جنا تھا ماں نے آزاد!یہ محکوم کس نے بنایا؟

Rasheed Ahmad Naeem
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:رشید احمد نعیم،پتوکی


ہمارے وفاقی و صوبائی وزراء کے بیانات پڑھنے اور سننے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز میں ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔لوگ پُرسکون اور آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔عوام کوضروریاتِ زندگی میں کسی قسم کے فقدان کا سامنا نہیں ہے ۔لوگ بنیادی ضرروری سہولتوں سے اس طرح مسفید ہو رہے ہیں کہ خوشی و مسرت ان کے چہروں سے عیاں ہو رہی ہے اور اطمینان سے ان کے چہرے چمک و دمک رہے ہیں۔ہر طرف امن و سلامتی کی ایسی فضاء قائم ہے جو چشمِ فلک نے گزشتہ ادوار میں کبھی نہیں دیکھی۔مہنگائی اپنی موت آپ مر چکی ہے۔روزگار خود لوگوں کے دروازے پہ صبح و شام دستک دیتا ہے ۔عوام کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا اس قدر یقین ہے کہ بے فکری کی نیند سوتے ہیں۔چادراور چاردیواری ہر لحاظ سے اور ہر وقت محفوظ ہے۔تعلیم و صحت کی نعمت سے مالا مال ہیں مگر عوام کا کیا حال ہے ؟؟؟ عوام کیا سوچتی ہے ؟؟؟ ان پر کیا بیت رہی ہے ؟؟؟ وہ کن مشکلات سے دو چار ہے ؟؟؟وہ موجود حکومت سے کتنی مطمئن ہے؟؟؟چکوال سے محترمہ نمرہ ملک صاحبہ کا ایک مراسلہ موصول ہے ۔وہ لکھتی ہیں’’ محترم رشید احمد نعیم صاحب ! اسلام علیکم مراسلہ ہذا کے ذریعے عرض ہے کہ چند دن پہلے محلہ عید گاہ میں تین نوجوانوں نے اک محنتی دوکاندارآصف کو اس وقت گن پوائینٹ پہ روک لیا جب وہ سارا دن کی محنت وصول کرنے کے بعد واپس گھر جا رہا تھا۔دوکاندار نے نوجوانوں کی زبردستی کرنے پہ مزاحمت کی تو ان نوجوانوں نے اسے بلا جھجھک گولی مار دی۔ان نوجوانوں نے نہ صرف آصف کو اس کی محنت کی کمائی سے محروم کر دیا بلکہ اس کے گھر والوں کو کفیل سے بھی محروم کر دیا۔ پندرہ منٹ میں نہ صرف ایک ڈکیتی کی واردات کو جنم دے کے کئی سوالوں کا خلا چھوڑ دیا گیابلکہ سیکیورٹی اداروں کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے کہ اک بھرے اور با رونق محلے میں اک فرد کیسے جان و مال ہار بیٹھا اور پھر اس کے خاندان کو اب تک کیا انصاف ملا ہےِ؟یہ سوال ہماری انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی ناخداؤں کے منہ پہ بھی تمانچہ ہے جو روز نئے نئے سیاسی نعرے لگا تے اور اپنی سیاسی دوکان کو’’ بڑھاوا ‘‘دیتے ہیں۔ہمارے قومی اسمبلی میں بیٹھے نمائندوں کے اس دعوے کی بھی قلعی کھل گئی ہے جو کہتے پھرتے ہیں کہ تعلیم،بجلی،سڑکیں اور صحت کی سہولتیں پہنچانا ان کی اولین ترجیح ہے۔بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا (جن کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے کیونکہ روزگار کے بغیر زندگی کی ڈور کا چلنا ناممکن ہوتا ہے)اور کرائم سٹریٹ جیسی وارداتوں میں وہ فوراً مجرم کو کان سے پکڑ کے مظلوم کے سامنے لانے کا دعوٰی بھی یوں کرتے ہیں جیسے کہ ہم ماضی میں ان سے ناواقف رہے ہیں ۔تعلیمی اداروں میں تمام سہولتوں کے باوجود اساتذہ پہ ذہنی دباؤ کے ڈنڈے پنجاب حکومت کے دعووں کی مکمل نفی کرتے نظر آتے ہیں ۔سڑکوں کی حالت زار پہ اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب کچھ لکھنا بھی ان سڑکوں کو اپنی توہین لگتاہوگا کہ مہذب لوگ توسڑکوں پہ مارے جانے والے کتے کے حقو ق پہ بھی کیس کر دیتے ہیں مگر یہاں جگہ جگہ ہونے والے حادثات میں ہمارے روشن ضمیر مہذب لوگ کہاں چلے جاتے ہیں ؟ لاہور کو چھوڑ کر پنجاب میں سڑکوں کی حالت اتنی بری ہے کہ اچھے خاصے بندے کو متلی ہونے لگتی ہے۔جگہ جگہ گڑھے اور کھلے مین ہول سیاسی دعووں کے منہ پہ زبردست’’ جھانپڑ‘‘ رسید کرتے نظر آتے ہیں۔بارش میں سڑکیں تالاب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ’’ طوفان نوحؓ ‘‘کی’’ باقیات‘‘ ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کا شرف چکوال کی عوام کو ہو رہا ہے۔کرائم سٹریٹ،گلیوں، نالیوں اور سڑکوں کی نا گفتہ بہ حالت اور ہماری انتظامیہ کی بے حسی دیکھ کر لگتا ہے ہم’’ رومن دور ‘‘کے اکھاڑوں میں ’’گھسٹتے ‘‘وہی لوگ ہیں جو حکمران جماعتوں کے لیے’’ انجوئے منٹ ‘‘کاباعث بنتے تھے ۔سٹریٹ کرائم کے بڑھنے پہ جس طرح ہمارے عوامی نمائندے اور ضلعی انتظامیہ چپ سادھے بیٹھی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے’’ ہم قبل مسیح دور‘‘ میں جی رہے ہیں جہاں لوگوں کو اونٹوں کے پیچھے باندھ کے ان کے جسموں کو روندا جاتا تھا اور اس تماشے پہ جی بھر کے محظوظ ہوا جاتا تھا۔ہمارے سیاسی رہنما بھی روز’’ رومن اکھاڑوں‘‘ کے چیئرمینوں کی طرح انسانوں کا رقص دیکھتے ہیں اور پھر ان کی زندہ لاشوں اور کچلے وجود کے سسکتے ارمانوں پہ اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔تعلیم و صحت کے دعوے کرتے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور ہسپتالوں کے کرتا دھرتاؤں کی ذہنی پسماندگی ان کے سامنے ہے۔صحت کے حوالے سے اگر کسی نے عوامی خدمات کا جائزہ لینا ہو تو سٹی ہاسپٹل چکر لگا لے۔اک عام’’ نرس ‘‘سے لے کر ’’وارڈ بوائے‘‘ تک ہر بندہ اپنی ’’راجدھانی ‘‘میں شیروں کی طرح حکومت کرتا اور عوام کو غصیلی سرخ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔پہلے لوگ اپنے گھروں کو باہر سے کنڈی لگا کے کہیں جاتے تھے اب گھروں میں رہ کے بھی اندر سے لاک لگاتے ہیں کہ کہیں کوئی’’ چورا’چکا‘‘ نہ آ جائے۔ چھوٹے موٹے واقعات جن میں چوری چکاری اور جیبیں کٹ جاتی تھیں ،ان کا تو ذکر ہی فضول ہے کیوں کہ جہاں گلیوں میں زندہ لوگ پیسوں کی خاطر اپنے جیسے انسان کی جان لیتے نہیں چوک رہے وہاں جیبوں کے کاٹ دینے کا عمل کونسا کبیرہ گناہوں کے زمرے میں پرکھا جائے گا۔نہ تو ہمارے تھانے میں بیٹھے بے چارے مرد مجاہدوں کے پاس وقت ہے کہ وہ سڑک پہ نکلیں نہ ہی اے سی صاحب کو فرصت ہے کہ گلیوں میں کٹ مرتے کیڑے مکوڑوں پہ توجہ دے سکیں۔ڈی پی او صاحب جب ڈنڈا اٹھا لیں تو بہت سے قبلے سیدھے ہو جاتے ہیں مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ سارے ڈنڈے ان کے ہاتھ میں ہیں بھی نہیں۔اور جن کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے انہیں استعمال کی اجازت نہیں۔اور اگر کوئی سر پھر ا پنے اختیارات کاجائز استعمال کر لے تو اسے یہاں ٹکنے نہیں دیا جاتا، سابق اے سی وسیم خان نے جب تلہ گنگ کے حالات سنوارنا چاہے تھے تو بہت سے لوگوں نے روڑے اٹکانا شروع کر دئیے تھے کہ ہمیں یہ تبدیلی نہیں چاہیئے۔اس کے لگائے پودوں کو بے دردی سے نوچا گیا،سڑکوں اور گلیوں کو کھلا کرنے کی خواہش دھری کی دھری رہ گئی۔مین بازار سے ہیوی ٹریفک گزرنے پہ پابندی ہے مگر وسیم خان کے جانے کے بعد نئے اے سی صاحب کی’’ راجدھانی‘‘ میں سب چلتا ہے۔لوگ رش میں پھنس کے حادثوں کا شکار بھی ہوتے ہیں،مریضوں کے لیے جانے والی ایمبولینس کے لیے ٹریفک جام بھی ملتا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے گلیوں میں کھڑے ہو کے لوگوں کی گردن سے خون بھی بہا دیتا ہے۔تلہ گنگ کی عوام کو نہ تو کسی کے نئے پرانے نعرے کی ضرورت ہے،نہ ہی اسے کسی لوٹے کی اک جگہ سے دوسری طرف لڑھکنے سے کوئی دلچسپی ہے۔اسے نہ تو تبدیلی آنے کا اب یقین رہا ہے اور نہ ہی اسے کسی پارٹی کے منشور سے کوئی گلہ ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کو صحیح کھرا کر رہا ہے یا نہیں۔عوام صرف ایک تبدیلی کی خواہش مند ہے کہ انہیں کیڑے مکوڑے نہ سمجھا جائے بلکہ انسان کا ہی درجہ دیا جائے اور انسانیت کے ناطے جو بھی چھوٹے موٹے حقوق بنتے ہیں ان کو ’’فالو‘‘ کرتے ہوئے بازاری لوگوں کے کرائمز اور کاروباری لوگوں کی سیاست سے بچایا جائے،انہیں تحفظ دیا جائے کہ و اپنے گھر تک پیدل جانا چاہیں تو راستے میں شاہراہ پہ کوئی انہیں لوٹے نہیں اور کوئی انہیں مفت کا مال سمجھ کے ان کی گردن نہ توڑے۔اگر برازیل کی تتلیوں کے لیے سال میں اک بار ٹریفک رخ بدل سکتی ہے تا کہ وہ آسانی سے ہجرت کر سکیں ،اگر شگاگو کے کتوں کے لیے قانون پاس ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اگر ان پہ بلا کسی جواز کے سخت ہاتھ سے چھوئے گا بھی تو وہ عدالتی کاروائی بھگتے گا،اگر خود پاکستان میں اعلی شخصیات کے کتوں کا رتبہ عام آدمی سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر اگر ہمارے ایک سرکاری افسر کی تلہ گنگ جیسے پسماندہ علاقے میں رہ کے بھی وسیم خان کے الٹ شاہانہ انداز زندگی ہو سکتے ہیں تو اسی سرکاری آفیسر کی ’’راجدھانی’’ میں عام آدمی کو بھی حق حاصل ہے کہ اسے انسانوں کی کسوٹی پہ پرکھا جائے،اس کو صحت کی سہولیات مکمل اور بروقت ملیں، اسے ایمبولینس گزارنے کے لیے مین تلہ گنگ روڈ کھلی چاہیے اور ہیوی ٹریفک کو بند کر دینے پہ عمل درآمد ہونا چاہیے۔یہ وہ حق ہے جو آزاد جنتے وقت ماؤں نے دیا ہے اور یہ وہ حق ہے جو ہر پیدا ہونے والے کو اس کے خالق نے آزاد پیدا کر کے دیا ہے۔ُُ یہ کہانی ، یہ صورت حال صرف چکوال کی نہیں ہے پورے پنجاب مہیں یہی حال ہے حقیقت تو یہ ہے کہ پوری حکومت عوام سے غافل ہو کر صرف پاناما کیس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ۔ عوام پر کیا گزر رہی ہے کچھ خبر نہیں۔کیس عدالت میں ہے اسے ہر صورت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔اب تو ایک قطری شہزادے کا ایک خط بھی پیش کیا گیا ہے عدالتِ عظمیٰ میں۔یہ خط حکومت کو بچا پاتاہے یا نہیں ، یہ تو وقت ہی بتائے گا کیو نکہ کیس عدالت میں ہے جس پر رائے زنی مناسب نہیں مگر اس موقع پر ایک کہانی یاد آ رہی ہے ایک تھا بادشاہ۔بہت نیک دل۔شفیق اور حلیم۔انصاف پسند اور اپنی رعایا کی خدمت کے جذبات سے سرشار۔اس کے دورِحکومت میں ہر شخص خوش حال اور مطئمن تھا۔ایک بار بادشاہ جیل کا معائنہ کرنے گیا۔اور قیدیوں سے باتیں کیں۔اس نے باری باری ان سے ان کے حالات معلوم کیے۔بادشاہ نے پہلے قیدی سے پوچھا ’’تمہیں کس جرم میں سزا ہوئی؟‘‘قیدی نے جواب دیا مجھے آپ کے سپاہی چوری کے الزام میں پکڑ کر لائے تھے لیکن میں بے قصور ہوں‘‘بادشاہ نے دوسرے قیدی سے بھی یہی سوال کیا۔اس نے بھی اپنے آپ کو بے قصور بتایا۔غرض بادشاہ ہر قیدی سے یہی سوال پوچھتا رہا اور ہر قیدی نے خود کو بے قصور بتایا۔ بادشاہ ہر ایک کی باتیں سن کر مسکراتا رہا۔اچانک بادشاہ کی نظر ایک قیدی پر پڑی جو ایک جگہ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا ۔ بادشاہ نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ’’ اس قیدی کو ہمارے حضور پیش کیا جائے‘‘جب قیدی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے اس قیدی سے پوچھاکہ’’تم منہ کیوں چھپائے بیٹھے ہو؟‘‘ قیدی نے جواب دیا’’میں بے حد گنا ہ گار ہوں میرے گناہوں نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ اپنا منہ دکھا سکوں۔ میں ایک اچھا انسان تھا۔ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا تھا۔ایک بار میرے دل میں شیطان نے گھر کر لیا۔اور میں نے ایک آدمی کے پیسے چرا لیے۔اس کے نتیجے میں جیل بھیج دیا گیا‘‘ بادشاہ نے یہ سن کر سوچا کہ’’ یہاں ہر کوئی اپنے آپ کو بے قصور بتا رہا ہے۔ان میں سب بے قصور نہیں ہوں گے۔ اگر ان کو رہا کیا گیا تو یہ ملک میں بدامنی پھیلائیں گے اس لیے ان کو کسی صورت رہا نہیں کیا جا سکتا۔جب کہ اس آدمی نے اپنے آپ کو گناہگار بتایا ہے اوراپنے کئے پہ شرمندہ بھی ہے۔اگر میں نے اس کو رہا نہ کیا تو یہ دوبارہ اسی راستے پر آ جائے گا ‘‘ یہ سوچ کر بادشاہ نے اس قیدی کی رہائی کی حکم دے دیا۔ بادشاہ جیل سے چلاگیا اور سب باتیں بھول گیا۔بادشاہ کچھ عرصے بعد پھر جیل کا معائنہ کرنے گیااور سب قیدیوں سے باتیں کیں مگراس بار قیدیوں نے گزشتہ دورے پر ہونے والے واقعات اور رہائی پانے والے قیدی کی باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے گناہوں کی تفصیل بڑے مزے لے لے کر بیان کی اور دل ہی دل بہت خوش ہو رہے تھے کہ ابھی بادشاہ سلامت رہائی کے احکامات صادر فرمائیں گے مگر کسی نے سچ کہا ہے کہ نقل کے لیے عقل چاہیے مگر قیدیوں نے صرف رہائی پانے والے قیدی کی باتوں کو مدِنظر رکھااور اسی کی نقالی کی جس کا بادشاہ سلامت پر منفی اثر پڑا اور جب بادشاہ جانے لگا تو اس نے سپاہیوں کوحکم دیا کہ’’ یہ سب قیدی گناہ گار ہیں۔اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑے مزے سے ان کی تفصیل بیان کر رہے ہیں۔لگتا ہے ان پر سزا کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ان سب قیدیوں کی سزا کو بڑھا دیا جائے۔‘‘بادشاہ تو حکم دے کر چلا گیا مگر قیدی ایک دوسرے کو ہکا بکا دیکھتے ہوے دل میں سوچنے لگے کہ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ’’ نقل کے لیے عقل چاہیے‘‘
کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کو یہی ایک خط لے ڈوبے کیو نکہ حکومت اس سے قبل بھی گزشتہ ادوار میں ایسے کام کر کے ریلیف حاصل کر چکی ہے اور اس بار ’’ بادشاہ سلامت‘‘کوئی اور حکم صادر نہ فرما دیں۔ اس لیے ابھی وقت ہے اپنی کچھ توجہ اس غریب عوام پر عنایت فر ما دیں جن کے ووٹوں سے آپ ایوانِ اقتدار تک پہنچے ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/h8rtye7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *