کے دھرنوں کی طرح پیپلز پارٹی ہی دوبارہ کام آئی اور عدالت عالیہ نے کھانے پر مدعو کر کے پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ وہ پاناما کے مسئلے کو ترجیحی بنیادی پر حل کریں گے اور احتساب ضرور ہو گا جس پر دھرنا ختم کر دیا گیا اور پھر حکومت اور عسکری قیادتوں کے مابین ایک نہایت اہم اور حساس اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی شمولیت کرتے ہیں وہاں سے ایک نیا سکینڈل نیوز گیٹ کے نام سے پیدا ہوتا ہے جسکی وجہ سے حکومت کو کڑے امتحان اور دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کو معزول کر دیا جاتا ہے جس پر پرویز رشید سے تحقیقات شروع کر دی جاتیں ہیں اسی دورانیے میں مزاج برہم تو حالات برہم لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے کئی نوجوان شہید ہوتے ہیں اورسرحد کے اس پار بھارتی جوان ہم سے دو گنا زیاد ہ جہنم واصل ہوتے ہیں ۔کراچی میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کاموں میں رکاوٹ پڑنے لگتی ہے تو گورنر سندھ کو تبدیل کر کے ایک ایسا گورنر بٹھایا جاتا ہے جو ابھی بھی زیر علاج ہے کہ جیسے ان کی آخری خواہش ہو یا وصیت میں لکھا ہو کہ مرنے سے پہلے مجھے ایک دفعہ گورنر سندھ ضرور بنایا جائے ان کے گورنر بننے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کیلئے تمام راستے صاف ہو جاتے ہیں اور رینجرز کے کاموں میں مداخلت پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس دورانیے میں ایک طرف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہونے والی ہوتی ہے تو دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت پوری ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے اب پیپلز پارٹی بھی پاکستان بھر میں دوبار ہ متحرک نظر آتی ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں تشریف لاتے ہیں اور تمام پارٹی ورکرز کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں جبکہ کے پی کے میں بھی ن لیگ کے صدر انجینئر امیر مقام حرکت میں دکھائی دیتے ہیں اور فنڈز وغیرہ کے ذریعے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں پیپلز پارٹی قمرالزمان کائرہ کو پنجاب میں صدر منتخب کر دیتی ہے اور اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیتی ہے جسیے یہ سگنل مل رہا ہو کہ 2017 میں الیکشن منعقد ہونے جا رہے ہوں اس تمام سیاسی دنگل میں یوں لگتا ہے جیسے سیاسی دنگل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان نہیں بلکہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ہونے والا ہے کیونکہ مریم نواز اپنا سیاسی مستقبل بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوجاتیں ہیں جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ سے چند دن قبل جب پنجاب میں کومبنگ آپریشن کی مدد سے بہت سے نواز لیگ کے نوازے ہوئے لوگ پکڑے جاتے ہیں جسکی وجہ سے میاں صاحب کا مزاج بہت خراب نظر آتا ہے تو لائن آف کنٹرول پر ایک بار پھر سے جنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جو مسلسل کافی دن تک چلتی رہتی ہے اور درجنوں بے گنا ہ معصوم شہری گولہ باری اور گولیوں کی زد میں آ کر شہید ہو جاتے ہیں کیونکہ پاناما کیس کی سماعت بھی آئے رو ز چلتی رہتی ہے اور میاں صاحب کو عدالت میں حاضر ہو کر احتساب دینے کیلئے عدالتی حکم جاری ہو تا ہے جس کیلئے وہ ایک قطری شہزادے کا خط عدالت کے منہ پر مار کر کیس کو ختم کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سیانا کوا اپنا سر نوچے قطری شہزادے کے اس خط کی وجہ سے اور جو بیانات اولاد نواز شریف عدالت میں ریکارڈ کرواتی ہے اور جو خطاب میاں صاحب قوم سے کر چکے ہوتے ہیں ان میں تضاد ہوتا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیروی ٹھیک طرح سے نہیں ہونا تحریک انصاف کے کردار اور بیانات پر ایک سوالیہ نشان ہے !انہی دنوں میں راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہو جاتی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ لے کر خیرباد کہہ جاتے ہیں وہیں مدت ملازمت انور ظہیر جمالی کی بھی پوری ہو جاتی ہے اب ان دنوں نشستوں پر ایسے لوگ چاہئیں جو میاں صاحب کو کچھ سکون اور سیاست کرنے دیں اس ساڈے بندے کی تلاش میں ایک طرف تو قمر جاوید باجوہ صاحب کو تعینات کیا جاتا ہے تو دوسری طرف جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس آف پاکستان کی پوسٹ پر تعینات کر دیا جاتا ہے جسٹس ثاقب نثار اس پوسٹ تک کس طرح پہنچے اور ان پر نواز لیگ کی کیا عنایات ہیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے جاتے ہی اچانک لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی صورتحال ختم ہو جاتی ہے کیونکہ میاں صاحب کا مزاج قدرے بہتر نظر آتا ہے دونوں خاص نشستوں پر ساڈا بندہ آ جاتا ہے عین اس وقت اچانک پرویز رشید بھی میڈیا پر نظر آنے لگتے ہیں انہیں دنوں میں پنجاب اسمبلی میں گیارہ نئی وزارتیں شامل کی جاتیں ہیں یہ وزارتیں واقعی صوبے میں ترقیاتی کاموں کو مکمل کروانے کیلئے بڑھائی جاتی ہیں یا کسی کونوازنے کیلئے آئندہ مستقبل قریب میں سامنے آ جائے گا لیکن وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ کا بیان کہ اب ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے یعنی پہلے یہ لوگ کسی بلا سے ڈرے ہوئے تھے جسکا کوئی وجود نہیں تھا کہ وہ انہیں کھا جائے گی اگر دیکھا جائے تو اس بلا کو آپ احتساب کا نام دے سکتے ہیں جواب جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے جانے کے بعد انکی چھوٹ جانے والی ہو ۔جو بھی ہوا پورے سال میں یا اس دور حکومت میں سوائے خود کو بچانے اور معاشی دہشتگردی کے کوئی قابل تعریف اقدام نہیں کئے! جتنے بھی پراجیکٹ لگائے سارے کرپشن کی نظر ہوگئے اقتصادی راہداری منصوبہ بھی اب اسی طرح کرپشن کی نظر ہوتے محسوس ہو رہا ہے کیونکہ پہلے سوئس بینکوں کے کیس میں این آ ر او ہوا ور وہ عوام کا پیسہ کبھی واپس نہیں آیا اور اب پاناما کیس کا مستقبل بھی سوئس بینکوں کے کیس جیسا نظر آ رہا ہے جو کہ ان معاشی دہشتگردوں کے حوصلے اب اور زیادہ بلند کرے گا سی پیک منصوبہ میں جہاں صرف پاک چین معاہدہ تھا اب وہاں ایران اور ترک بھی شامل ہو چکا ہے جبکہ آئندہ ہو سکتا ہے کہ روس اور امریکہ یا کئی اور ممالک بھی شامل ہو جائیں ۔روس اور پاک فوج کی مشترکہ جنگی مشقیں اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں روس کامیاب بھی ہو سکتا ہے لیکن پاکستان ایران کی ہٹ دھرمی ، میر جعفر والا کردار اور یہودیوں کی اسلام مخالف پالیسیاں کبھی نہ بھولے جس کی وجہ سے آئندہ پاکستان کو اس گیم چینجر منصوبے میں جہاں معاشی استحکام کا منافع حاصل ہونا تھا وہیں گھاٹا بھی ہو سکتا ہے ۔موجودہ دور حکومت نے معاشی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے پاک فوج نے جہاں دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا وہیں معاشی دہشتگردوں کے خلاف بھی گھیر ا تنگ کیا جاتا تو شاید سی پیک منصوبہ کا نتیجہ مثبت نکلتا جیسے پاناما کیس کے متعلق وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کو محض سیاسی بیانات گردانے جا رہے تھے اسی طرح قوم سے کئے وعدے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی کا خاتمہ ،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات پہنچانے کے وعدے بھی سیاسی بیانات سے الگ نظر نہیں آ رہے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے عوام کو عملی طور پر تو کچھ نہیں دیا لیکن مختلف ہتھکنڈوں سے اپنا ووٹ بنک ضرور کھرا رکھے ہوئے ہیں کچھ دن پہلے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اقلیت کا دل جیتنے کیلئے ان کے تہوار ہولی میں شریک ہونا اور پھر انہی کی طرح پوجا پاٹ کرنا اور پھر سندھ میں قانون نافذ کر دینا کہ اٹھارہ سال سے قبل کسی ہندو یا غیر مسلم کو اسلام قبول نہیں کروایا جاسکتا یہاں ایک محاورہ با لکل درست نظر آتا ہے کہ ’’جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کیونکہ انہیں اقلیت کے علاقے تھر میں بچے قحط سالی سے مرتے رہے اور پیپلز پارٹی کے کانوں سے جونک تک نہیں رینگی سال کے آخر میں آصف علی زرداری دو سال کی خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر ملک لوٹ آتے ہیں اور میڈیا کی توجہ بنانے کیلئے ایک اہم اعلان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلان کیا ہے ؟عوام کو مفاہمت کا اشارہ دیا جاتا ہے !راحیل شریف کے جاتے ہی پرویز مشرف پر سیاسی دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے عدالت کی جانب سے انکی ساری جائیداد ضبط کئے جانے کا اور فی الفور گرفتار کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے اور وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سابقہ آرمی چیف نے ان کا نام ای سی ایل میں نکلوانے کیلئے ان کی مدد کی دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دور حکومت میں بدلے کی سیاست کے متحمل ہوتیں ہیں اور اس کا نشانہ ہر دور میں اداروں کے اہلکار ہوتے ہیں ۔ان دونوں جماعتوں کا اگر دو ر حکومت دیکھا جائے تو جمہوریت کے نام کی کوئی شئے نظر نہیں آتی اور دیگر سیاسی پارٹیاں جو آ گے آنے کی کوشش کرتی ہیں تو سوائے مفاد پرستی عوام کے کوئی کام نہیں آتیں اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے دوسرے ممالک کو اقتصادی راہداری منصوبہ میں شامل ہونے کی دعوتیں دی جارہی ہیں اور ملکی معیشت کو قرضوں پر چلا کر ملک کے چپے چپے کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچا جا رہا ہو شاید یہ اقتصادی راہداری منصوبہ ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو جیسے وہ تجارت کی غرض سے برصغیر میں آئے تھے اور پھر آہستہ آہستہ برصغیر پر حکومت کرنے لگے ویسے ہی یہ تجارتی منصوبہ خطے میں کوئی نیا کالا پیغام لے آئے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/jypzwua
QR Code: