زیکا وائرس مچھروں پر قابو پانے میں ناکامی کا نتیجہ ہے

Print Friendly, PDF & Email

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ مچھروں پر قابو پانے میں ناکامی کی قیمت زیکا وائرس کے پھیلاؤ کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مارگریٹ چان نے ادارے کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1970 کی دہائی میں ماہرین ان مچھروں پر قابو نہیں کر سکے جن میں زیکا وائرس تھا۔ اس وقت 60 سے زیادہ ممالک میں زیکا وائرس موجود ہے اور حال ہی میں مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والا یہ وائرس افریقہ تک پہنچ گیا ہے۔ خیال ہے کہ اس وائرس سے حمل کے دوران بچوں میں شدید پیدائشی نقائص پیدا ہو سکتے ہیں۔ زیکا وائرس کو عالمی سطح پر صحت عامہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر مارگریٹ چان کا کہنا ہے کہ اس وبا کے پھیلنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ہماری اجتماعی کوششوں یا تیاریوں میں کمی یا خرابی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیکا سے یہ بات بھی ظاہر ہوئی ہے کہ سب کو یکساں طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق خدمات تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وباء سے چھٹکارے کی مہم امریکی ممالک میں کامیاب رہی اور اس مہم کے دوران 1962 میں 18 ممالک نے اس کیڑے سے نجات حاصل کر لی تھی۔

لیکن اس مچھر میں مزاحمت پیدا ہونے اور سیاسی ارادے کی کمی کے سبب یہ وائرس ایک بار پھر ابھر گیا۔اس وقت خواتین کو صرف مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے کہ وہ مچھروں سے بچیں، حمل سے پرہیز کریں اور متاثرہ علاقوں کا سفر نہ کریں۔ اس مرض کی تشخیص پہلی بار یوگینڈا میں سنہ 1947 میں ہوئی تھی لیکن اس کی علامتیں معمولی تھیں جیسے کہ جوڑوں کا درد، جلد پر کھجلی یا بخار۔ لیکن سنہ 2015 میں برازیل میں اس وائرس کے موجودہ پھیلاؤ کی علامتیں بہت شدید ہیں۔ اب تک اس وائرس کی وجہ سے تقریباً 200 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

(بشکریہ: بی بی سی اُردو)

Short URL: http://tinyurl.com/j3vph4w
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *