٭ شیخ خالد زاہد ٭

سیاست کو چھوڑو ریاست کو بچالو

شاعر: خالد راہی کچھ وقت کے لئے سیاست سے باز آجائیے اور ڈوبتی ہوئی ریاست کے پاس آجائیے اپنی اپنی کرسیوں کو بچانے والوں وطن عزیز کو کھانے والوں گھر بار ہمارے ڈوب گئے ہیں ہاتھوں سے ہمارے،بچے چھوٹ گئے

کشمیر کا نوحہ

چلو کشمیر دیکھتے ہیں، جنت نظیر دیکھتے ہیںموت کا رقص دیکھتے ہیں ، خون کی ہولی دیکھتے ہیںہنستے مسکراتے چہرے چڑھتے سولی دیکھتے ہیںچیخوں میں سسکیوں کی صدائیں سنتے ہیںبرف پوش وادیوں میں سلگتی آگ دیکھتے ہیںچلو کشمیر دیکھتے ہیں،

غزل نما

یہ وسعتِ نظر کا کمال تھا ہر طرف تو اور تیرا خیال تھا بد گمانو کو بھی خوش گمان تھا یہ بھی کرشمہ حسن و جمال تھا گزار تو لیا ہے تیرے بغیر بھی وہ وقت بھی گویہ وبال تھا

غزل: روٹھی ہوئی اس سے زندگانی دیکھی نہیں جاتی

روٹھی ہوئی اس سے زندگانی دیکھی نہیں جاتیآنکھوں میں ٹہری ہجر کی کہانی دیکھی نہیں جاتی سہمی سی رہتی ہے آب و ہوا اب بھی شہروں کیدشتِ کرب و بلا کی جیسی ویرانی دیکھی نہیں جاتی پیوند لگے لباس میں

غزل: ​ہر رنگ محبت سے تمھاری نکھر جائے گا

​ہر رنگ محبت سے تمھاری نکھر جائے گاتم ادھر ادھر مت ہونا سب بکھر جائے گا رات سی تاریکی میں روشنی کی دلیل تم ہوتم سے جو الگ سوچا تو سب اجڑ جائے گا ہر بات پر مسکرا دیتے ہو

غزل: حوصلے اور ضبط کا امتحان ہے

حوصلے اور ضبط کا امتحان ہےعبادت سے محبت کا امکان ہے بہت شور کرتا ہے سینے میں کوئیپنجر ہے میرا یا کوئی زندان ہے سر میں خاک ڈالے برہنہ پا لئےجیسے چند لمحوں کا مہمان ہے ڈھونڈو تو کہیں ملتا

یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں

یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیںیہ کتنا شور مچاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفِ ماتم بچھاتی ہیںہنستے بستے آنگن اجاڑ دیتی ہیںکوئی دشمن نہیں انکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی دوست ہوتا ہےکوئی بتائے ان آگ اگلتی مشینوں کوتم میں سے جو عجب آگ نکلتی ہےیہ چراغِ

غزل: قصے کہانیوں میں الجھ گیا ہوں

قصے کہانیوں میں الجھ گیا ہوںکن پریشانیوں میں الجھ گیا ہوں کون ہے جو میرے راستے کی دیوار ہےکس کی کارستانیوں میں الجھ گیا ہوں متزلزل ہوا جاتا ہے مزاج اپناجیسے پانیوں میں الجھ گیا ہوں مسلسل درپیش ہے سفر

غزل: بے وقت ہی مسافت پر اکسا رہا ہے

بے وقت ہی مسافت پر اکسا رہا ہےوقت تو باقی ہے تو کہاں جا رہا ہےجنوں کی حد کا تعین ہو ہی نہیں سکتاہر ایک “گواہی” کی خاطر لڑے جا رہا ہےنا تھکنے والا رقصِ بسمل ہے ہر طرفکوئی مر