پانامہ لیکس اور اپوزیشن ۔۔۔۔ کالم : محمد معاذ

Muhammad Muaaz
Print Friendly, PDF & Email

آخر کار اپوزیشن نے نہ چاہتے ہوئے بھی پارلیمانی کمیٹی میں شمولیت کی آمادگی ظاہر کی اپوزیشن کا پارلیمانی کمیٹی میں شمولیت کا مقصد پانامہ لیکس کے متعلق وزیر اعظم سے نئے سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کا تھا کافی عرصہ سے پانامہ لیکس و آف شور کمپنیوں کے شور نے وزیر اعظم کی نیند تک اڑا دی ابتداء میں جب نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز،حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز کے نام پانامہ پیپر میں آئے تو اس دن سے وزیر اعظم انتہائی ڈپریشن کا شکار ہو گئے ڈپریشن میں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن نے نواز شریف کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نواز شریف پر مختلف الزامات لگاتے آرہے ہے جب کہ وزیر اعظم ابتداء سے لیکر موجودہ حالات تک اپوزیشن کی جانب سیلگائے جانے والے الزامات کا دلائل سے جواب دیتے آرہے ہے تو دوسری طرف مالانا فضل الرحمان بھی وزیر اعظم کے دفاع کے لئے صف اول میں کھڑے پائے گئے ۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہمارا دامن صاف ہے ہمیں کسی آئینی و قانونی استثنی کی ضرورت نہیں ماضی میں کڑے احتساب سے گزرے اور آج بھی ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لئے تیار ہیں نواز شریف ابتداء سے بیان کرتے آرہے ہے کہ احتساب کی ابتداء ہم سے کی جائے لیکن پھر بھی اپوزیشن کی جانب سے اتنا واویلا کرنے کا مقصد سمجھ سے بالا تر ہے پانامہ لیکس کی پہلی قسط میں بینظیر بھٹو،جہانگیر ترین،علیم خان،حسین نواز،حسن نواز ،مریم نواز جب کہ دوسری قسط میں سیف اللہ خاندان عمران خان سمیت چار سو پاکستانیوں کے نام شامل ہے جن میں تاجر سیاستدان سبھی شامل ہے دوسری قسط کے منظر عام پر آنے سے ماقبل پی ٹی آئی نے نواز شریف کے بیٹوں کے نام ظاہر ہونے پر اس ایشو کو لے کر سڑکوں پر آنے اور احتجاجی جلسوں میں وزیر اعظم سے استعفوں کا مطالبہ کیاتاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا عمران خان جب احتجاجی جلوسوں میں حکومت پر جس انداز سے تنقید کرتے آرہے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ عمران خان نے آف شور کمپنیوں کا نام پہلی مرتبہ سنا ہے اور نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک ہے اور پہلی مرتبہ آف شور کی برائیاں ان کے سامنے آئی ہے جب کہ اصل ریکارڈ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں سے عمران خان کی پارٹی کے اراکین سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں عمران خان ،جہانگیر ترین،علیم خان و دیگر کئی شامل ہے اور ان تمام نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہے لہذا عمران خان کے آف شور کمپنیوں کے متعلق دیے گئے فتوؤں کے مطابق ان حضرات نے ٹیکس بچانے،لوٹی ہوئی دولت ٹھکانے لگانے اور منی لانڈرنگ کی رقم بچانے کے لئے آف شور کمپنیاں بنائی عمران خان کی کمپنی 1983میں قائم کی گئی جب کہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صاحب کی ان سے دس سال بعد قائم کی گئی مسلم لیگ (ن)اس دوڑ سے باہر ہے لہذا سب سے سینئر ملزم اور تعداد کے لحاظ سے بھی تحریک انصاف ہی ہے اور یاداشت بھی سب سے زیادہ کمزور تحریک انصاف ہی کی ہے گزشتہ تین ہفتوں سے عمران خان آف شور کمپنیوں کا کوڑا ہاتھ میں لے کر مخالفین کی پٹائی کر رہی ہے اور یہی پانامہ کے نام پر مخالفین کے لئے مختلف پروپیگنڈہ اور واویلا مچانا تحریک انصاف کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا دوسری جانب پرویز رشید کہتے ہیں عمران خان کو 1980میں رنز بنانے اور وکٹیں گرانے کا یاد ہے لیکن آف شور کمپنی کا یاد نہیں قومی سطح پر اپوزیشن نے جو پانامہ کے نام پر شور مچایا ہوا تھا یہی شور اپوزیشن پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنا عمران خان اپنی ہار کو دیکھتے ہوئے بھی ہار ماننے کو تیار نہیں جب کہ دوسری جانب نواز شریف پر پانامہ لیکس کے اتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کہ وزیر اعظم صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے دوروں پر چل پڑے اور ساتھ ہی کئی ارب روپے کے پراجیکٹ کا اعلان کیا جس میں بنوں،کوہاٹ،اور ڈیرہ شامل ہے جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو تین سال ہونے کو ہے لیکن تحریک انصاف کے پی کے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لا سکی جس کی وجہ سے کے پی کے کی عوام نے پی ٹی آئی سے مایوس ہو کر نواز شریف کے دورہ کے پی کے کا خیر مقدم کیا اور ساتھ ہی اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی جہاں اگر عمران خان مستقبل میں وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تو ان خوابوں کی تعبیر کے لئے حقیقی طور پر تبدیلی لانا ہو گی ان تین سالوں میں کے پی کے کی حکومت نے عوام کو دھرنوں،ناچ گانوں،ثقافت کے نام پر بے حیائی کے علاوہ کچھ نہیں دیا اگر عمران خان کا انداز سیاست یہی رہا تو ان کا یہ معصوم سا خواب محض خواب ہی رہے گا ۔

Short URL: http://tinyurl.com/h4od45g
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *