قربانی۔۔۔۔ مصنف: مجیداحمدجائی، ملتان

Print Friendly, PDF & Email

’’افشاں کہاں ہو ۔؟جلدی کرو ناں،بہت دیر ہو رہی ہے‘‘۔زین نے اپنی بیٹی کو آواز دی،جو کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔
’’ابھی آئی پاپا جانی۔‘‘افشاں نے کچن سے ہی آواز دی۔
عید الاضحیٰ قریب تھی۔موسم خوشگار تھا۔آسمان پر بادلوں کے جھرمٹ ایک دوسرے کے ساتھ اٹکھلیاں کر رہے تھے۔سورج ان سفید،نیلے بادلوں کا تماشا دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ٹھنڈی ہوائیں موسم میں خنکی پیدا کر رہی تھی،زین آفس کی تیاری کر رہا تھا،صرف ناشتہ کرنا باقی تھا۔
افشاں،اس کی بیٹی ،روز صبح سوریے اپنے پاپا جانی کو ناشتہ تیا ر کرکے دیتی تھی۔اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے،زین اسے حد سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ماں باپ کی لاڈلی تھی۔ہر فرمائش پل بھر میں پوری کر دی جاتی تھی۔
نگہت ،زین کی بیوی ،باپ بیٹی کی محبت دیکھ کر ناز کرتی رہتی تھی۔
زین برآمدے میں بیٹھا ناشتے کا انتظار کر رہا تھا۔’’لے بھی آو افشاں۔۔۔بہت دیر کر دیتی ہو۔‘‘زین نے افشاں کو آواز دیتے ہوئے کہا۔تھوڑی دیر میں افشاں گرما گرم ناشتہ لے کر آ گئی۔
’’لیجئے۔۔۔میرے پیارے پاپا جانی ۔۔ناشتہ حاضر ہے۔پراٹھوں کے ساتھ ،ساتھ انڈے اور لسی افشاں نے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پاپا سے کہا۔
اب تم بھی جلدی سے آجاؤ۔ورنہ آفس سے پھر لیٹ ہو جاؤں گا۔‘‘زین نے جواب دیا۔
’’ابو آپ شروع تو کریں ۔میں ابھی آئی۔‘‘
دونوں باپ ،بیٹی روزانہ ایک ساتھ ناشتہ کرتے تھے۔اس کے بعد زین آفس چلا جاتااور افشاں اپنے کالج چلی جاتی ،نگہت بیگم سارا دن گھر کے کام نمٹاتی رہتی تھی۔
’’پاپا۔۔۔جانی۔۔‘‘افشاں نے ناشتہ کرتے ہوئے باپ کو مخاطب کیا۔’’ہوں۔۔زین نے نوالہ چباتے ہوئے جواب دیا۔
’’پاپا۔۔۔اس دفعہ قربانی نہیں کرنی کیا۔؟دن تھوڑے ہی رہ گئے ہیں ۔بکرے میاں کب تشریف لائیں گے؟ابھی تو میں نے اسے سجانا بھی ہے۔مہندی لاگانی ہے۔گلے میں پھولوں کی ملا ڈالنی ہے۔اس کی خدمت بھی کرنی ہے۔‘‘
’’افشاں بیٹی‘‘بس آج آفش سے واپس آتے ہوئے بکرے میاں کو ساتھ لیتا آؤں گا۔اب خوش۔‘‘’’چلو ۔۔۔برتن اٹھاؤ اور جلدی سے تیاری کرکے آؤ ۔کالج نہیں جانا کیا۔؟‘‘
’’پاپا۔۔۔ایک تو آپ بھول جلدی جاتے ہیں ۔رات کو ہی میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کل کالج سے چھٹی ہے‘‘افشاں نے برتن اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوکے بیٹااللہ احاف٭۔۔۔آج اکیلے ہی جانا پڑے گا۔‘‘زین ناشتے سے فراغت پانے کے بعد ،بائیک اسٹارٹ کرتے آفس کی طرف روانہ ہوگیا۔اور افشاں ،ممی کے ساتھ کام نمٹانے لگی۔‘‘
زین کا گھرانہ تین افراد پر مشتمل تھا۔ماں،باپ عرصہ ہوا وفات پا چکے تھے۔کوئی بہن،بھائی نہیں تھا۔ماں ،باپ کی طرف سے وارثت میں اچھی خاصی زمین ملی تھی۔لیکن زین کو کاشت کاری سے دل چسپی نہیں تھی۔اس لیے زمین ٹھیکے پر دے دی تھی۔وہاں سے اچھی رقم مل جاتی تھی اور خود سرکاری جاب کرتا تھا۔گھر میں روپے پیسے کی کمی نہیں تھی۔رب تعالی نے ہر نعمت سے نوازاتھا۔
زین کی بیوی نگہت۔۔۔زین کے آفس میں ہی ساتھ کام کرتی تھی۔دونوں میں دوستی ہوئی جو محبت میں تبدیل ہو گئی اور بات شادی تک جا پہنچی۔
نگہت کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ماں،باپ بوڑھے تھے۔تین بھائی اور ایک بہن تھی۔جو ابھی چھوٹے تھے۔نگہت ہی گھریلو اخراجات پورے کر رہی تھی۔جب سے زین سے دوستی ہوئی تھی تو زین اس کی ہیلپ کر دیتا تھا۔اس طرح نگہت کی پریشانی کم ہو جاتی اور گھر میں بہار سا سماں ہوتا۔
زین اور نگہت کی دوستی محبت کا رنگ اپنا چکی تو زین نے نگہت کے والدین سے ،نگہت کا ہاتھ مانگ لیا ۔یوں ایک دن نگہت زین کی ہم سفر بن کر زین کے آنگن میں آگئی۔
زین بہت محبت کرنے والا،خوشیاں بانٹنے والا،بہت ہنس مکھ تھا۔نگہت کے ساتھ شادی کیا ہوئی زین کے گھر خوشیوں کے میلے لگ گئے۔نگہت بھی بہت خوش تھی اور اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کر رہی تھی۔جو اتنا اچھا ہم سفر مل گیا تھا۔زین نے نگہت کے والدین اور بھائیوں کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔
شام کے سائے ڈھلنے والے تھے جب زین آفس سے گھر لوٹا۔نگہت کی طبیعت خراب تھی۔زین فورااسے ہسپتال لے گیا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں افشان کی صورت میں خوبصورت پری جیسی بیٹی سے نواز دیا۔زین بہت خوش تھا۔اسے خوشیاں ہی خوشیاں مل رہی تھیں۔ہر طرف سے مبادکباد کی آوازیں گونج رہی تھیں۔نگہت کا ساتھ پاکر زین تو کھل اٹھا تھا۔قدم قدم پر کامیابیاں اس کے قدم چومتی تھی۔خوشیوؤں کے اس حسیں سنگم میں وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور دوسال مزید بیت گئے۔
افشاں اب صحن میں چلنے لگی تھی۔نگہت پھر امید سے تھی ۔زین کے گھر خوشیاں رقص کرتی تھی۔پھر نجانے کس بد نثر کی نظر کھا گئی۔نگہت کی طبیعت خراب ہوئی تو زین کوآفس سے بلوایا گیا۔زین کے آتے ہی نگہت کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ دونوں میں سے ایک کی زندگی بچ سکتی ہے۔یا تو بچہ بچ جائے گایا پھر بچے کی ماں۔آپریشن ہونا تھا۔زین کے کہنے پر ماں کو بچایا گیا۔لیکن ساتھ ہی یہ خبر زین پر قیامت بن کر گری کہ نگہت پھر کبھی ماں نہیں بن پائے گی۔زین تو جیسے سکتے میں آگیا۔زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی قدرت کے آگے کس کی مرضی چلتی ہے۔زین بھی قدرت کی رضا سمجھ کر خاموش ہو گیا۔اب نگہت اورافشاں ہی اس کی کل کائنات تھیں۔انہی کے دم سے اس کی خوشیاں تھیں ۔وہ ہر ممکن کوشش کرتا کہ انہیں کوئی غم نہ ملے۔
نگہت تو پہلے ہی غموں میں ڈوبی ہوئی تھی۔جب سے اس کی ماں،باپاس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔پہلے ماں اور پھر چانک باپ کی وفات نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔اس دران زین نے اسے بہت سنبھالا۔
نگہت کو ڈر تھا کہ کہیں زین اسے چھوڑ نہ دے ۔لیکن زین پڑھا لکھا نوجوان تھا۔وہ سب سمجھتا تھا اور نگہت کو کبھی تنہائی محسوس نہ ہونے دی۔پھر وقت گزرتا چلا گیا۔نگہت کے بھائیوں کو نوکریاں دلوادیں اور انہیں گھر بھی تیار کروادئے۔پھر تینوں بھائیوں اور بہن کی شادی بھی عمدہ طریقے سے کر دی گئی۔نگہت کو اب کوئی غم نہیں تھا۔اس کے بہن بھائی اپنے اپنے گھر کے ہو گئے تھے۔
زین آفس کے بعد بکر منڈی چلا گیا ۔وہاں سے اس نے اپنی بیٹی کی خواہش پر خوبصورت بکرا لینا تھا۔کافی دیر منڈی میں گھومتا رہا لیکن کوئی بکرا اسے پسند نہ آیا۔اس کے اندر عجیب سی بے چینی ،بے سکونی تھی۔بکر منڈی میں قمیتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔زین کافی دیر تک وہاں کھومتا رہا۔آخر تھک ہار کر گھر کی طرف چل پڑا کہ کل آکر بکر لوں گا۔
شام کے بادل چھا گئے تھے۔اندھیرا پھیلنے کو تھا۔زین اپنے محلے میں پہنچا تو اپنے گھر سے چند گھر پہلے ایک گھر سے رونے کی آوازیں سن کر رک گیا۔خدا خیر کرے کیا ماجری ہے۔؟بے اختیار اس کے قدم اس طرف اٹھ گئے۔
یہ گھر آنٹی فاطمہ کا تھا۔جو عرصے سے اپنی بیٹیوں کے ہمراہ یہاں مقیم تھی۔دروازے پر دعستک دی تو اند سے آنٹی فاطمہ نے آواز دی۔
’’کون ہے۔؟‘
’’آنٹی۔میں۔۔۔۔زین۔‘‘
آنٹی فاطمہ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا
بیٹا آؤ۔۔۔۔اندر آجاؤ ۔آج میرے گھر کا راستہ کیسے یاد گیا۔
وہ۔۔۔۔وہ آنٹی۔۔۔۔۔ادھر سے گزر رہا تھا۔سوچا آپ سے ملتا جاؤں،کافی دن ہو چلے تھے۔ادھر آنا نہیں ہو ا ناں۔ان دنوں تھوڑا مصروف تھا۔
زین نے انجان بنتے ہوئے آنٹی فاطمہ کو جواب دیا۔
ہاں بیٹا۔۔تم تو بھول ہی گئے۔کون یاد رکھتا ہے ہمیں آخر غریب جو ٹھہرے ہم۔۔۔آنٹی نے درد میں ڈوبی آواز میں کہا۔
آنٹی ایسی بات نہیں دراصل آپ کو پتہ ہے مصروفات بہت ہیں۔
اچھا آؤ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔آنٹی فاطمہ نے برآمدے میں پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔آؤ بیٹھو۔
رانی بیٹی !تیرے زین بھائی آئے ہیں۔چائے تو بنا لاؤ۔
آنٹی نے اپنی بیٹی کو آواز دی جو کمرے میں بیٹھی کام کر رہی تھی۔
آنٹی چائے کی کیا ضروعرت ہے۔؟ابھی آفس سے پی کر آیا ہوں۔زین نے جواب دیا۔
بیٹا!تمھارا اپنا گھر ہے۔غیروں جیسی باتیں نہ کیا کرؤ۔
پھر چائے کے ساتھ ساتھ آنٹی اور زین باتیں کرنے لگے۔**
* * *
افشاں برآمدے میں بے چینی سے کبھی ادھر کبھی ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔خد اخیر کریابھی تک پاپاجانی نہیں آئے۔پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا ۔دوسرے ہی لمحے خیا ل آیا ۔یاں آج تو انہوں نے بکرا لینے جانا تھا۔وہیں دیر ہو گئی ہوگی۔ہوا سے دروازہ بجا تو افشاں ڈور کر گئی۔پاپا جانی آگئے۔بکرا بھی لے آئے ہوں گے۔اسی خیال سے دروازہ کھولا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا۔مایوسی سے چہرا لٹکائے واپس پلٹ آئے۔نگہت بیگم،افشاں کی بے قراری بھانپ چکی تھی۔
افشان !بیٹی۔۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔میرے پاس ۔۔۔نگہت بیگم نے افشاں کو آواز دی۔
ابھی آئی مما۔افشاں نے بے قراری ،مایوسی سے دروازے سے واپس آتے ہوئے جواب دیا۔
امی ابھی تک پاپا نہیں آئے۔۔اندھیرا بہت ہو چکا ہے ۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔خدا خیر کرے۔افشاں،اپنی ماں نگہت بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
بیٹی آتے ہی ہوں گے۔تم نے انہیں کال نہیں کی۔۔۔؟
او۔۔۔مائی گارڈ،مما میں تو بھول ہی گئی۔میں بھی کتنی پاگل ہوں۔خوامخواہ پریشان ہوئی جا رہی ہوں۔موبائل کس مرض کی دوا ہے۔پاپاجانی کو کال کرکے معلوم کر لیتی۔
موبائل یاد آتے ہی افشاں اپنے کمرے کی طرف دوڑی۔موبائل اٹھایا تو زین کی کئی مس کالزموجود تھیں۔
او مائی گارڈ۔۔میں بھی ناں۔۔۔
افشاں نے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے پاپا زین کا نمبر ڈائل کر دیا۔
ہیلو پاپا جانی۔۔۔کہاں ہیں آپ۔؟
افشاں نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر لئے۔
بیٹی میں بس گھر آنے ہی والا ہوں،تم دروازے پر پہنچو۔کتنی دری سے نمبر ڈائل کر رہا تھا۔فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی۔زین نے افشاں سے کیا۔
بس پاپا موبائل اندر تھا۔اوکے میں ابھی آیا۔اس کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گیا اور افشاں ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی۔
ٹھک ٹھک،زین نے گھر پہنچتے ہی دروازہ کھٹکھٹایا۔افشاں دوڑ کر گئی اور دروازہ کھول دیا۔زین کو خالی ہاتھ دیکھ کر فورا بولی۔
پاپا بکرا میاں کہاں ہیں۔؟
وہ،،،بیٹا۔۔۔۔وہ
وہ ۔۔۔کیا؟بس۔۔۔بس رہنے دیں ۔۔۔میں نے نہیں بولنا آپ سے۔اتنے لیٹ بھی ہوئے اور بکرا بھی نہیں لائے۔میں نے مہندی تیار کر لی تھی۔اس کے لئے پھولوں کی مالا بھی تیار پڑی ہے ۔افشاں !روہانسی ہو نے لگی۔
افشاں بیٹی!میری بات تو سنو۔آؤ میرے پاس بیٹھو،زین نے بیٹی کو پیارے سے اپنے پاس بلایا۔
زین !برآمدے میں بیٹھی، نگہت بیگم کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے ،افشاں کو آواز دی۔تو وہ موڈ بناتی پاپا کے پاس آگئی۔
بیٹی۔۔۔۔میری بات غور سے سنو۔میں بکرا لینے ضرور گیا تھا۔لیکن کوئی پسند نہیں آیا ۔سوچا صبح آکر لے جاؤں گا۔لیکن جب واپس آیا تو۔۔۔۔
تو۔۔۔تو کیا ہوا پاپا۔۔؟
افشاں ،زین کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
وہ آنٹٰ فاطمہ ہیں ناں۔۔۔۔زین پھر گویا ہوا۔
ہاں کیا ہواانہیں ،بولیں ناں پاپا۔۔۔افشاں حیران ہوتے ہوئے بولی۔
بیٹی!۔۔۔۔جب میںآنٹی فاطمہ کے گھرکے پاس سے گزر رہا تھا تو اندر سے رونے کی آواز یں آرہی تھیں۔میں وہاں رک گیا ۔جب آنٹٰی کے پاس گیا تو آنٹی نے چائے پلائی۔میں نے رونے کا سبب پوچھا تو آنٹی فاطمہ نے بتایا کہ ’’رانی کی شادی کی فکر ہے ۔جو بھی رشتہ آتاہے ڈیمانڈ کی لمبی لسٹ تھما دیت ہے آپ کو پتہ ہے میرے پاس ہے ہی کیا۔؟تمھارے چچا جب سے اس دُنیا سے گئے ہیں ۔گھر کا چولہا بمشکل سے جلتا ہے۔بیٹیوں کا ساتھ اور بوڑھی ہڈیاں کیا کریں،؟
آج ہی ایک رشتہ آیا تھا انہوں نے رانی بیٹی کو پسند کیا۔لیکن ساتھ ہی لمبی چوڑی ڈیمانڈ کردی۔رانی کمرے میں کھڑی سن رہی تھی،جیسے وہ لوگ گئے رانی نے اپنے آپ کو ختم کرنا چاہا۔اب تک شاید جل بھن گئی ہوتی۔اگر میں اچانک کچن سے کمرے میں نہ جاتی۔خداکسی کو بیٹیاں نہ دے ،اگر بیٹیاں دیتا ہے تو ان کے نصب بھی اچھے دے۔
رانی !روز،روز کی باتیں سن کر دل برداشتہ ہوگئی ہے ۔کہتی ہے مر ہی جاؤں تو اچھا ہے ۔روز روز مرنے سے بہتر ہے اک ہی دن جان ختم کر لوں۔اب بیٹا میں کیا کروں۔؟میرے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے کہ تیری بہن کے ہاتھ پیلے کر سکوں۔تمھارے چچا زندہ ہوتے تو ۔۔۔۔ساتھ ہی آنٹی رونے لگی۔
میں انہیں تسلیاں دی کہ آنٹی آپ پریشان نہ ہوں ۔میں اپنی رانی بہن کی شادی کروں گااور دھوم دھام سے کرون گا۔اتنا جہیز دوں گاکہ دنیا دیکھے گی۔آپ بس جو رشتہ بھی آئے ہاں کر دیجئے گا۔باقی میں سنبھال لوں گا۔بیٹی۔۔۔میں آنٹی فاطمہ کو تسلیاں دیتا،وہاں سے لوٹ آیا ہوں ۔اب تم ہی بتاؤ میں نے غلط کیا۔
تم مجھے جان سے زیادہ پیاری ہو ۔تمھاری آنکھوں میں آنسوؤں نہیں دیکھ سکتا ،پر بیٹی رانی کو کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔ہمسایوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں ۔ان کو ہماری ضرورت ہے ۔ہم ان کے کسی کام آئیں گے تو کوئی ہمارے بھی کام آئے گا۔تمھارے لئے ہزاروں بکرے قربان کر دوں گا۔زین پیار اور درد کے ملے جلے جذبات میں بہت کچھ کہہ گیا۔آنکھیں ٹپکنے لگیں تو افشاں پاپا کے کندھوں سے لگ گئی۔
پاپا۔۔۔ایک بات بولوں۔۔
کیوں بیٹی بیٹی۔۔۔بولو۔۔
پاپا!۔۔اگر اس دفعہ ہم قربانی نہ کریں اور رانی کی شادی دھوم دھام سے کر دیں تو کوئی مضائقہ تو نہیں۔
افشاں یہ کہتی ہوئی کمرے کی طرف چلی گئی اور زین اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
نجانے افشاں یوں اچانک اند رکیوں چلی گئی ہے۔؟زین کے ذہن میں خیال آیا۔
تھوڑی دیر میں افشاں آئی تو ہاتھوں میں کافی رقم تھی۔پاپا۔۔یہ رہی میری جمع پونجی۔۔
میں اس کا کیا کروں افشاں بیٹی۔۔۔؟
پاپا۔۔۔میری طرف سے یہ روپے رکھ لیں اور رانی کے لئے کپڑے خرید لیں۔رانی کی شادی ہم دھوم دھام سے کریں گے۔عیدیں تو زندگی میں ہزاروں آتی ہیں ،ہم اگلی دفعہ بکرے میاں کو راضی کر لیں گے۔
مذاق کے موڈ میں افشاں نے پاپا سے کیا تو زین مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
عید گزر گئی تو آنٹی فاطمہ کے گھر ایک رشتہ آیا۔آنٹی فاطمہ نے فورا ہاں کر دی ۔ادھر زین نے رانی کے لئے جہیز خریدا اور خوب سامان اکٹھا کر دیا۔آنٹٰ فاطمہ زین کے صدقے واری ہورہی تھی۔افشاں رانی کو چھیڑے جا رہی تھی۔پھر وہ وقت بھی آگیا۔جب رانی اپنا پیا گھر سدھار گئی۔افشاں بہت خوش تھی۔اس نے رانی کو خوب سجایا۔مہندی لگائی۔بہت سے ڈیزائن بنائے۔تاروں کی چھاؤں میں دعاؤں کے نذرانے دیتے ہوئے دونوں باپ ،بیٹی گھر کو لوٹ آئے۔یوں افشاں اور زین کی چھوٹی سی نیکی سے ایک بیٹی ایک بہن کی زندگی بچ گئی ۔
دونوں باپ،بیٹی گھر آئے تو نگہت مٹھائی کے ساتھ پھولوں کے ہار لیے کھڑی مسکرارہی تھی۔افشاں کے لئے دوسری خوش خبری تھی۔وہ بی،اے کے امتحان میں فرسٹ آئی تھی۔اس کی قربانی کام آگئی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اسے خوشیوؤں سے نواز دیا تھا۔اور نگہت بیگم کہہ رہی تھی۔زین میں افشاں کے لئے دولہا دیکھا ہے ۔یہ سن کر افشاں شرماتے ہوئے پاپا کے کندھے سے لگ گئی۔
ختم شد
مجیداحمد جائی ملتانی۔اڈہ بلی والا،مین بہاول پور روڈ ملتان

Short URL: http://tinyurl.com/z4jdq4y
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *