قصور وار کون؟۔۔۔۔ تحریر: سمیعہ رشید

Samia Rasheed
Print Friendly, PDF & Email

حال ہی میں ایک یوتھ کانفرنس میں ایک مہمان خصوصی نے اپنے خطاب میں دل دہلا دینے والا واقعہ سنایا، انہوں نے بتایا کہ وہ نوکری کے لئے انٹرویو کر رہے تھے، ایک لڑکا انٹرویو دینے کے لئے آیا،ہم جو پوچھتے وہ صحیح جواب دیتا چلا گیا۔ ہم نے اس لڑکے سے چالیس سے زیادہ سوال کئے اس نے ایک بھی غلط جواب نہیں دیا،اس کی ذہانت دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے تھے۔ وہ لڑکا جاتے ہوئے ہمییں یہ کہہ گیا کہ مجھے معلوم ہے آپ منسٹر کی دی ہوئی لسٹ والوں کو نوکری دیں گے ،مجھے نوکری نہیں ملے گی۔ ہم وزیر صاحب کے پاس اپنی بنائی ہوئی لسٹ لے کر گئے جس میں اس لڑکے کا نام بھی شامل تھا۔ منسٹر نے لسٹ دیکھ کر پھاڑ دی اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ دو سال بعد ایک اخبار میں پولیس مقابلے میں مرنے والے ڈاکوں کی تصویر آئیں جس میں اس ذہین لڑکے کی تصویر بھی تھی۔ اس واقعے کو سنانے کے بعد ہال میں موجود ہر آنکھ اشک بار تھی اور میں سوچنے لگی کہ اس میں قصور وار کون تھا؟وہ لڑکا یا میرٹ کا قتل عام کرنے والے ؟
یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے سفارش اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ کسی بھی جائز کام کو کروانے کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے میں عار نہیں محسوس کی جاتی،اسلام کے نام پہ بنے اس ملک میں سود کو حلال قرار دینے کے لئے علماء4 سے رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ اس ملک کو مزید اندھیروں کی طرف گامزن کیا جائے اور کرپشن کر کر کے لوگوں کا جینا مزید حرام کیا جائے یہاں غریب جتنا مرضی پڑھ لکھ جائے ،ذہین ہو ،قابل ہو،گولڈ میڈلیسٹ ہو اگر ہاتھ میں رزوت دینے کے لئے لاکھوں روپے نہ ہو تو وہ ایک اچھی نوکری حاصل کرنے کا مجاز ہی نہیں ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ یہاں قابل اور ایماندار لوگوں کو کبھی گے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا،ہمیشہ ان کو آگے بڑھنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں بڑے بڑے بیوروکریٹس جو صرف اپنے عہدے کے بل بوتے پر حق دار کا حق مارتے ہیں، میرٹ پر فیصلہ کرنے کے بجائے نااہل اور کام چور رشتہ داروں اور عزیزوں کو بھرتی کرتے ہیں،اپنی فیملیز کو باہر کے ممالک میں سیٹل کر کے ،جائیدادیں بنا کر بھی سکون نہیں ملتا تو غریبوں کا حق مارنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ جب نوجوان نسل ایم۔اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کر کے نوکری کے لئے دھکے کھائیں گے اور ٹیسٹ انٹرویو دئے دئے کر تھک جائیں گے تو پیٹ پالنے کے لئے چور اور ڈاکو ہی بنیں گے ناں ،جب انسان کے لئے راستے بند کر دئیے جائیں تو گھر کا چولہ جلانے کے لئے اس کو انتہائی قدم اٹھانا ہی پڑھتا ہے ،کسی کی ماں بیمار ہے تو کسی کے بچے کو دودھ کی طلب ہے اور کسی کے والد کا آپریشن ہے۔ ہم کسی کے مسئلے کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک وہ ہم پر نہ بیت رہی ہو یا بیت چکی ہو.
آج ٹیسٹ ،انٹرویو کے نام پر
NTS
اور
PTS
جیسے اداروں کو بنا کر ہزاروں روپے گی امیدوار وصول کیے جارہے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے بھی نوجوانوں کو میرٹ پر نوکری نہیں دی جارہی بلکہ اس سب کا مقصد صرف ایک مرحلہ گزارنا اور ہزاروں اور لاکھوں روپے کمانا ہے۔
NTS
اور
PTS
کے ساتھ حکومتی اداروں کے معاہدے ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف غریبوں کو لوٹنااور جمع کئے گئے لاکھوں روپے میں سے اپنا اپنا حصہ لینا اور پھر اسی طرح لوگوں کا خون نچوڑنے کے کاموں میں لگ جانا ہے۔ ایک غریب جس کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہوتا وہ
NTS
اور
PTS
کے اکاوئنٹس میں ہزاروں روپے کہاں سے جمع کروائے گا ؟اور اگر جیسے تیسے ادھار لے کر جمع کروا بھی دیتا ہے تو کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟
؟ ٹیسٹ ہوتا ہے تو انٹرویو کے لئے کال نہیں آتی اور اگر غلطی سے کال آبھی جائے تو انٹرویو تو ہوجاتا ہے مگر پھر ہوتا ہوئی ہے جو منسٹرز کی مرضی ہوتی ہے لسٹوں کو پھاڑ کر یوں کوڑادانوں میں پھنکا جاتا ہے جیسے کوئی بڑی بات ہی نہ ہو جیسے ایسے آج کل حق داروں کے حقوق مارے جا رہے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل جس طرح ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہے اسی قدر ذہنی انتشار کا بھی شکار ہو رہی ہے۔ جب وہ اپنے بنائے خوابوں کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے اور ساتھ گھر کے حالات کو دیکھتے ہیں کہجو امیدیں والدین نے ان سے لگائی تھیں اور کس طرح مشکل سے ان کے تعلیمی اخراجات اٹھا کر آج ان کو اس قابل کیا ہوتا ہے کہ زندگی کے اس مقام پر جہاں وہ بوڑھے کندھوں کو ایک سہارا چاہیے ہوتا ہے اس وقت کو ان کے لئے کچھ نہیں کرپاتے تو ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں یہ بخوبی جانتے بھی ہیں کہ یہ غلط کام ہیں.کیونکہ اپنوں کی بھوک پیاس اور تکلیف کسی سے دیکھنا اور پھر برداشت کرنا آسان بات نہیں ہے۔ انسان آخر کب تلک صبر کرئے؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب (خلیفہ) بنا کر بھیجا ہے تاکہ س کی عبادت کریں اور اس کی بنائی ہوئی مخلوق کی مدد کریں مگر یہاں جس کے پاس کوئی عہدہ آجاتا ہے وہ بس اپنے فائدے حاصل کرنے کے لئے ہر ناجائز طریقہ اختیار کرتا ہے کرپشن اور شوت کی لین دین ایسے کی جاتی ہے جیسے یہ لازمی اور ثواب کا کام ہے کسی کی مجبوریاں اور قابلیت کو دیکھتے وقت شاید ان کی نظر چلی جاتی ہے کیونکہ ان کو تو بس ایک ہی کام آتا ہے اور وہ پیسے کمانا ہے چاہے اس کے لئے غریب اور قابل ،باصلاحیت نوجوانوں کا حق ہی کیوں.نہ مارا جائے. ایسے بے شمار واقعات اخبارات اور ٹیلی ویڑن پر دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ بہت سی تخریبی کارروائیوں میں پڑھے لکھے ،ہونہار طلبہ شامل ہوتے ہیں۔ اور تحقیقات سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ ان کو گھریلو حالات اور مجبوریوں نے یہ سب کام کرنے پر مجبور کیا۔ ہم شاید اس قدر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں کہ بہرحال ہر برے کام کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے۔
والدین نے کیا یا نہیں سوچا ہوتا اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں مگر ایک دن اگر ان کو اپنے جوان بیٹے کی موت کی خبر ملے یا ان کو یہ معلوم ہو کہ ان کا بیٹا غلط اور ناجائز کام کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو وہ جیتے جی مر جاتے ہیں .اس میں شاید نوجوانوں کا قصور کچھ حد تک ہو گا اور بلاشبہ ہے بھی کیونکہ مایوسی کفر ہے اور ہمت ہارنا ہمارا مذہب نہیں سکھاتا ،مگر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سب کو ان کے حقوق ملنے چاہیے کیونکہ ہ مدینہ منورہ کے بعد پہلی اسلامی ریاست ہے جس کی بشارت ہمارے پیارے نبی کریم صلی الل? علیہ وسلم نے دی تھی یہاں کی حکومت اور ادارے کیا تنے خود غرض اور ے حس ہو چکے ہیں کہ بغیر میرٹ کے اندھا دھند سفارشی لوگوں کا تقرر کر رہے ہیں جب کو ام کرنا ہی نہیں آتا اور.نہ ان کی تعلیم اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے حصے کے دفتری امور کو اچھے طریقے سے سر انجام دے سکیں۔
مگر ان سفارشی لوگوں کو عہدوں سے نوازا جاتا ہے جبکہ غریب اور قابل نوجوانوں کو جیل اور قبرستان کا راستی دیکھایا جاتا ہے. آج ہر نوجوان نوجوان یہ سوال کر رہا ہے کہ آخر ان کا قصور کیا ہے؟؟؟ وزیر اعظم کے یوتھ پیکجز اور پروگرامز کا فائدہ کیونکر نہیں مل رہا اور ہمارے ساتھ کھلے عام زیادتی کر کے میرٹ کو پیروں تلے کچلا جا رہا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/gmgbcpn
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *