سیاست اور مملکت چلانے کیلئے منافقت نہیں چلے گی

Mansha Fareedi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر : منشا فریدی


دارورسن کا دور عام ہے۔ سچ کو سُولی پہ لٹکایا جا رہا ہے۔ہر سُو دہشت کی فضا ہے۔ اور دہشت گردی کی تعریف بھی خود ساختہ ہے۔ جس کے تحت شعور مصلوب ہو رہا ہے۔ یہ معاشرہ اس نظامِ ظلم و جبر کو ہنسی خوشی قبول کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ ایک عام آدمی اس دوغلے نظام کی روحِ منافقت کا ادراک ہی نہیں رکھتا۔ بظاہر سلامتی کا دعویدار ضابطہ دراصل ایک عام آدمی کو سب اذیتیں دیتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی کے وسائل پر قابض خدائی دعوی ٰ کرنے والوں کو سلامتی و تحفظ مہیا کرتا ہے۔یہی دستورِ کذب ویاء ہماری تباہی کا باعث ہے۔آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھاجس میں ہمارا مستقبل اندھیرا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ہمارے بچے شہید ہوئے ۔ گھر اجڑے ۔ والدین کے سہارے چھین لیے گئے۔ والدین کے بازو کاٹے گئے۔ کیونکہ بچے والدین کیلئے بازو کا درجہ رکھتے ہیں۔ بڑھاپے میں آسرا ہوتے ہیں ۔تب ہی تو شاعر نے اِن بچوں کو امیدوں کا چمن قرار دیا تھا کہ

پھلا پھولا رہے یا رپ! چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

یہ سانحہ بھی اُس وقت پیش آیا تھا جب اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد میں باشاہ وقت کے خلاف احتجاج میں شریک تھیں ۔ بقول اُن کے عوام کو اِن ( بر سر اقتدار پارٹی )کے ظلم و ستم کسے چھٹکارے کیلئے یہ جدو جہد کی جا رہی تھی ۔ قبل از یں انھی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لاہور میں احتجاج کیے گئے تھے اس موقع پر دریائے چناب میں ( ایک پرو پیگنڈے کے مطابق) سیلابی پانی چھوڑ دیاگیا تھا جس سے راقم الحروف کی رائے کے مطابق دانستہ طور پر شہری آبادیوں کو نقصان پہنچانے کیلئے بند توڑے گئے تھے تاکہ احتجاجی جماعتیں دھرنے اور احتجاج ترک کر دیں۔ یوں مقتدر ٹولہ اپنی ڈپلو میسی میں کامیاب و کامران ہوا اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اہل اقتدار کی ان حرکات کو ہر ذی شعور ،اہل الرائے اور محب و طن دانشور قبول ہی نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی شہری اس طرح کی سیاست کو قبول کر تے ہیں جس کے ذریعے حذب اختلاف کو احتجاج سے روکنے کیلئے ایسے سانحات پیداکیے جائیں گے ۔
جو نہی یہ اعلان گردش کرنے لگا کہ عمران خان رائیونڈ محل کے سامنے احتجاجی دھرناد یں گے تو یہاں بھی اہل اقتدار کو اپنی بقأ کا خطرہ پیداہونے لگا۔ یوں میرے اندازے کے مطابق ایک سوچی سمجھی سازش اور پلان کے تحت بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے حالات پیداکیے گئے ۔ ایل او سی پر فائرنگ کا عمل شروع کرا کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فائرنگ اُس طرف (بھارت کی طرف) سے کی جاتی رہی جبکہ پاکستان نے ہمیشہ پُر امن ریاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی اور جوابی کاروائی کی جو دراصل عالمی سطح پر ایک نیک شگون ہے ۔ بعد میں دونوں ممالک کے درمی ن جاری کشیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمران خان نے رائیونڈ میں ہونے والا دھرنا منسوخ کر دیا ۔ اور دو نومبر کو اسلام آباد کی بندش بذریعہ دھرنا کا اعلان کر دیا ۔ پھرکیاہوا؟۔ وہی ہوا جو کالم ہٰذا میں مذکور ہے۔ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سنٹر پر دہشت گردانہ حملہ ہو گیا جس میں اعداد و شمار کے مطابق اکسٹھ 61پولیس اہلکار شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس سانحہ سے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب نو جوانوں نے ٹریننگ مکمل کر لی تھی تو بعد میں انھیں سنٹر میں کیوں بلایا گیا تھا ۔۔۔ ؟ یہی تو سوال ہے جو منافقت کا چہرہ جو پسِ چہرہ چھپا ہوا ہے ظاہر کرتا ہے ۔ ان( بر سرِ اقتدار طبقات ) کے نزدیک زندگیوں کی اہمیت نہیں ہے ۔ ملکی مفادات کچھ اہمیت نہیں رکھتے ۔ اور نہ ہی عوامی فلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے۔ ادارے محض نام کے باقی ہیں۔ اِ ن اداروں کی عمارتیں کھنڈروں کے مناظر پیش کر رہی ہیں کہ جن میں دفاتر نہیں بھوت بیٹھے ہیں جو شہریوں کا استحصال کر رہے ہیں ۔ کسی بھی ریاست کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ وہاں کے عوام وہاں کی قوم معاشی و جسمانی صحت کے حوالے سے مضبوط و توانا ہو۔ غریب عوام ریاست کی بقاء کیلئے شدید خطرہ ہیں اس لیے یہاں یہ امر لازم ہے کہ کوئی بھی ملک قومی سطح پر ترقی کرے قومی ترقی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہاں کی قوم ترقی کرے گی تو ریاست اپنا وجود قائم رکھ سکے گی ۔ شہریوں کی ذہن سازی مثبت انداز میں ہونی چاہیے۔ شہریوں کو سر گرمیوں کے انتخاب کیلئے ان کی ذہنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ضروری ہے ورنہ نتائج صفر۔۔۔۔؟ جب بھی ملک اور ریاست اندر سے کھوکھلی (معاشی سطح پر پسماندہ ہوگی ۔ بجلی ، غذا ، صحت ،تعلیم اور دیگر مسائل کا شکار) ہو گی تو کیا سرحدیں محفوظ تصور ہوں گی ۔۔۔؟ جب ہم ایک ہی گھر میں فرقہ پرستی کا شکار ہوں گے تو کیا سرحدیں بھی محفوظ ہوں گی ؟
ایک ایسا نظام جو محض وی آئی پی شخصیات و طبقات(جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام )کا تحفظ کرے ان کو ہمہ قسمی سہولیات میسر کرے عوام کو ٹا رچر کرے تھانے کا ایک منشی اور پٹوار خانے کا چپڑاسی شہریوں کی حد درجہ تذلیل کرے کیا ایسا نظام ریاست کو قائم و دائم رکھ سکے گا ؟ اگر یہ نظام ریاستی اداروں اور عوام کیلئے مخلص ہوتا تو ہمیں سفوط ڈھاکہ جیسا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا۔ اب بھی وقت پڑا ہے کہ نظام تبدیل ہو ۔ ایسا سسٹم وضع کیا جائے جو ایک عام آدمی کا تحفظ کرے جہاں امیر اور غریب میں فرق نہ ہو۔ اقتدار کی مسند پر ہر ایک کا برابر کا حق ہو۔ ملکی استحکام ممکن ہو گا۔ تب ہی منافقانہ سیاست کا اختتام ہوگا۔ اور ریاست کی سرحدیں محفوظ تصور ہوں گی ۔ نظام میں تبدیلی کے باعث مذہب اور فرقوں کے نام پر تقسیم نہ ہو گی اور یہ ترجیح بھی ختم کرنے ہو گی کہ مذہبی جتھوں کے ذریعے جہاد کے نام پر دیگر ممالک میں مداخلت کی جائے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/j9pngya
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *