نوازشیں بے وجہ نہیں

Shafqat Ullah
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: شفقت اللہ


میرے ایک قابل اور ایماندار دوست نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا اور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہو گیا اسی اثناء میں حکومت تبدیل ہوئی اور ٹھیک ایک سال بعد اس کی ترقی کمشنر کے عہدے پر ہو گئی جس کے عشائیے میں اس نے ایک دعوت کا انتظام کیا اور مجھے بھی مدعو کیا۔ فرائض کی انجام دہی پر تفصیلاََ گفتگو ہوئی اور اس نے اپنے ایمانداری کے قصے خوب انداز میں سنائے کہ دل محظوظ ہو گیا اور اس نے یہ بھی وعدہ کیا کہ آئندہ نئے عہدے پر ترقی ملنے سے چنانچہ ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن وہ اب بھی اسی ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں بر سر پیکار رہے گا اور نڈر ہو کر دن رات محنت کر کے اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔دعوت کے گزر جانے کے کئی ہفتوں بعد میرا اس کے گھر جانا ہوا لیکن میرے لئے نہایت حیران کن تھا کہ جیسے میں لاہور میں کسی گھر میں نہیں بلکہ پیرس کے کسی بنگلے میں آ گیا ہوں خیر اس سے ملاقات ہوئی اور اس سے میں نے سوال کیا کہ سناؤ کیسی چل رہی ہے جاب اور اتنی جلدی یہ سب کچھ کیسے بنا لیا بھائی کونسا کاروبار شروع کر لیا ہے جو اتنی جلدی اتنی بڑی جائیداد کے مالک بن گئے ہو !تو کہنے لگا کہ بس یہ حکومت کی کرم نوازیاں ہیں وہ دے رہے ہیں اور میں ان کا کام کر رہا ہوں اس کے اس غیر متوقع جواب نے میرے ذہن میں عجیب سی کشمکش سی پید اکر دی کہ پہلے بھی تو یہ سرکار کا کام ہی کر رہا تھا تب تو اتنا کچھ نہیں تھا تو میں نے ششدر ہو کر پوچھا کہ کیا مطلب تمہاری اتنی تنخواہ ہو گئی ہے ؟ اس نے جواباََ منفی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھائی میرا اتنا تجربہ تو تھا نہیں اور نہ ہی میرا حق بنتا تھا اس سیٹ پر یہ تو حکومت نے کرم نوازی کی اور مجھے اس سیٹ پر لا بٹھایا اب مجھے بھی حکومت کے کام کرنے پڑتے ہیں۔ان کا پیٹ بھرتے ہیں ان کیلئے پارٹی فنڈز اکٹھا کرتے ہیں جو الیکشنز میں ان کے کام آتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ہمارا بھی خیال رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان لوگوں سے بنا کر رکھو تو ہمارا بھی پردہ بنا رہتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعدکی زندگی میں بھی بہت سے فوائد ملتے ہیں جو کسی آرمی ریٹائرڈ آفیسر کو نہیں ملتے۔ اگر ہم سوچیں اور تھوڑا سا وقت کی سوئی کو الٹا گھمائیں تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا یہ ’ساڈا بندہ ‘والی ایک اور کہانی بھی سامنے آتی ہے کہ جب مصر میں تحریر سکوائر لکھی گئی تھی ۔2013 میں مصر کے صدر محمد مرسی کے خلاف ایک تحریک چلائی گئی اور صدر مرسی نے جنرل حسنی مبارک کا تختہ الٹا یا تھا جس نے ڈکٹیٹر شپ قائم کی ہوئی تھی اور عوام نے بڑے جوش و جذبے سے محمد مرسی جو کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے اور سیکولرازم اور لبرل ازم کے محالف تھے کو صدارت کے منصب پر بٹھایا اور پھر اسی عوام اور صدر کے بیچ ٹھن گئی! لیکن اس سے پہلے جب محمد مرسی نے منصب سنبھالا تو اس نے فوج میں سے ایک بندہ ڈھونڈ کر نکالا جس کے خیالات اخوان المسلمون سے ملتے جلتے تھے اور اس نے ایک تحریر بھی لکھی تھی کہ جمہوریت اسلام پسند ہونی چاہئے اس میں سیکولر ازم نہیں ہونا چاہے وغیرہ وغیرہ یعنی اس کی سوچ اخوان المسلمون کے ایجنڈے سے ملتی جلتی تھی جس کی بنا پر حسنی مبارک کے تخت حکومت کو الٹایا گیا تھا لیکن ٹھیک ایک سال بعد وہی اخوان المسلمون کے لوگ اور عوام اس جنرل کو فرعون جیسے القابات سے پکارنے لگی اور دعائیں کرنے لگی کہ کاش یہ حسنی مبارک ہوتا اس ’ساڈے بندے‘ کا نام جنرل سیسی تھا ۔پاکستان کی تاریخ میں بھی ساڈے بندے والی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیا ء الحق کو ’ساڈا بندہ‘ بنا کر فوج کاسربراہ مقرر کیا تو اسی نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا دیا اور پھر اس کو پھانسی پر بھی لٹکایا ۔جنرل ضیا ء الحق نے ہی نواز شریف کو بنایا اور اس منصب تک لے کر آیا لیکن میاں صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ میاں صاحب کے سابقہ دور حکومت میں جب پرویز مشرف کو فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تو اسی نے ٹھیک دو سال بعد میاں صاحب کے تخت حکومت کو پلٹا اور خود حکومت کی اس طرح سے ’ ساڈے بندے ‘والی مثالیں اب بھی سامنے آ رہیں ہیں لیکن اس بار حالات کچھ الگ نظر آ رہے ہیں ۔نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری بڑی ڈھونڈ کر اور سوچ وچار سے کی گئی ہے کیونکہ جب اسلام آباد میں دھرنا ہوا تو اس وقت وہاں پر ٹین(10) کور کے کمانڈر جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ہی تھے لیکن میاں صاحب شاید یہ بھول گئے کہ جب جب پرویز مشرف اسلام آباد میں اپنے گھر سے ہسپتال جاتے اور راولپنڈی میں ہسپتال میں داخل بھی رہے تو اس وقت ان کی سیکیورٹی کے مکمل انتظامات بھی جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ہی سنبھال رہے تھے اور جنرل راحیل شریف کے جانے کے فوری بعد ہی رانا ثنا ء اللہ بیان دیتے ہیں کہ نئی وزارتو ں سے اب انہیں آزادانہ کام کرنے کا موقع ملے گا مطلب جو پہلے انہوں نے پنجاب میں آٹھ سال گزارے ہیں اس وقت انہیں کبھی موقع ہی نہیں د یا گیا یا یہ کسی بھَؤ سے ڈر کر چھپے ہوئے تھے کہ وہ ہمیں کھا جائے گا؟پاناما کیس کا سلسلہ شروع ہوا اور اب کی بار جب تحریک انصاف پھر سے دھرنا دینے لگی تو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے عمران خان کو اعتماد میں لیتے ہوئے پاناما کیس پر تحقیقات کو روزانہ کی بنیا د پر کروانے کی ذمہ داری اٹھائی اور خود ہی ایک بنچ بنایا اور پھر خود ہی اس کے ممبر بھی بنے لیکن وہ روزانہ کی بنیاد پر شنوائی تو ممکن نہ ہوسکی اور اب وہ ریٹائر بھی ہو گئے ہیں اور پاناما کی سماعت بھی آئندہ سال کے پہلے ماہ میں چلی گئی ہے جس کیلئے اب چیف جسٹس ثاقب نثار پھر سے بنچ بنائیں گے اور شنوائی شروع کریں گے ۔ اگر نئے آنے والے چیف جسٹس کی زندگی کا تھوڑا سا مطالعہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ جب 1997 میں میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ پر دھاوا بولا تھا تو اس وقت جسٹس ثاقب نثار وفاقی لاء سیکرٹری تھے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہو ا تھا کہ کوئی وکلا ء چیمبر سے لا ء سیکرٹری بنا ہو !جب میاں محمد نواز شریف سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ کے کیس سے بری ہوئے تو اس کے بعد ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ میں جج تعینات کیا گیا !سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے دوبارہ بحال ہونے کے بعد ثاقب نثار کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کر دیا گیا !آصف علی زرداری نے 2010 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سے سفارش کی کہ ثاقب نثار کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جائے اور افتخار چوہدری نے ٹھیک دو گھنٹے کے دوران آصف علی زاداری کے صدارتی حکم کہ جسٹس خواجہ شریف کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعینات کیا جائے کے خلاف سو موٹو نوٹس لیا اور پھر خود ہی تین رکنی بنچ بنا کر صدارتی حکم کو ختم کر دیا اس طرح سے ثاقب نثارنے اپنا راستہ صاف کیا اور اب وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر تعینات ہونے والے ہیں یعنی یہاں بھی ’ساڈے بندے ‘والی رسم قائم ہے یہاں ایک بات صاف سی ہے پاکستان میں نیچے سے اوپر کسی بندے کو لانا اور اس کی ترقی کیلئے راہیں ہموار کرنے کے پیچھے مفادات وابستہ ہو تے ہیں اور نوازش والے بندے سے طرح طرح کے قانونی اور غیر قانونی کام لئے جاتے ہیں پاناما لیکس کا معاملہ اس بار بھی اختتام پر اس بات کی تائید کرے گا کہ حکومتی نوازشوں والے بندے کس طرح ان کے ممنون و مشکور رہتے ہیں ۔

Short URL: http://tinyurl.com/jyty4yg
QR Code: