پنجاب کا بجٹ، حکومتی ترجیحات اور عوامی امیدیں

Abu Faisal Muhammad Manzoor Anwar
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:فیصل منظور انور
بجٹ کسی بھی حکومت کی اہم ترین دستاویز ہوتی ہے جو اسکی معاشی پالیسیوں سمیت ترقیاتی سمت اور دیگر ترجیحات کا تعین کرتی ہے کوئی بھی حکومت بجٹ پیش کرنے سے قبل اس بات کو سامنے رکھتی ہے کہ انکی طرف سے عوام کو کئے گئے وعدے کس طرح پورے کیے جائیں گے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کیسے دیا جائیگالیکن پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ خاصا رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ صرف خراب معیشت کا ورثے میں ملنے کا رونا رویا ہے بلکہ عوام پر مزید ٹیکسز لگانے کو بھی سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈالا ہے آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان بننے سے لیکر اب تک اور خصوصاً پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے گذشتہ ادوار میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور حالیہ تحریک انصاف کے دور میں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہو رہا۔یاد رہے کہ گذشتہ حکومتوں کی خراب پالیسیوں اور زبوں حال معیشت کی حالت سدھارنے کیلئے عوام نے بالآخر ایک نئی سیاسی جماعت کو ایوان اقتدار تک پہنچایا تاکہ پاکستان کی مسلسل خراب معیشت اورعوام کے دن بدن کم ہوتے معیار زندگی میں بہتری لانے کیلئے کچھ ضروری اور بہتر فیصلے کیے جاسکیں اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابا ت سے قبل کچھ ایسے نعرے لگائے جو نہ صرف عوام میں مقبول ہوئے بلکہ یہ انہی نعروںکا ثمر ہے کہ آج تحریک انصاف ایوان اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔
انہی نعروں اور وعدوں کے سائے میں حکومت پنجاب کی جانب سے آئندہ مالی سال2019-20کیلئے 2360ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 350 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔دستاویز کے مطابق پنجاب کو این ایف سی میں 1494 ارب روپے ملنے کی توقع ہے جبکہ صوبائی آمدنی کا حجم 368 ارب روپے ہوگا۔بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا 35 فیصد جنوبی پنجاب کے لیے نہ صرف مختص کیا گیا ہے بلکہ یقینی بنایا جائے گا کہ یہ بجٹ وہیں خرچ ہو۔ بجٹ میں مقامی حکومتوں کےلئے437ارب 10کروڑمختص کیے گئے ہیں جبکہ مالی سال 2018-19میں بھی یہ رقم اتنی ہی مختص کی گئی تھی جو نظر ثانی شدہ بجٹ میں381ارب روپے کر دی گئی اس طرح58ارب روپے خرچ نہ کیے جاسکے اسی طرح ترقیاتی بجٹ کو بھی نظر ثانی شدہ تخمینہ جات میں 11ارب روپے کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ آئندہ مالی سال میں مختص350ارب روپے میں شامل انفرا اسٹرکچر کیلئے مختص 34 ارب جبکہ پیداواری سیکٹر کے لیے مختص24 ارب روپے کس طرح خرچ کیے جائیں گے یہ توآنیوالا وقت بتائے گا۔
اگرحالیہ برسوں میں صحت اور تعلیم کے شعبہ جات کیلئے مختص اور خرچ کی جانیوالی رقوم کا جائزہ لیا جائے تو سابقہ سات سالوں کے دوران ان شعبہ جات کیلئے مختص بجٹ میں کمی بیشی دیکھی گئی ہے کل ترقیاتی بجٹ میں کسی بھی شعبہ کا فیصد حصہ اس کے ترقیاتی بجٹ کیلئے مختص رقم کو جانچنے ایک معیار ہو سکتا ہے۔سال2012-13سے مختص بجٹ اور نظر ثانی تخمینہ جات کے تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کے شعبہ کیلئے ترقیاتی بجٹ 5سے16فیصد تک رہا جو نظر ثانی شدہ تخمینہ جات میں8سے22فیصد کے درمیان رہا۔ سال2019-20میں پنجاب حکومت نے37,281.4ملین روپے اس شعبہ کیلئے مختص کیے ہیں جو کہ سال 2018-19 کے 33,872 ملین روپے کے مقابلے میں قدر ے میں زیادہ ہیںلیکن اگر کل ترقیاتی بجٹ میں اس شعبہ کا حصہ دیکھا جائے تو وہ سابقہ سال کے 14.87فیصد کے مقابلے میں محض 10.65 فیصد ہے۔ وزیرخزانہ پنجاب نے دوران تقریر اعلان کیا کہ لیہ، ملتان، میانوالی، لاہور، رحیم یار خان، بہاولپور، راولپنڈی اور ڈیرہ غازی خان میں 9جدیداسپتال بنائے جائیں گے لیکن اگر ان شہروں میں لاہور،راولپنڈی کی بجائے جھنگ اوربہاولنگر جیسے اضلاع شامل کر لیے جاتے تو ان پسماندہ اضلاع کے باسیوںپر احسان ہو تا۔صحت کارڈ کیلئے 2ارب روپے مختص کرنا بھی پنجاب کے غریب لوگوں کیلئے کسی آکسیجن سے کم نہیں ہے۔
آئندہ مالی سال میں ہائر ایجوکیشن کیلئے7300ملین روپے اور سکول ایجوکیشن کیلئے 39,300 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ کل ترقیاتی بجٹ کا بالترتیب2.09اور11.23فیصد بنتاہے سال2012-13 سے اب تک تعلیم کیلئے کل ترقیاتی بجٹ کا11.23سے12.61فیصد حصہ مختص کیا گیا تاہم انہی سالوں کے نظر ثانی شدہ بجٹ میں یہ حصہ5.35 سے 15.86 فیصد کے درمیان رہا ہے۔ تاہم آئندہ مالی سال میں 39 بلین روپے کے فنڈز سے جھنگ،ملتان اور بہاولپور سمیت پانچ اضلاع میں یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائیگا جو کہ خوش آئندہ بات ہے۔صحت اور تعلیم کیلئے مختص اور نظر ثانی شدہ بجٹ کی رقوم میں اتار چڑھاﺅ متعلقہ محکموں کی ناقص منصوبہ بندی یا حکومت کی ترجیحات میں تبدیلیوں کو سامنے لاتے ہیں اس سلسلہ میں حکومت کو سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے ۔مو
سمیاتی تبدیلی اور پاکستان میں اس کی موجودہ سنگین صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس شعبہ کو اولین ترجیحات میں رکھا جائے بجٹ دستاویزکے مطابق تحفظ ماحول کیلئے سال2017-18کے540ملین اور سال 2018-19 کے1200ملین روپے کے مقابلے میں سال2019-20میں تحفظ ماحول کیلئے1000ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ2017 کی منظور ی کے بعدیہ امید تھی کہ صوبائی حکومتیں آب و ہوا کی تبدیلی اور تحفظ ماحول جیسے مسائل پرتوجہ دیں گی۔ لیکن اگر سال 2012-13سے اب تک بجٹ کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے کل ترقیاتی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کا حصہ1فیصد سے کم رہا اورجس کا بیشتر حصہ خرچ ہی نہیں کیا گیا۔مثال کے طور پر سال2018-19میں مختص 1200ملین روپے کو نظر ثانی شدہ بجٹ میں3.36ملین روپے کر دیا گیا اسی طرح بجٹ 2017-18میں مختص 540ملین روپے کو نظر ثانی شدہ بجٹ میں127.8ملین روپے کر دیا گیا۔یہ اعدادوشمار واضح طور پر بتاتے ہیں کہ موجودہ حکومت گیارہ ماہ گذرنے کے باوجود تحفظ ماحول کو بنیادی اہمیت دینے میں ناکام رہی ہے ۔ تاہم اس شعبہ کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے مختص رقم کیساتھ کیا ہوتا ہے یہ آئندہ چند ماہ میں واضح ہو جائیگا۔
صوبہ میں امن عامہ کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور محکمہ پولیس کی جانب سے مقدمات کے دوران تفتیش اور دیگر کاروائیوں کیلئے جس طرح شہریوںکو تنگ کیا جاتا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس سنگین صورتحال میں پنجاب پولیس کو مطلوبہ بجٹ کا فراہم نہ کیا جانا دراصل شہریوں کیساتھ ظلم ہے اور اس پر حکومت کی جانب سے حالیہ مالی سال2018-19کے 1,877.014ملین روپے کے مقابلے میںآئندہ مالی سال کیلئے1,069.517ملین روپے مختص کرنا سمجھ سے بالا ترہے۔ اسی طرح مقامی عدالتوں کے لئے2019-20میں ترقیاتی بجٹ 5ملین روپے تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ سال 2018-19 میں اس مد میں 25ملین روپے مختص کیے گئے تھے جو نظر ثانی شدہ بجٹ میں8.65ملین تک محدود کر دیے گئے اورحیران کن طور پر ترقیاتی بجٹ کی تفصیل میںیہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس سال انتظامِ جیل خانہ جات کیلئے ترقیاتی بجٹ میں کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔شعبہ زراعت کو پاکستان کی معیشت میںریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے تاہم کئی سالوں سے اس شعبہ پر اسکی اہمیت اور ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی گئی گنے کی فصل ہو یا گندم کی دھان ہو یا کپاس الغرض کبھی بھی چھوٹے کاشتکاروں کیلئے دوررس اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے گئے آئندہ مالی سال میںاس شعبہ کیلئے113.6ملین روپے مختص کے گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ کسانوںکو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے اقدامات کب ہوتے ہیں۔
صوبائی حکومت نے سال2019-20کیلئے388,358 ملین روپے ریونیو وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ کل صوبائی وصولیوں کا20فیصد بنتا ہے مالیاتی ذرائع کا زیادہ طر ح حصہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فنڈز سے منسلک ہے۔ پنجاب حکومت سال2018-19میں مالیاتی وصولیوں کی مد میں375,850ملین روپے کا ہدف حاصل نہیں کر سکی تھی۔ جسے نظر ثانی شدہ بجٹ میں کم کر کے268,550ملین روپے کر دیا گیا۔سال2012-13سے اب تک اس حوالہ سے کیے گئے تجزیہ کے دوران دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ پنجاب حکومت آئندہ مالی سال کیلئے رکھے گئے ریونیو کا ہدف پہلے ہی دو مرتبہ عبور کر چکی ہے۔ مالی سال2016-17 کے بجٹ تخمینہ اور2017-18 کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات میں وصولیوں کا ہدف بالترتیب392,398.7 اور392,931.8ملین روپے رہاہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت پنجاب بھی آئندہ مالی سال کیلئے موجودہ آمدنی کا دائرہ کار بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی بوجھ کو بڑھایا جاسکتا ہے یا بڑھا یا جارہا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور صوبائی ٹیکس وصولیوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میںسروے کے ذریعے مختلف شعبوں کو ٹیکس کے دائرہ کا رمیں لانے اور خصوصاً ٹیکس چوری کرنیوالے تاجروں اور صنعت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق ٹیکس کا تخمینہ36فیصد اضافے کیساتھ283ارب روپے مقرر کیا گیا ہے اور پنجاب بھر کے بیوٹی پارلرز،ہیر ڈریسرز ،ڈاکٹرز اور ٹیلرنگ کے شعبہ کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز زیر غور ہے جو کہ خوش آئند بات ہے تاہم یہ ٹیکس انکی حیثیت کے مطابق لاگو کرنا بھی ضروری ہوگا۔ اسکے ساتھ مختص شدہ رقوم کومالی سال کے آخری چند ماہ یا صرف ماہ جون کے دوران میں خرچ کرنے کی حوصلہ شکنی کرنے ،بہتر منصوبہ بندی کیساتھ عوام کا ان وسائل کا فائدہ پہنچانے اور خصوصاً کرپشن کا سد باب کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کرپشن ہماری معیشت کی جڑوںکو کھوکھلا کر رہی ہے اور اگر اسکے آگے بند نہ باندھا گیا تو عوام اس تبدیلی سے جلد ہی اکتا جائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxt9kmtc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *