موت سے زندگی تک۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

زندگی کی لکیر دھیرے دھیرے مدھم ہوتی جا رہی تھی۔موت اپنی جگہ بناتی جا رہی تھی ۔سانسوں کی کشتی ا مید اور نا امیدی کے درمیان ڈول رہی تھی۔دعائیں ہی واحد سہارا تھیں ۔ہر طرف نالیاں ہی نالیاں تھیں ۔مصنوعی سانس کی نالی ،خوراک کی نالی ،پیشاب کی نالی اور بازو میں پیوست ڈرپ۔میرے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہاتھا۔چار دن پہلے تو والد صاحب بھلے چنگھے تھے اور اب نالیوں کے گنجلوں میں الجھے ساکت و جامد پڑے تھے ۔ڈاکڑحضرات پہلے ہی دعاؤں کا مشورہ دے چکے تھے۔میں نے ایک نظر ادویات کے چارٹ پر دوڑائی اچٹتی سی نظر خوراک کے ٹائم ٹیبل پر ڈالی زندگی میں پہلی بار والد صاحب کے سر پر ہاتھ پھیرا جیسا کہ وہ کبھی بچپن میں میرے سر پر پھیرا کرتے تھے۔میرے اندرایک ہی فقرہ گونج رہا تھا کہ ابا جی شائد آپ کا اور ہمارا ساتھ یہاں تک ہی تھا۔کچھ دیر ہاسپٹل کے بنچ پر بیٹھا معصوم ماضی اور بچپن کو یا د کرتا رہا۔اس کے بعدہم نے نالی کے ذریعہ خورا ک دینا شروع کر دی۔تین سے چار خوراکیں دینے کے بعدابا جی نے آنکھیں کھول دیں۔دعائیں جیت گئیں۔چند دن ہاسپٹل میں گزارنے کے بعد ابا جی گھر آگئے ہماری زندگیوں میں تو سکون آگیا لیکن ابھی اور کئی دکھی لوگ ہسپتالوں میں ہیں جن کے مسائل لا تعداد ہیں اور حل طلب ہیں۔لائف میں دوسری دفعہ مجھے سرکاری ہسپتالوں کے سسٹم کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے صحت کے شعبہ میں بہت ورک آؤٹ کیا ہے۔وارڈز صاف ستھرے ہیں ۔اکشر ادویات بھی مفت مریضوں کو دی جا رہی ہیں ۔ائیر کنڈیشنرز بھی لگے ہوئے ہیں نہ صرف لگے ہیں بلکہ آپریٹو بھی ہیں ۔عملہ بھی موجود ہے ڈاکٹرز بھی آن ڈیوٹی ہیں ان کا رویہ بھی کافی حوصلہ افزا ہے ماسوائے چند ایک کو چھوڑ کر کہ ہرجگہ چند لوگ تو ایسے ہوتے ہی ہیں ۔پاکستان جیسے ملک میں ان کی تعداد چندایک ہونا بھی غنیمت ہے۔ابتدائی دو روز میں میرے والد سانس لینے کے لئے مکمل طور پر آکسیجن پر ڈی پینڈنٹ تھے میں ڈرا ہوا تھا کہ کہیں آکسیجن وارڈ میں ختم نہ ہو جائے ۔میں نے ڈاکٹرز سے پوچھا کہ اگر کوئی ایشو ہے تو میں باہر سے آکسیجن سلنڈرلے آؤں اس سب کا کریڈٹ بی وی ایچ پلمونولوجی وارڈ کے ہیڈ اور تمام ڈاکٹرز کو جاتا ہے۔کچھ مریضوں کے لواحقین نے آکسیجن پلانٹس بھی تحفہ میں ہاسپٹل کو دےئے ہوئے ہیں جو ایک قابل تحسین اقدام اور صدقہ جاریہ ہے۔یہ تو تھا تصویر کا مثبت رخ۔تصویر کا منفی رخ ابھی باقی ہے۔جو تاریک ضرور ہے مگر قابل حل ہے۔تمام نرسنگ سٹاف میں سے دو نرسز کا رویہ کافی اچھا تھا میں حیران تھا کہ باقی سب سٹاف کا کاٹ کھانے والا رویہ ایک طرف اور ان دو نرسز کا رویہ ایک طرف مجھے رویوں کے اس زمیں اور آسمان کی جب قطعی سمجھ نہ آئی تو میں نے وارڈ کے سویپر کی خدمات حاصل کیں ۔میرا سوال اس کے لئے قطعی غیر متوقع تھا پہلے تو اس نے میری طرف شکی نظروں سے دیکھا مگر میں نے اس وضاحت کی کہ میں تو بس ان دو نرسز کے مریضوں کے ساتھ نرم اور ہمدردانہ روےئے کی وجہ سے یہ سوال پوچھ بیٹھا ہوں ۔میرا خیال ٹھیک تھا وہ دونوں نرسز انڈر ٹریننگ تھیں باقی سب پکی سرکاری ملازم تھیں ۔ان دونوں کے روےئے کا فرق ان کی کچی نوکری کی وجہ سے تھا اور باقی سب کے جارحانہ روےئے کی وجہ رج کھانے کی مستی تھی۔میں نے ان دو سسٹرز سے جب پوچھا کہ کیا آپ بھی ریگولر ہونے کے بعد مریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح باقی سینئرز جیسے ٹریٹ کرنا شروع کر دیں گی جواب ایک معنی خیز مسکراہٹ تھا جیسے مجھے بتا رہی ہون کہ سوال کے اندر ہی جواب موجود ہے ۔یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ادارے ڈوبتے جا رہے۔میں نے چند بار پرائیویٹ ہاسپٹلز میں بھی جا کر سٹسم کا مشاہدہ کیا ہے وہاں سٹاف کا بی ہیو ضرورت سے زیادہ کو آپریٹو ہوتا ہے جس کی وجہ کمپلینٹ کی صورت میں نوکری سے نکالے جانا ہوتا ہے۔سرکار میں تو لوگ بدتمیزی کرنے کے لئے مکمل آزاد ہوتے ہیں۔اول تو کسی صارف کی کمپلینٹ کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بھلا کون بیرلیتا ہے کیونکہ تمام ملازمین اپنے پیٹی بھائی یا بہن کا بدلہ کچھ اس طرح سے لیتے ہیں کہ صارف کو رول دیتے ہیں۔سرکار اگر چیک اینڈ بیلنس رکھے اور اپنی انرجی مختلف یونین گینگز پر مرکوز کرے تو صورتحال کافی سے زیادہ بہتر ہو جائے گی۔مریضوں کے لواحقین جو بے چارے دور دراز سے آ کر لا وارثوں کی طرح پلاٹوں برآمدوں میں راتیں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کے لئے بھی سرکار کو سوچنا چاہےئے۔کسی گھر میں کوئی خدانخواستہ بیمار ہو جائے تو اس گھر کا تمام نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔سرکار کو کینٹین اور اسٹے ہالز تعمیر کرنے چاہئیں تاکہ لواحقین کو کچھ تو ریلیف ملے ۔اس کا بہترین حل تو چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کو ماڈرن سہولتوں سے آراستہ کرنا ہے جو کہ آسان کام نہیں ۔زندگی بڑی قیمتی چیز ہے اس کی حفاظت کرنا اور قدر کرنا ہم سب پر فرض ہے ۔مریض بھلے جتنا ہی جاں بلب ہو ہسپتال ضرور لے کر جائیں ۔میڈیکل سائنس نے بلا شبہ بہت ترقی کی ہے ۔میں دل سے اس شخص کے لئے دعا گو ہوں جس نے خوراک کی نالی ایجاد کی ۔میں اس جادو کی نالی کہتا ہوں اس کی مدد سے لیکیوڈخوراک ڈائیریکٹ معدہ میں پہنچتی ہے اور معدہ اسے ہضم کر کے جسم کو انرجی دیتا ہے ۔میں آج سے پہلے تک یہی سمجھتا تھا کہ خوراک کی نالی لگنے کا مطلب ہے کہ مریض کا آخری وقت ہے ۔کرتا سب اوپر والا ہے کوشش کرنا ڈاکٹرز کا اور لواحقین کا فرض ہے اور یہ فرض عبادت سمجھ کر ادا کیا جائے تو میرا یقین ہے کہ اس کئیر سے کئی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔اس دن سے مجھے جب بھی کوئی اسموکر ملتا ہے تو میں پیار سے اس سے اس بری عادت کو چھوڑنے کی درخواست ضرور کرتا ہوں کیونکہ اس عادت کا انجام بہت برا ہے ۔اپنی فیملی اپنے بچوں سے پیار کریں ان کے پیار کو دھوئیں میں نہ اڑائیں ۔دھواں پیار کے ساتھ ساتھ صحت اور پیسے کو بھی چوستا ہے۔وقتی چسکے کی خاطر مستقل روگ لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایک سبق جوں ہی کوئی بیمار ہوفورا ہسپتال کا رخ کریں۔سیلف میڈیکیشن کی وجہ سے نیند کی گولیوں کی ڈوز اوور ہونے کی وجہ سے میرے والد ہسپتال تک جا پہنچے تھے ۔کسی بھی قسم کی دوائی استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔چھوٹی چھوٹی احتیاطیں بہت سے دکھوں کو ٹال سکتی ہیں۔زندگی کے ساتھ casual
کسی طور زیب نہیں دیتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/zo8adco
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *