مردہ بھیڑیں اور آبشار۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

جوا ء کھیلتے دیہاتی جوان جوا کھلانے والے مکاراوپولیس کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ میرے لئے کوئی نیا نہیں تھا۔جو لوگ چولستان کے سے واقف ہیں انہوں نے صحرا کے عیں وسط میں لگنے والا میلہ چنن پیردیکھا ہو گا یا اس کا نام تو ضرور سنا ہو گا ۔یہ میلہ فروری کے آغاز سے شروع ہو کر اپریل کے پہلے ہفتے تک سات جمعراتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔پانچویں جمعرات پر میلہ عروج پر اور میلہ لوٹنے والے بھی پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔دیہاتیوں کے لئے یہ میلہ عید سے بڑھ کر ہوتا ہے۔لوگ منتیں پوری ہونے کے بعد آٹا اور گھٹا لے کر چڑھاوا چڑھانے آتے ہیں ۔پانچویں جمعرات کو بہاولپور شہر میں لوکل چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔مجھ جیسے شہری لوگوں کے لئے آغاز یا آخری جمعرات کو جانا مناسب رہتا ہیتاکہ دھکم پیل کم ہو اور صحرا کے رنگ ٹھیک سے دیکھنے اور قدرت کی کرشمہ سازی کا بغور جائزہ لینے کا موقع ملے۔ویسے تو ہر میلے پر جھولوں پنگوڑوں مٹھائی کی درجن بھر دکانوں کے علاوہ جوئے کے اسٹالز بھی کامن ہوتے ہیں ۔میں بچپن سے اس میلے کا ریگولر سیاح ہوں۔میلے کا ماحول اور رنگینیاں پھر کبھی پیش خدمت کروں گا ۔اس دفعہ بھی مصروف دوستوں کی متوقع بے وفائی کے بعد دنیا کی نظر میں ویلے مگر کھل کر زندگی جینے والے چار دوستوں کو ساتھ لیا منڈی یزمان سے چند کلومرغی اور دودھ کے ڈبے تھوڑی بہت سبزی اور مصالحے لے کر شام ڈحلنے سے پہلے میلے میں جا پہنچے ۔خبر ملی کہ اب باقاعدہ میلے کے دنوں کے لئے سرکار نے ایک پولیس چوکی قائم کر دی ہے تاکہ شعور سے لبریز عوام اور با سلیقہ ہجوم کو قابو میں رکھا جا سکے یہ میری سوچ تھی کہ پولیس چوکی قائم ہو جانے کا ہم بھولے پاکستانی اس سے زیادہ بھلا کیا مقصد اخذ کر سکتے تھے۔دو موبائلز بھی گشت کرتی نظر آرہی تھیں ۔یوں لگ رہا تھا جیسے صحرا قانون کے بے رحم شکنجے میں جکڑا ہے۔سو میں امید کر رہا تھا کہ کوئی دیہاتی شراب کے نشے میں دھت پڑا نظر نہیں آئے گا۔کوئی ریتلے ٹیلوں پر موٹر سائیکل یا ٹریکٹر کے جان لیوا کرتب دکھاتا ہوا نہیں ملے گا۔ہر طرف ڈسپلن ہی ڈسپلن ہو گا۔میری تمام سوچوں پر کالی وردی والے جیالوں نے کالک پھیر دی جب میں نے جوئے کے درجن بھر سے زائد اسٹالز کو آباد اور پر رونق دیکھا ۔پولیس والے اسٹالز کے گردا دگردکھڑے اپنی توندیں سہلا رہے تھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔میں سوش رہا تھا کہ آج پولیس موجعد ہے تو جوئے کے اسٹالز کا تو نام و نشان نہیں ہو گا ۔مجھے اپنی سوچ پر پہلے تو ہنسی آئی پھر میں نے اپنے بھولے پن اور سوش پر ہزار بار لعنت بھیجی۔یوں لگ رہا تھا جیسے پولیس والے اس صحرائی جوا خانہ کے محافظ اور انچارج ہوں ۔ایک جوا اسٹال کے پاس بے بسی کی مورتی بنے ایک کانسٹیبل کو میں نے قابو کر لیا پوشھا کہ میاں کیا کر رہے ہو کیا عہدہ ہے تمہارا۔تو اس نے کمال معصومیت سے بتایا کہ جی میں تو رضا کار ہوں ۔جبکہ اس کے شولڈر پر پولیس کا بیج لگا تھا نہ کہ پولیسر کا ۔میں نے جب استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ میں کانسٹیبل ہوں ۔میں نے بھی اس کی طرح کی بھولی صورت بنا کر کمینی سی معصومیت چہرے پر سجا کرجواء اسٹالز کی طرف اشارہ کر کے پوچھا میاں یہ کیا ہو رہا ہے۔اس نے بھی کمال لا پرواہی سے بتایا کہ جناب بے چارے معصوم دیہاتی چھوٹے موٹے کھیل کھیلنے میں مصروف ہیںیہی کھیل تو اس صحرا میں ان کی واحد خوشی ہیں۔میری ہنسی چھوٹ گئی ۔میں نے اس کے نالج میں یہ بتا کر اضافہ کیا کہ میاں ان کھیلوں کو جواء کہتے ہیں۔یہ جواء نما کھیل ۹۹ ۱۹ میں لاہور داتا دربار کے میلے پر بھی کھیلے جاتے تھے آج کا پتا نہیں ہو سکتا ہے آج بھی بھولے پولیس والے اپنی سربراہی میں وہاں بھی یہ کھیل منعقد کروا رہے ہوں۔میں نے آخری سوال پوچھا کہ یہ وردی پبلک ٹیکس منی سے خرید کر تمہیں یہاں قانون کا رکھوالا بنا اس لئے کھڑا کیا گیا ہے کہ تم قانوں نافذ کرو نہ کہ تم خود وانوں کی عزت ان جواء اسٹالز کے درمیان بے بس شکل بنا کر ان دیہاتیوں سے تار تار کرواؤ۔میرے بار بار پوچھنے پر اس نے اپنی تعلیم نہ بتائی یہی جواب دیتا رہا کہ میں پرائمری پاس ہوں ۔اس کا کھوکھلالہجہ اس کے جھوٹ کا پول کھول رہا تھا ۔ڈرتے جھجکتے اس نے اتنی زبان کھولی کہ یہ سب کچھ چوکی انچارج اے ایس آئی کروا رہا ہے۔وہ انچارج موصوف بھی کچھ فاصلے پر موبائل وین میں براجمان عمیق نظروں سے جواریوں کے ہجوم کا جائزہ لے کر شائد یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کونسے اسٹال والا ٹاپ پر جا رہا ہے۔ایک دوست نے بتایا کہ پولیس نے تین لاکھ نذرانہ قبول کر کے ان جواء اسٹالز کو معصوم کھیلوں کے ٹائیٹل سے نوازا ہے ۔مجھے تو یہ بھی شک ہے کہ پولیس حفاظت پر مامور اور ان کے ٹاؤٹ جواء کھلانے میں مصروف تھے۔یہ ایک کانسٹیبل یا چوکی انچارج کی جسارت نہیں کہ وہ قانون کی وردی سجا کر شہروں سے لے کر صحراؤں لوٹ مار اور رشوت کے بازار سجا دیں۔یہ سب اوپر والے مہربانوں کی ملے بھگت اور اجازت سے ہوتا ہے۔ہماری ہر آبشار کے اوپر پڑے پتھروں کے پیچھے ایک مردہ بھیڑ پڑی ہے۔اس کی سڑاہند ہر آبشار کر پانی کو آلودہ کر رہی ہے۔یہ پانی پی کر تمام معاشرے کی طبیعت گندی اور غلیظ بن شکی ہے۔بے چارے کانسٹیبل کو کیا دوش دینا جسے انچارج نے ٹارگٹ دے رکھا ہے۔ اس انچارج کو اس کے انسپکٹر نے ٹارگٹ کے حصول کی خاطر دبا رکھا ہے ۔یہ سب چلتا چلاتاٹاپ تک جاتا ہے اورہر کچھ عرصے بعد پانامہ لیکس کی طرح بدبودار آتش فشاں پھٹتا ہے جو ہم سب کو اوقات بتا دیتا ہے۔دنیا میں اس لیکس کے دھماکے کے بعد کہیں احتجاج ہو رہا ہے کسی ملک کا وزیراعظم مستعفی ہونے کا اعلان کر رہا ہر تو کہیں پارلیمنٹ کا گھیراؤ ہو رہا ہے۔ہمارے ملک میں بچے کا فیڈر گم ہو جانے پر احتجاج کرنے والوں سے لے کر ایوانوں تک سب یوں خاموش ہیں جیسے ان کے لئے معمول کی بات ہے کسی کے ضمیر پر ایک جوں تک نہیں رینگی۔نہ کوئی جلوس نکلا نہ کسی نے استعفی دیا نہ احتجاج ہوا کمیشن بنے گا اس کے اوپر ایک اور کمیشن بنے گا پھر دھول چھٹ جائے گی۔مطلع صاف ہو جائے گا۔کرپشن کے نئے افق ہوں گے۔نئے ہیرو نئی داستانیں نئے کارنامے۔جب کرتوت اتنے کالے ہیں ضمیر اتنے ننگے ہیں تو پھر شور نجانے کس بات کا ہے۔چہرے کیوں ہر بم دھماکے کے بعد دکھی ہو جاتے ہیں ۔یا وہ زخم خوردہ بیانات محض عوام کو خوش کرنے اور چینلز پر کاروائی ڈالنے کے لئے ہیں۔جس نے بھی اس ملک کو مذاق بنانے کی کوشش کی وہ خود تاریخ کے صفحات پر لطیفے کی صورت میں رقم ہو گیا۔آرٹیکل 6کا شور دب گیا ۔دیکھتے ہیں پانامہ لیکس کے دھماکے کو دبانے کے لئے کونسا دھماکہ ہوتا ہے۔کونسا اسٹیج سجایا جاتا ہے۔بھولے ہم وطنو انتظار کرو۔

Short URL: http://tinyurl.com/h7hdymg
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *