ماں’’ محبتوں کا سر چشمہ‘‘۔۔۔۔ تحریر:آر ایس مصطفی

RS Mustafa
Print Friendly, PDF & Email

لفظ ماں محبتوں کا ایسا آنچل ایسا سمندر ہے جو زندگی کے تمام دکھوں تمام مصیبتوں کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے ، رب کا ئنات کی بیشمار نعمتوں نوازشوں اور احسانات میں سے ایک نعمت اور نوازش والدین کا رشتہ ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں غرض اور لالچ ہوسکتی ہے مگر ماں کا رشتہ بے غرض اور لالچ سے پاک ہے۔رب کا ئنات نے جب انسان سے اپنی محبت کا ذکر کیا تو اس کے لئے ماں کی محبت سے تشبیہ دی اس لئے ماں کی محبت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے پاس ایک صحابیؓ آئے اور پوچھا کہ میں نے اپنی معذور ماں کو کندھوں پر بٹھا کر حج کروایا کیا میرا حق ادا ہوگیا؟حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ ابھی تو اس ایک رات کا بھی حق ادا نہیں ہوا کہ جب تو نے بستر گیلا کر دیا تھا اور تجھے تیری ماں نے خشک جگہ پر سلایا اور خود گیلے میں سوئی‘‘۔ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کواگر اولاد مسکرا کر دیکھے تو حج کا ثواب ملتا ہے یہ ماں کی ہی عظمت ہے کہ رب تعالی نے ماں کے قدموں تلے انسان کی جنت کو رکھا۔ایک ایسی ہستی جو ا پنی اولاد کیلئے خودتکلیف سہتی ہے مگر اپنی اولاد پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔اگر اولاد کو کوئی پریشانی ہو تو ماں بے چین ہوجاتی ہے اور دعائیں کرتی ہے کہ اے اللہ میرے بچے کی ساری پریشانیوں کو ختم کردے چاہے میری بچے کے تمام غم مجھے دے دے مگر میرے بچے کو اس دنیا کے غموں سے آزاد کردے۔ماں بچے کے لئے ٹھنڈے سائے مترادف ہے۔بو علی سینا کہتے ہیں کہ میں نے دنیا میں محبت کی اعلی مثال تب دیکھی جب سیب چار تھے مگر کھا نے والے پانچ تب میری ماں نے کہا کہ مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔ماں وہ ہستی ہے جو خود بھوکا رہ لے گی مگر بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر کھلاتی ہے ،خود گیلے میں سو لے گی مگر اپنے بچے کو خشک جگہ سلائے گی۔ ماں کی محبت وہ سمندر ہے جس کو کوزے میں بند کرنا ناممکن ہے۔
ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام نے پوچھا یا اللہ! میر ا جنت کا ساتھی کون ہے تو فرمایا کہ فلاں قصائی، قصائی کا پتہ بتایا، نہ کسی ابدال کا، نہ کسی قطب کا، نہ کسی شہید کا، نہ محدث کا، کہا کہ فلاں قصائی! حضرت موسیٰ ؑ حیران ہو گئے، پھر اس قصائی کو دیکھنے چلے گئے قصائی بازار میں بیٹھا گوشت بیچ رہا تھا۔ شام ڈھلی تو اس نے دکان بند کی اور گوشت کا ٹکرا تھیلے میں ڈالا اور گھر چل دیا، موسیٰ ؑ بھی ساتھ ہو گئے۔ کہنے لگے بھائی مسافر ہوں آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں قصائی نے کہا ٹھیک ہے آ جائیں اب اس کو نہیں پتا تھا کہ یہ موسیٰ ؑ ہیں۔ قصائی آپ کو ساتھ لے کر گھر پہنچا اس نے بوٹیاں بنا کر سالن چڑھایا، آٹا گوندھا، روٹی پکائی، سالن تیار کیا، پھر ایک بڑھیا تھی اسے اٹھا کر کندھے کا سہارا دیا، سیدھے ہاتھ سے لقمے بنا بنا کر اسے کھلائے اس کا منہ صاف کیا اس کو لٹایا، وہ کچھ بولی بڑبڑائی، موسیٰ ؑ نے پوچھا یہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ میری ماں ہے صبح کو اس کی ساری خدمت کر کے جا تا ہوں اور رات کو آ کر پہلے اس کی خدمت کرتا ہوں، اب اپنے بیوی بچوں کو جا کر دیکھوں گا۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا یہ کچھ کہ رہی تھی؟ کہا ہاں جی! روز کہتی ہے عجیب بات ہے، میں روز اس کی خدمت کرتا ہوں تو کہتی ہے اللہ تجھ کو جنت میں موسیٰ ؑ کا ساتھی بنائے، میں قصائی کہاں اور موسی علیہ السلام کہاں؟
ماں کا دل اولاد کی ذرا سی تکلیف اور پریشانی پر یوں تڑپ اٹھتا ہے جیسے کوئی مصیبت آپڑی ہو،ماں کی یہ تڑپ انسان اور حیوان میں یکساں پائی جاتی ہے مگر یہی اولاد ماں کی دوائی کی پرچی اکثر کھو دیتی ہے مگر وصیت کے کاغذات کو بہت سنبھال کر رکھتی ہے۔ خدارا اللہ رب العزت کی اس نعمت کو ناراض مت کیجئے ،محبت و خلوص کے اس رشتے کی قدر کیجئے۔اللہ پاک ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق دے آمین

Short URL: http://tinyurl.com/hnm82k7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *