صدارتی طرز حکومت، اٹھارویں ترمیم اور ٹیکنو کریٹس

M. Ubaid ur Rehman
Print Friendly, PDF & Email

تحریر :- محمد عبید الرحمٰن
دو گرما گرم بحثیں آئین کے حوالے سے ہو رہی ہیں ایک صدارتی طرز حکومت پر ، دوسری اٹھارویں ترمیم پر۔
ہم بات شروع صدارتی طرز حکومت سے کریں گے اور ختم اٹھارویں ترمیم پر کریں گے۔ یہ صدارتی طرز حکومت ، ٹیکنوکریٹس اور اٹھارویں ترمیم ایک دلچسپ مثلث ہے۔
مہنگائی اور کسمپرسی کے اس عالم میں کچھ بزرجمہر کو سب سے بڑی دلیل یہی سوجھی کہ عوام کو باور کرایا جائے صدارتی طرز حکومت میں ملک کی معاشی حالت بہتر تھی۔
چونکہ دنیا پیسے کی اور مادیت پرستوں کے ہاں جو پیسے کی چمک پر لپک جھپک ہوتی ہے وہ کسی اور پر نہیں ہوتی تو ان کے ہاں یہ کافی وزنی دلیل شمار ہوتی ہے۔
انہوں نے ہمارے طبقہ آمریت کے چار مشہور بڑے پیر و مرشد کے ادوار اس سلسلے میں بطور مثال پیش کئے۔
پانچواں پیر بڑا خان چونکہ حکومت حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا تو اس کی مثال پیش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اعدادوشمار کا سٹیج سجا کر صدارتی ادوار میں معاشی بہتری کا تماشا دکھایا گیا اس کی تحقیق و تفتیش کا حقائق بیانی کو تو چھوڑیں۔
عقل مند کو اشارہ کافی ہے کرنل قذافی نے اپنے ملک کی ایٹمی طاقت کا سودا کر لیا تھا اور اس کے ملک کی معاشی حالت مثالی بن گئی تھی۔
لیکن بعد میں جو اس کا اور اس کے ملک کا حال ہوا وہ عبرتناک ہے۔صدارتی ادوار میں معاشی بہتری کا فارمولہ کرنل قذافی کے فارمولے سے ملتا جلتا ہے آخر وہ بھی طبقہ آمریت کے پیر و مرشد تھے اور یہ بھی۔
اعدادوشمار کو ایک طرف رکھ کر سیدھی سادی بات کو دیکھیں تو ملک کی معاشی حالت تبھی خوش ہوتی ہے جب عوام خوشحال ہوتی ہے۔
عوام کو جو خوشحالی دے اور جس کو عوام اپنا ہمدرد سمجھے عوام اس کو دوبارا اقتدار میں ضرور لاتی ہے۔
جبکہ طبقہ آمریت کے پیر و مرشد اور آمریتی جماعتیں بندوق کے زور پر تو اقتدار میں آئی لیکن بندوق کا ساتھ جب چھوٹا پھر دوبارا نہیں آ سکی۔
اس کے برعکس عوامی جماعتیں تین تین بار بنا بندوق کے حکومت میں آ چکی ہیں۔
یہ واقعاتی شہادت تو یہی ثابت کرتی ہے کہ عوام اپنی خوشحالی اور اپنا ہمدرد عوامی جماعتوں کو سمجھتی ہے۔
اعداد وشمار کا یہ دعویٰ کہ آمریتی صدارتی ادوار میں عوام خوشحال تھی ملک کی عوام خود انہیں دوبارا نہ چن کر کالعدم قرار دے دیتی ہے۔
اب آپ یہ مشہور زمانہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ عوام کی اکثریت چونکہ جاہل ہے اس لئے یہ عوامی جماعتیں جو درحقیقت عوام دشمن ہیں اقتدار میں آ جاتی ہیں۔
حکومت کی بنیادی بات یہی ہوتی ہے کہ عوام کا ہمدرد شخص حکومت میں آئے اور عوام کی خیر خواہی کرے۔
اب ہمدردی کو ناپنے کے لئے پیمانہ علم و فضل یا عقل و دانش نہیں ہے اس کا تعلق حسیات سے ہے۔
ایک شیر خوار بچہ بھی اپنی حسیات سے اپنی ماں اور گھر کے ہمدرد افراد کو پہچانتا ہے۔
اور جو اس کا ہمدرد نہ ہو اس کی گود میں بے چین ہوتا ہے۔
کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک بچہ تو اپنی حسیات سے اپنا ہمدرد پہچان لے اور 18 سال کے بالغ فرد کو آپ کہیں وہ نہیں پہچان سکتا۔
ہمارے طبقہ آمریت والے بھائی اپنی تربیت یا مبلغ شعور یا اپنے قدیمی روایتی تسلسل کے نتیجے میں یہ بات سمجھتے ہیں۔
کہ بندوق دکھا کر قبضہ کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔
پہلے زمانے میں واقعی ایسا چلتا بھی تھا پر اب زمانہ بدل چکا ہے۔
اب دعویٰ تو ان کا یہی ہوتا ہے کہ ہماری جڑیں عوام میں ہیں ہم عوام کے ہمدرد ہیں ہم سے اچھا کون ہے؟
مگر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب جب ہمدردی کے میدان میں وہ سامنے آتے ہیں تو بری طرح پٹ جاتے ہیں۔
اور جب جب بندوق اور ڈنڈے کا میدان میں ساتھ ہوتا ہے تو وہ جیت جاتے ہیں۔
معاشی اور ہمدردی کے بعد آئینی طور صدارتی طرز حکومت کی بات اگر کی جائے تو دو سیاست دانوں کا اظہار خیال اس پر دیکھیں۔
ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے تو دوسرا اس کا لاڈلا ، ایک ہمیشہ آئین کے تناظر میں بات کرنے کا مدعی ہے۔
اور دوسرا ہمارے آمریتی طبقے کا پسندیدہ ترجمان ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جہاں صدر مملکت کے منصب کی یہ تاریخ بیان کرتے ہیں۔
کہ ملک میں صدر مملکت کا کوئی منصب ہی نہیں تھا یہاں گورنر جنرل کا منصب تھا جب سکندر مرزا نے گورنر جنرل غلام محمد کا تختہ الٹا۔
تو اس آمر نے اپنی آمریت کے لئے گورنر جنرل کا منصب ختم کر کے صدر مملکت کا منصب تخلیق کیا پھر یہی منصب دوسرے آمر ایوب خان کو گیا۔
پھر تیسرے یحییٰ خان کو گیا اور پھر ضیاءالحق نے بھی یہی منصب لیا اور پرویز مشرف نے بھی یہی منصب لیا۔ اور کہتے ہیں ہمارے ملک میں تاریخ میں صدارتی منصب ہمیشہ آمریت کا پسندیدہ رہا ہے۔
ساتھ ساتھ وہ عوامی جماعتوں کی جہدوجہد کو بیان کرتے ہیں کہ پارلیمانی طرز حکومت پر اس ملک کی عوامی جماعتوں کا اتفاق ہے۔
اور عوامی جماعتوں کی ہی مشترکہ کاوش 1973 کے آئین کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ آئین جس پر پورے ملک کی عوام نے اور ان کی جماعتوں نے اتفاق کیا اس کی بنیاد ہی 4 چیزوں پر ہے۔
ایک اسلام ، دوسرا جموریت ، تیسرا وفاق اور چوتھا پارلیمانی طرز حکومت ، اب ان میں سے کسی ایک کو بھی ہٹایا جائے تو پورا آئین گر جاتا ہے۔
پھر دوبارا نئے سرے سے ایک آئین بنانا پڑے گا اور اس وقت ہم جو ہمارے ملکی حالات ہیں کیا ہم اس کا متحمل ہو سکتے ہیں؟
وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک متفقہ چیز کو ہٹا کر دوسری چیز کو لانا قوم کو تقسیم کر دے گا۔
اور ہمیں کیا ضرورت ہے کہ متفقہ اصول کو ایک طرف رکھ کر روز نئے نئے کٹے ہم کھول رہے ہیں یہ کیا مذاق ہے؟
دوسرے شیخ رشید صاحب نے صدارتی طرز حکومت پر کچھ اس طرح سے اظہار خیال کیا۔
کہ صدارتی طرز حکومت کو رہنے دیں پارلیمانی نظام ہی ٹھیک ہے پہلے بھی بہت مشکل سے قوم کا ایک آئین پر اتفاق ہوا تھا اب دوبارا سے بہت مشکل ہو گا۔
اب یہ بات دیکھنے کے بعد کہ صدارتی طرز حکومت سے پورا آئین ہی ختم ہوتا ہے سوال یہی اٹھتا ہے۔
کہ یہ آخر کون لوگ ہیں جنہیں آئین کی پرواہ ہی نہیں جو جب چاہتے ہیں بندوق کے زور پر آئین کی بساط لپیٹ دیتے ہیں۔
شاید وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ آئین کیا ہے آٹھ دس صفحات جنہیں میں جب مرضی پھاڑ دو۔
ان کا ایک مشہور مقولہ دس سال تمہارے اور دس سال ہمارے بھی ہے۔
اب وہ اس لئے بے چین ہو رہے ہیں کہ تمہارے دس سال تو ہو چکے ہیں لہذا اب ہمارے دس سال ہونے چاہیے۔
لیکن یہاں مسئلہ اٹھارویں ترمیم نے کھڑا کر دیا ہے جب تک وہ موجود ہے وہ اپنے دس سال لے نہیں سکتے۔
اٹھارویں ترمیم میں جہاں اور بہت سے کام ہوئے وہاں ایک سب سے اہم یہ کام ہوا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں نے مل کر یہ شق بھی پاس کر دی۔
یہاں یہ دونوں پارٹیوں کو داد بھی دینا بنتی ہے کہ انہوں نے عوام کو اپنے ہی بھائیوں سے دشمنی پر نہیں ابھارا بلکہ قانونی طور پر راستہ بند کیا۔
کہ اب چیف جسٹس بھی چاہے تو وہ بھی کسی مارشل لاءکو قانونی قرار نہیں دے سکتا۔
اسی شق کی وجہ سے 3 نومبر کی ایمرجنسی قاضی کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکی ہوئی ہے۔
نہ وہ اسے جائز قرار دے سکتا ہے نہ ہی طبقہ آمریت کے اس وقت کے پیر و مرشد کو سزائے موت دے سکتا ہے۔
اب کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم نہ سہی کوئی اور قانون لا کر کسی طرح پیر و مرشد کو بچا لیا جائے۔
جب تک اٹھارویں ترمیم ہے پچھلے 3 نومبر کے کارنامے سے خلاصی ممکن نہیں ہے اور جب تک خلاصی نہیں ہوتی نیا مارشل لاءممکن نہیں۔
اگر اٹھارویں ترمیم نہ ہوتی تو پرانا سکرپٹ ہی قابل عمل ہوتا احتجاج ، شورش ، افراتفری اور بے چینی نمایاں کرو بندوق اٹھاو¿۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق اقتدار پر قبضہ کر لو۔
پی سی او کا حلف اٹھوا کر اپنے اس اقدام کو قانونی حیثیت دلوا لو اور اللّٰہ اللّٰہ خیر صلا۔
مخالفین پر میڈیا تنگ کر دو اور اپنے بھائی بندوں کو لگا دو وہ میڈیا پر قصیدے پڑھیں اور عوام کو باور کراتے رہے۔
کہ ان کا آنا نہایت مبارک ہے یہ بامر مجبوری اقدام تھا ورنہ حضرت تو ایسے درویش ہیں کہ وہ اور حکومت کی خواہش اللّٰہ اللّٰہ۔۔۔
اٹھارویں ترمیم نے اس ڈرامے کا راستہ روکا تو اس کے بعد اب تک اپنے دس سال لینے کے لئے جو کوشش ہوئی اور ہو رہی ہے وہ تین طرح کی ہیں۔
ایک منتخب حکومت کا چہرہ سامنے رکھ کر اپنے نامزد لوگ یعنی ٹیکنوکریٹس کام کریں پیسہ باہر سے آئے اور کنٹرول ہمارا ہو ( یہ اس وقت ہو رہا ہے)
منتخب لوگوں کو پارلیمنٹ بیٹھنے دیا جائے یا غیر اہم وزارتیں دی جائیں ، اہم اور خصوصی ٹیکنوکریٹس کے پاس ہو۔
یا پھر منتخب حکومت ہٹا کر اپنے نامزد لوگ ٹیکنوکریٹس کی صورت لائے جائے اور اس طرح سے دس سال اپنا حصہ وصول کیا جائے۔
اس قسم کی کوشش ن لیگ کی حکومت آنے سے پہلے زرداری کے آخری مہینوں میں قادری صاحب کے ذریعے کی گئی تھی۔
دوسری یہ کہ صدارتی طرز حکومت لایا جائے تو تمام حکومت و انتظامیہ ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہو گی۔
وہ ایک شخص ہم خود ہوں یا اپنا کوئی بندہ ہو ایک شخص کو ساتھ لگانا مشکل نہیں ہے۔
آخر بابا رحمتے کو بھی تو ساتھ لگایا ہی تھا اور یہ پارلیمانی طرز حکومت کی مختلف جماعتیں پھر ان میں سے ایک ایک سے ڈیلنگ اس کھپ سے جان چھوٹ جائے۔
تیسری یہ کہ کسی طرح اٹھارویں ترمیم ہی میں نقص نکال کر اسے ختم کر دیا جائے اور ہمارا پرانا سکرپٹ بحال ہو جائے پھر ہمیں نہ صدارتی طرز حکومت کی ضرورت نہ ٹیکنوکریٹس کی۔
یہ سب ہم خود کر لیں گے اور تجربہ یہی ہے کہ جب ایک ہاتھ میں بندوق ہو دوسرے میں ڈنڈا تو پھر ٹیکنوکریٹس کی صورت میں وزراءکیا لانا۔
ٹیکنوکریٹس جیسا باہر سے اپنی و امریکہ کی مرضی کے شوکت عزیز یا معین قریشی کوئی بھی لا کر وزیراعظم بھی بنوا دیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
یہاں پاکستان کی عوام مبارک باد کی مستحق بنتی ہے کہ وہ حق جو آپ کا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کسی کو بھی حکومت میں لائیں۔
وہ اتنا تو محفوظ ہو چکا ہے کہ اب بندوق بردار آ کر زبردستی آپ پر حکومت نہیں کر سکتا۔
کسی طور کرنے کی کوشش تو ہو رہی ہے لیکن بہرحال ان کی بیل سر نہیں چڑھ رہی۔
برطانیہ اس سے نکل کر حقیقی جمہوری ملک بن کر ترقی کر چکا ہے اور عالمی طاقت بن چکا ہے۔
ترکی 90 سال بعد اس چکر سے نکل کر جمہوری ملک بنا اور عالمی طاقت بھی بن رہا ہے۔
برطانیہ اور ترکی کے لوگ بھی اب خوشحال ہیں آپ بھی ان شاءاللہ جمہوری ملک بنے گے عالمی طاقت بن کر اپنے فیصلے خود کریں گے یہاں کی عوام خوشحال ہو گی۔
بس ڈٹے رہے یہ کوئی ہفتوں یا مہینوں کا کھیل نہیں ہے یہ سالوں کی بات ہے ان شاءاللہ آخری جیت پاکستانی عوام کی ہو گی۔

Short URL: http://tinyurl.com/y55hsqq6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *