کھلتے راز۔۔۔۔ مصنف: شاہ فیصل نعیم

Print Friendly, PDF & Email

بچپن میں میں جب بھی اْس کے پاس جاتا، لڑ پڑتا تھا۔ یہ لڑائی دن میں دوبار تو پکی ہوتی تھی اور اگر کوئی مہمان آ جاتا تو تیسری بار ہونے کے امکانات کم نا ہوتے۔ ایسے ہی وقت گزرتا گیا مگر یہ عادت بجائے چھوٹنے کے پکی ہوتی گئی۔ پتا نہیں کیوں وہ میری لڑائی کا بْرا نہیں مانتا تھا اور ناہی مجھے انکار کرتا تھا، جو بھی میں بولتا چاہے اچھا یا بْرا وہ بس سنتا رہتا تھااور اپنا کام کرتا رہتا۔ پھر ایک دن ایسا آیا اْس نے مجھے سمجھایا اور میں نے وہ راز پا لیا جس کے لیے میں انجانے میں برسوں سے لڑرہا تھا۔ ایک وقت گزر گیا ہے اب نا تو میں اْس سے لڑتا ہوں اور نا ہی خدا سے۔
گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناتے خود کام کم ہی کرتا ، اکثر کام چھوٹوں سے کروالیتا تھا اور صبح صبح اْٹھ کہ دہی لینے جانے اور رات کو جب پی ٹی وی پہ ڈرامہ لگا ہو اور وہ بھی میرا پسندیدہ ، میں دودھ لینے جاؤں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھر کیا ہوا وہ جو حاکم تھے محکوم بنا دیئے گئے۔ سکول سے آئے دن بھاگنے، کام نا کرنے، آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومنے اور رات دیر تک باہر رہنے کے جرم میں ہمیں گھر بدر کردیا گیا۔ ہماری پناہ گا ہ بنا خالہ کا گھر جو کسی صورت بھی اڈیالہ جیل سیکم نہیں تھا۔وہ جو کل تک چھوٹوں پہ حکم چلاتا تھا آج وہ خالہ کے گھر سب سے چھوٹا ہونے کے باعث حکم بجا لانے لگا۔ سنا تھا چھوٹے ہونے کے بہت فائدے ہیں اور کچھ نقصان بھی مگر ہمارے کیس میں نقصان بہت زیادہ او ر فائدے کچھ کچھ تھے۔
صبح صبح جب ٹھیک ٹھاک مزے سے سو رہا ہوتا تو آواز پڑتی:”چلو بھائی اْٹھوجلدی دودھ لے آؤ۔ چاچابشیر انتظار کررہا ہوگا”۔
یہ آواز اذنِ قضا کاکام کرتی مگر میں بجائے مرنے کے اْٹھ بیٹھتااور ڈول اْٹھائے نیم غنودگی کی حالت میں گرتا سنبھلتا کسی طرح چاچے بشیر کی دکان تک پہنچ جاتا۔
“چاچا میں آگیا ہوں ! یہ میرا ڈول پڑا ہے، دودھ اس میں ڈال دو اور دہی شاپر میں”۔
بس اتنی سی ہانک لگاتا اور خود اْدھر ہی پھٹے (بینچ) پہ بیٹھا بیٹھا سو جاتا ، اْٹھتا تب جب انتظار کرکرکہ گھرسے کوئی لینے آجاتایاجب سورج کی دھوپ جلانے لگتی اور مکھیاں مجھ پہ تابڑتوڑ حملے کرنے لگتیں۔ تب جاکر کہیں آنکھ کھلتی اور آنکھ کھلتے ہی میرا پہلا نشانہ چاچا ہوتا:
“چاچا میں صبح کا آیا ہوں اور تم نے ابھی تک مجھے سودا نہیں دیا۔ اب گھر والوں سے جو مار پڑنی ہے اْس کا ذمہ کون لے گا؟ پتانہیں تمہیں روز روز مجھے لیٹ کرکہ مزہ آتاہے۔ میرے بعد آنے والے سبھی لوگوں کو تم نے سودا دے دیا ہے مگر مجھے ابھی تک نہیں دیا”۔
“او چھوٹے شاہ جی صبح کہ تو آپ ادھر آکے سوئے ہوئے ہیں سودا میں آپ کو کیا دوں”؟
“جو بھی ہے چاچا میری تیرے سے لڑائی ہو جانی ہے کسی دن۔ تم میرے بعد آنے والے لوگوں کو پہلے سودا دے دیتے ہو اور میں ادھر بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا ہوں، سوتا تو میں کبھی کبھی ہوں مگر تم روز ہی لیٹ کردیتے ہو”۔
“اچھا گرو اب گھر جاؤ آئندہ لیٹ نہیں کرتا”۔
وہ مجھے ہر بار یہی رٹی رٹائی لائن سناتا اور میں گھر لوٹ آتا۔ اْدھر میں چاچا کو سنا کہ آتا اور اِدھر گھر مجھے سننا پڑتی تھیں۔ مگر تھوڑی دیر بعد مک مکا ہو جاتا اور پھر موصوف عزت ماب سکول چلے جاتے۔
پھر رات کو بھی ہماری ہی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی عین اْس وقت دودھ لینے جانا پڑتا جب میرا پسندیدہ ڈرامہ لگا ہوتا۔ میں ہرشام یہی دعا مانگتا کہ کسی طرح اْتنی دیر تک ڈرامہ رک جائے جب تک میں دودھ لے کر نہیں آجاتا مگر یہ صرف دیوانے کا ایک خواب ہوتا جو کبھی پورا نا ہوتا۔
“رات کو چاچا کی دکان پہ اْدھم مچا دیتا، جلدی کرو چاچا، جلدی دودھ ڈال دو، ڈرامہ گزر جانا ہے، جلدی کرو نا چاچامیں جلدی آیا ہوں”۔
ترلے منت کرکے کہیں باری آتی مگرواپس آنے تک آدھا ڈرامہ گزر چکا ہوتا اور باقی کا آدھا یہ اندازے لگانے میں گزر جاتا کہ پہلے آدھے میں کیا ہوا؟
حالات بدلتے رہے، وقت تیزی سے گزرتا گیا، قدریں وہ نا رہیں، لوگ جن کے دل سچائی کے نور سے پْرنور رہتے تھے وہ کہیں کوچ کر گئے، کچے مکان پکے ہو گئے مگر مکین کچے ہوگئے، ٹوٹے پھوٹے ٹیڑھے راستے اب سیدھے ہو گئے مگر اْن پہ چلتے لوگ اب سیدھے نا رہے، اْن کی ذات دنیا جہاں کی بْرائیوں کی آماجگاہ بن گئی ، چاچا بشیر چاچے سے سفر کرتا کرتا اب بابا بشیر بن چکاتھا، زمانے کے اْتار چڑھاؤنے چاچے کی چھوٹی سی دکان کو بڑی سی دکان میں بدل دیا مگر اب دودھ کا رنگ پہلے جیسانہیں رہا، گاہک بھی اب اِکا دْکا ہی دکان پہ کھڑا ملتا ہے۔
“آ جاؤ شاہ جی۔۔۔۔ آجاؤ جلدی میں آپ کا ہی انتظار کر رہا ہوں”۔
“چاچا اگر آج مجھے لیٹ کیا نا تو میں نے کبھی تجھ سے ملنے نہیں آنا”۔
“او نہیں پتر آج تجھے لیٹ نہی کروں گا بلکہ روز لیٹ کرنے کی وجہ بتاؤں گا”۔
“ویسے تو جا کہاں رہا ہے جو مجھے ملنے نہیں آئے گا”؟
“اماں جی آئے ہیں مجھے لینے ، کہتے ہیں اب تو بڑاہو گیا ہے اس لیے چل گھر اپنے شہر، باقی کی پڑھائی اْدھر ہی پوری کرنا۔ اسی لیے تو تجھے دھمکی دے رہا ہوں چاچا”۔
“اچھا پتر اللہ تجھے کامیاب کرے”۔
“بس تم دعاکرتے رہنا چاچا۔ ہاں یاد آیا وہ لیٹ کرنے کی وجہ تو بتا دو”؟
“شاہ جی بات کچھ ایسے ہے۔ آپ تھے ہمارے پکے گاہک اورجو پکا ہوتا ہے نا وہ کسی دوسری دکان پہ سودا لینے نہیں جاتا چاہے اْسے سودا دیر سے ملے یا سویر سے وہ آتا اْسی دکان پہ ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نئے گاہک راہ چلتے مسافر کی طرح ہیں یہ دکاندار کی اضافی کمائی ہوتے ہیں اگر ان کوہم جلدی سودا دیں گے تو ایک تو ان کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور ساتھ ہمارے گاہک بڑھ جائیں گے۔ اگر ہم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کریں گے ، ان کو بھی لیٹ کریں گے تو پھر یہ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور کسی اور در پہ چلے جائیں گے”۔
“شاہ جی آپ کے تھوڑا نتظار کرنے سے میرا بھی فائد ہ ہوجاتا ہے اور نئے آنے والے گاہک کا بھی”۔
“واہ چاچا کیا تکنیک ہے تیری۔۔۔۔۔گاہک بڑھانے کی”۔
“ایک بات اور چاچا تیرے پھٹے پہ میں نے نیند بہت پوری کی ہے اور مکھیاں مارنے میں تو اب استا د ہوچکا ہوں۔ کیامجال کسی مکھی کی جو تیرے کونڈے کے آس پاس نظر آئے”۔
میں ڈول اْٹھائے گھر کا راستہ ناپتاہوں اور پیچھے چاچا یہ کہتے ہوئے مسکرا رہا ہے:
“شاہ جی تم کبھی نہیں بدلو گے”۔
یوں ہماری قید کے دن ختم ہوئے اور ہم آبراجمان ہوئے اپنے گھر جہاں ہم راجا اور باقی گھر والے ہماری رعایا ، کبھی سمجھے جاتے تھے اب تو مساوات کا راج تھا یہاں بھی۔ ورنہ یہاں تو ہر بڑے کو حکمرانی وراثت میں ملتی تھی سعودی حکمرانوں کی مثل۔
اگر گاؤں میں تجربے کیے تھے تو یہاں بھی کچھ کم نہیں کیے۔ کوئی بھی کام ہو اچھا یا بْرا اگر ایک بار انسان کو اس کی لت لگ جائے توپھر اْسے جان چْھڑانے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا اْسے اپنانے میں لگا۔ عادت پڑنے کے بعد اْس کام کو چھوڑنابڑے دل گردے کا کام ہے اکثر لوگ تو اسی عادت کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
یہ کوئی چھٹی ساتو یں کی بات ہے جب سکول میں آدھی چْھٹی ہوتی تو اْس میں نماز کا وقت بھی آتا تھا۔ تھے تو ہم شروع سے ہی نالائق پڑھنے پڑھانے سے تو ہمارا دوردور تک کوئی ناطہ نہیں تھا اسی لیے ہر وقت ماسٹرجی کے ساتھ ساتھ رہتے ، پڑھنے کے علاوہ اْن کا ہر حکم بجا لاتے ، کوئی بھی کام پڑتا تو استا دجی کو ایک ہی نام یاد آتا اور وہ نام ہمارا ہوتا۔ استاد جی کو نام یاد کروانا ہی تو ہمارا مقصد تھا چاہے وہ ہمیں سبق یاد نا کرواپائے مگر ہم نے نام یاد کروانے والا کام فرض اولین سمجھتے ہوئے کیا۔
اس سے یہ ہوتا کہ پیپر چیک کرتے وقت ماسٹرجی کو ہم پہ رحم آجاتا۔ یہ رحم گھر میں بھی ہماری نجات کا سبب بن جاتا۔ اس طرح ہمیں سکول میں رہنے کا ایک اور موقع مل جاتا۔
تو ہم بات کر رہے تھے آدھی چْھٹی کی جس میں نماز کاوقت بھی آتا تھا۔ ماسٹر جی نماز پڑھنے جاتے تھے اور ہم وزیر مشیر کے چیلوں کی طرح ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے مسجد پہنچ جاتے۔
ایسے ہی تین سال گزر گئے۔ چیلے بننے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ہمیں مسجد جانے کی عادت پڑگئی اسی بہانے ہم نمازبھی پڑھ لیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی عادت اس قدر پکی ہو گئی کہ اسے چھوڑنا مشکل ہو گیا۔
یوں سمجھ لیں کہ ہماری مثال اْس نشئی کی تھی جسے اگر بروقت نشہ نا ملے تو اْس کی جان پہ بن جاتی ہے ، وہ مرنے والا ہو جاتا ہے اور مرتے انسان کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو ہمارابھی نشئی جیسا حال ہو جاتا کچھ اچھا نہیں لگتا تھا جب تک مسجد کا چکر نا لگا لیتا۔
مجھے انسان بْرے نہیں لگتے اْن کی بْری عادات بْری لگتی ہیں۔ میرے ماموں سگریٹ کے بہت شوقین ہیں اور مجھے سگریٹ سے الرجی ہے میں نیایک دن انہیں کہا:
“ماموں! آپ کو کیا ملتا ہے دھواں پھیلا کر؟ آپ کو پتا بھی ہے کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے مگرآپ پھر بھی اسے چھوڑتے نہیں”۔
کہنے لگے:
“ہاں فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا ،پیسے الگ ضائع ہوتے ہیں، یار! یوں سمجھ لو کہ سگریٹ پینے کی عادت پڑ گئی ہے جب تک سگریٹ نا ملے ایسے لگتا ہے کہ پتا نہیں کتنی اہم چیز کھو گئی ہے۔ اور کچھ ملے نا ملے سگریٹ ضرور ملنا چاہیے۔ جب تک سگریٹ نا پی لیں کھانا ہضم نہیں ہوتا”۔
یہ ماموں کی عادت تھی اور ہماری عاد ت تھی مسجد جانا۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ مسجد جانے سے ثوا ب ملتا ہے ، گناہ ہوتا ہے، نیکیاں بڑھتی ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں یا انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتاہے۔
اور نا ہی میں اس لالچ کے سبب مسجد جاتا تھا میں تو عادت کا مارا انسان تھا جسے ایسے لگتا تھا کہ نماز نا پڑھنے سے میرا کچھ کھو گیا ہے اور جب میں نماز پڑھ لوں گا تو مجھے وہ کھوئی چیز واپس مل جائے گی۔
تب کسی شخص کو پرکھنے کا میرا طریقہ بڑا جدا سا تھا، میں نے لوگوں کے لیے الگ الگ پیمانے بنا رکھے تھے۔ جو مسجد میں زیادہ آتا ، وہاں زیادہ وقت گزارتا چاہے وہ مسجد میں بیٹھا گپیں ہانکتا رہتا یا سوجاتا۔ وہ کچھ بھی کرتا مگر مسجد میں زیادہ وقت گزارتا وہ میرینزدیک سب سے اچھا بندہ اور پکا مسلمان ہوتا۔ اس طرح میں بھی پوری تگ و دو کرتا کہ میں بھی اچھا بندہ بنوں اور پکا مسلمان بھی۔ میں بھی زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارا کروں۔ اس لیے میں اذان سے پہلے مسجد چلا جاتا اور نماز ہو جانے کے کافی دیر بعد آتا۔
ماں جی الگ پوچھتے:
“پتر جی نماز تو کب کی ہوگئی ہے آپ اتنی دیر کہاں تھے”؟
مگر میں ماں جی کو نہیں بتاتا تھا کہ میں آجکل اچھا بندہ بننے کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مشق کافی دیر چلتی رہی پتانہیں میں اچھا بندہ بنا یا نہیں البتہ میں نے یہاں اللہ سے لڑائی کر لی۔
وہ بندے جنہیں مسجد آتے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے اْن کی دعائیں مقبول ہوتیں اور ہم جو برسوں سے اْسے پوجتے آرہے تھے ہماری جلدی سنوائی ہی نہیں ہوتی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خدا بھی بعد میں آنے والوں کو پہلے دیتا ہیاورہم جو ہر پہر اْ س کی چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں ہماری باری ہی دیر سے آتی ہے اور اگر ہماری جھولی میں خیر پڑتی ہے تو وہ اتنی دیر سے پڑتی ہے کہ ہمارے بنائے منصوبے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے، ہم خدا سے لڑ پڑے۔
انہی دنوں میرا گاؤں جانا ہوگیا۔ چاچے بشیر کی دکان راستے میں پڑتی تھی۔ چاچا دکان پہ بیٹھا کچھ لوگوں سے باتیں کررہا تھا مجھے دیکھتے ہی اْٹھ کھڑا ہوا۔
“بسم اللہ !او میرے شاہ جی آئے”۔
دعا سلام کے بعد چاچا نے مجھے پاس ہی بٹھا لیا۔ چاچے نے دکان پہ کھڑے لڑکے کو آواز دی:
“او احمد یار تمہیں نظر نہیں آ رہا شاہ جی آئے ہیں۔ جاؤ گھر جاؤ اور ٹھنڈا دودھ لے کرآؤ”۔
“چاچا اس سب کی ضرورت نہیں”۔
“کوئی حال نہیں شاہ جی ، ان سب کی تو ضرورت ہے۔ اگر آپ نے ہم سے نہیں کھانا تو اور کس نے کھانا ہے”؟
“اور سناؤ ؟ حال چال سب ٹھیک ہے نا ؟ اب تو کسی سے لڑائی نہیں کرتے”؟
“چاچا حال ہی تو ٹھیک کروانے تیرے پاس آیا ہوں اور ایک لڑائی ہی تو ہے جو میں کرتا ہوں”۔
چاچا میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگا:
“کیوں پتر اب کیا ہوا ؟ کس سے لڑائی ہو گئی تیری”؟
“ہونا کیا ہے چاچا اب میں نیاللہ سے لڑائی کرلی ہے”۔
“اللہ سے لڑائی !”
“مگر کیوں”؟
“تیرے سے کیوں لڑتا تھا چاچا”؟
“میں تو تمہیں لیٹ سودا دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھ گیا”۔
“چاچا جی بس خود ہی نہیں سمجھنا مجھے بھی سمجھانا ہے”۔
“شاہ جی بات وہی ہے جو کچھ سال پہلے میں نے آپ کو بتائی تھی کہ آپ میرے پکے گاہک ہو اور نئے آنے والے راہ چلتے مسافر ، جن کی ضرورت اگر پہلے پور ی کروں گا تو اس میں میرا بھی فائدہ ہے اور اْن کابھی۔
تو شاہ جی خدا کا دربار بھی ایسا ہی ہے تم ہو خدا کے پکے بندے خدا کو پتا ہے کہ اسے اگر تھوڑی دیر بعد بھی نوازا جائے تو وہ اس کے فائدے میں ہے۔ خدا تمہارا بھلا سوچتا ہے پتر، وہ جانتا ہے کہ تم کہیں اور نہیں جاؤ گے ، فجر کو لڑو گے تو ظہر کو پھر اْسی در پہ سربسجود ملو گے۔
وہ لوگ جو کبھی کبھی مسجد میں ملتے ہیں یا یوں کہوکہ عید کی عید نظر آتیہیں۔وہ خدا کی بتائی ہوئی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں جب وہ اْس کے حضور دستِ دعا دراز کرتیہیں تو وہ اْنہیں نواز دیتا ہے۔
اگر وہ اْنہیں نوازے گا نہیں تو وہ دل برداشتہ ہو کر کسی اور کے در پہ جائیں گے۔
تو شاہ جی خدا کیسے گوارا کریگا کہ اْس کے در پہ صدا لگانے والا کسی اور در کا صدائی بنے۔
اس سے خدا کو اْس کا بندہ مل جاتا ہے اور بندے کو خدا۔
آپ کا توکچھ نہیں جاتا نا شاہ جی”؟
چاچا کی داستان ختم ہوئی۔
“چاچا اب میں چلتا ہوں”۔
“اب کہاں جانا ہے پتر جی”؟
“اللہ سے صلح کرنے چاچا اور کہاں جانا ہے ”
“او شاہ جی پانی تو پیتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ جی بات تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
میں بہت دور نکل آیا تھا چاچے کی مدھم سی آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔
Short URL: http://tinyurl.com/hk2ky7z
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *