قوم کی بیٹیاں درندوں کے نشانے پر

Asif Iqbal Insari
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: آصف اقبال انصاری، کراچی

کہتے ہیں کہ ظلم و زیادتی کے خلاف اگر بروقت کاروائی عمل میں نہ لائی جائے تو ظلم اپنی جڑیں مضبوط کرتا جاتا ہے، اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ پھر ایک دو نہیں ، بلکہ ایک کے بعد ایک کو ظالم اپنا نوالہ بناتا رہتا ہے۔ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک کا ہے، یہی کچھ داستان ہمارے سرزمین کی ہے، کہ جب کوئی بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اعلی حکام سے لےکر ادنی تک، اوپر سے لے کر نیچے تک، ہر کوئی مذمت کے دو الفاظ کہہ کر سکھ کا سانس لے لیتا ہے۔ پھر اس کے نتیجہ میں ہوتا کیا ہے؟ ظالم اپنا پنجہ مضبوطی سے گاڑ دیتا ہے اور پھر وہ یکے بعد دیگرے نشانہ بناتا رہتا ہے۔        ابھی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے زخم بھرے نہیں تھے، ابھی اس کے کیے کا حساب نہیں لیا گیا تھا ، ابھی اس کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا تھا کہ اسلام آباد کی زمین پر چند روز قبل درندوں کی درندگی کا شکار ہونے والی” فرشتہ “نامی نو عمر قوم کی بیٹی، جس کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد، موت کی آغوش میں بھیج دیا گیا۔      آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کوئی ایک اور پہلا واقعہ ہے۔۔؟ ہر گز نہیں! اگر یہ پہلا واقعہ نہیں تو اس واقعے تک لانے اور آنے میں جرات کس نے پیدا کی۔۔؟ اگر اس سے پہلے بھی قوم کی بیٹیاں اس طرح کی درندگی کا نشانہ بن چکی ہیں تو اُن درندوں کے ساتھ کیا گیا۔۔۔۔؟؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر زینب اور ان جیسی اور بیٹیوں کے ظلم کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جاتا اور ظالموں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا تو شاید یہ واقعہ دوہرایا نہ جاتا ۔ لادینی اور بد مذہب طبقے کو تو اب یہ سمجھ میں آجانی چاہیے کہ اسلام کا نظامِ حدود و قصاص کس درجہ مصلحت پر مبنی ہے۔ کہتے ہیں کہ:” قصاص میں حیات ہے”۔ بظاہر ایک غیر معقولی بات نظر آتی ہے کہ کسی کی جان لینا حیات کیسے۔۔۔۔۔۔۔؟ مگر حقیقت اس سے بعید نہیں۔ ذرا دیکھیں! اگر قاتل کو بر موقع شرعی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے اور اسلام کے نظام عدل کے نفاذ کی خاطر قصاصا قتل کر دیا جائے تو کوئی دوسرا کبھی کسی کی زندگی پر وار کرسکتا ہے؟ کیا کوئی کبھی کسی کے قتل کے درپے ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں!  بالکل اسی طرح ان درندوں کو جو ماؤں ،بہنوں کی عصمتوں کو پیر تلے کچلتے ہیں۔ اگر ریاست ان میں سے پہلے پر حدود قائم کرتے ہوئے سنگسار یا کوڑے کا مزہ چکھاتی، تو شاید آج قوم کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے والے ، یہ انسان نما درندے اس معاشرے میں سر نہ اٹھا سکتے۔ مگر افسوس تخت و کرسی کی اس ہوس نے صاحب اقتدار افراد  کو اس طرح یرغمال بنا رکھا ہے کہ اپنی ذات  کے خلاف کہے گئے دو الفاظ پر گھنٹوں کی دفاعی پریس کانفرنس کردی جاتی ہے اور یہ دو الفاظ ناقابل برداشت ہوتے ہیں، مگر بیٹیوں کی عزتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے قابل برداشت ہوتے ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں آخر کب تک یہ ڈھونگ رچایا جاتا رہے گا، قوم آخر کب تک اپنی بیٹیوں کی اس طرح لاشیں اٹھاتی رہے گی۔ آخر کب تک ماؤں ،بہنوں کی عزتوں کو بار بار  تار تار کیا جاتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔         اگر حالات یوں ہی رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ بھارت کی طرح ایک منٹ میں اوسطاً کئی لڑکیاں اپنی عزت کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔لہذا ایسے موقع پر ایک ذمہ داری تو ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ ایسے واقعات کو محض “مذمت” کے دو بول کے نظر نہ کیا جائے، بلکہ  مکمل تفتیش کے بعد مجرموں پر، اسلام کے حکم کے مطابق حد جاری کرے تاکہ آئندہ کوئی بیٹی درندگی کا نشانہ نہ بنے۔اور آئندہ کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائے کہ اس طرح کے دیرینہ مسائل پر قابو پایا جا سکے۔           ریاست کے ساتھ ایک دوسری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے نو عمری سے ہی پچیوں کے لباس، پوشاک پر خصوصی توجہ دیں، ہرگز انہیں ایسا لباس زیب تن نہ کروائیں جس سے اس کی عصمت غیر محفوظ ہو جائے اور ساتھ ہی بچیوں کو تنہا ہر گز  باہر نہ چھوڑیں اور ہر لمحہ مکمل اپنی نگرانی میں رکھیں اور حفاظت کی ماثورہ دعاؤں کا خوب اہتمام کریں ۔اللہ رب العزت بہترین محافظ ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y26hxcr9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *