بین الاقوامی دن برائے جبری لاپتہ افراد

Print Friendly, PDF & Email

اسلام آباد (ایف یو نیوز) ہر سال 30 اگست کا دن جبری گمشدگی کے خاتمہ کی جدو جہد کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کی حکومتیں جبری گمشدگی کو عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر سیاسی اور ادارہ جاتی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے کے لیے استعمال کرتیں ہیں۔ یاد رہے ایسے لاپتہ افراد کو جبری گمشدہ کہا جاتا ہے جن کوحکومتی سرپرستی میں اغوا کر کے خفیہ قید خانوں میں پہنچا دیا جاتا۔ کوئی حکومتی ادارہ ان کی حراست کا اقرار نہیں کرتا۔ ماں باپ اور عزیز اقربا جبری لاپتہ فرد کی زندگی یا موت کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہوتے ہیں۔
اس سال بھی ملک کے مختلف شہروں میں جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ڈیفینس آف ہیومن رائٹس پاکستان (ڈی ایچ آر پاکستان) کی طرف سے ایک کانفرنس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی طرف سے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکا نے ریلی میں بھی بھرپور شرکت کی۔
“جبری گمشدگی ۔ انسانیت کے خلاف جرم” کے موضوع پر کانفرنس اسلام آباد پریس کلب میں منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت جناب افراسیاب خٹک نے کی۔ اس کے علاوہ دیگر شرکاء4 میں ممتاز سماجی شخصیت اور ایچ آر سی پی کی بانی رکن محترمہ طاہرہ عبداللہ، ڈی ایچ آر کی چیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ، جنرل سیکریٹری سپریم کورٹ بارجناب اسد منظور، جنرل سیکریٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بارجناب ملک وقاص، اڈووکیٹ شہزاد اکبر، اڈووکیٹ سپریم کورٹ راجہ ذوالقرنین نے بھی شرکت کی۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے خطاب میں کہا ” میں ہر سال لاپتہ افراد کا دن اس عزم اور یقین کے ساتھ مناتی ہوں کہ یہ سال اس ازیت کا آخری سال ہو گا۔ مگر بدقسمتی سے میری طرح ہزاروں مظلوموں کی آج تک کوئی داد رسی نہیں کر ہو سکی۔ اس سال بھی اگرچہ میرے لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کے والد کرنل راجہ علی محمد کا چند دن پہلے ہی انتقال ہوا ہے مگر میں نے لاپتہ افراد کے عالمی دن کے حوالے سے کوئی بھی ایکٹیویٹی منسوخ نہیں کی۔
انہوں نے مذید کہا کہ لوگوں کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اغوا کر کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا مگر اس کے بعد آنے والی سیاسی حکومتوں نے نہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئی اقدام نہ کیا بلکہ جبری گمشدگی کو مخالف آرا کو کچلنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ جس کی ایک مثال پچھلے سال نومبر 2015 میں ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کے ایک رضا کار رضوان اکرم نیازی کا ایلیٹ فورس کے ہاتھوں اغوا ہے۔ دس ماہ ہونے کو آئے ہیں مگر رضوان نیازی کا کچھہ پتہ نہیں ہے۔
تقریب کے بعد کانفرنس کے شرکاء4 اور مندوبین کانفرنس ہال سے نکل کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر انتظام ریلی میں شامل ہوگئے اور پریس کلب سے سپر مارکیٹ تک مارچ کیا۔ ریلی میں شریک لوگوں نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی اور انسانیت کے خلاف اس جرم کے خاتمی کے لیے مطالبات درج تھے۔
سیمینار اور ریلی کے انعقاد کے بعد ڈی ایچ آر پاکستان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں حکومت سے درج ذیل مطالبات کیے گئے ہیں۔
۔1 تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے۔
۔2 انسانی حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی معاشی اور نفسیات بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔
۔3 جبری گمشدگی کو جایز قرار دینے والے قوانین مثلا ایکشن ان ایڈ ریگولیشن، تحفظ پاکستان ایکٹ اور فوجی عدالتوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور جن ان میں سے جن قوانین کی مدت ختم ہو چکی ہے ان کو دوبارہ بحال نہ کیا جائے۔
۔4 پاکستان کے سرکاری ادارہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے ایکٹ میں سماجی اداروں کی تجاویز کے مطابق ایسی ترامیم کی جائیں جس کے ذریعے یہ ادارہ عملی طور پر فعال اور جبری گمشدگی سمیت پاکستان میں ہر سطح پر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر کاروائی کرنے کا مجاز ہو سکے کیونکہ فی الحال یہ ادارہ جبری گمشدگیوں کی شکایات پر کاروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
۔5 جبری گمشدگی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنوشن کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قانون میں جبری گمشدگی کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔
۔6 انسانی حقوق کے متعلق قانون سازی کے دوران ڈیفینس آف ہیومن رائٹس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے سماجی اداروں کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jnbt5c8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *