قانون اور انصاف

Rehmat Ullah Baloch
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رحمت اللہ بلوچ

اسوقت ہم جس قانون کی بات کررہے ہیں اسے مثبت قانون سے یاد کرینگے یعنی وہ قانون جسکا اعلان کیا جاتا ہے اور جس کا نفاذ کیا جاتا ہے وہ قانون جسے عدالتیں تسلیم کرتی ہیں اور عدالتوں کی عمل سے اسے پوری طرح تیزی کے ساتھ نافذ کر دیا جاتا ہے مثبت قانون کی وضاحت خاص بحث طلب ہے کیونکہ یہ بہت سے شعبوں پر محیط ہوتا ہے قانون کس کس انداز میں کام کرتا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ کچھ تو ابتدائی یعنی آئینی قوانین ہوتے ہیں اور کچھ اسکے ثانوی یعنی عام قانون ہوتے ہیں اگر انھیں مزید تقسیم کردیا جائے تو کچھ جرائم سے متعلق””فوجداری قانون““ ہوتے ہیں اور کچھ عام مقدمات سے متلق””سیول““قوانین ہوتے ہیں مگر مجموعی طور پر لیا جائے تو ایک جسم کی صورت میں یہ سب مثبت قانون کے دائرے کے اندر آتے ہیں یعنی وہ قانونی ضابطے جو پہلے نافذ کئے جاتے ہیں اسکے بعد ان پر عمل کیا جاتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قدرتی قانون نہیں؟ جو چیزوں کی نوعیت کے مطابق ہو یہ خاص پرانا سوال ہے ارسطو نے اسکا جواب اسطرح دیا ہے کہ”” مخصوس قانون““ وہ ہے جو انسانی برادری اپنے اراکین کیلئے بناتی اور اسکا اعلان کرتی ہیں اور””عالمی قانون““وہ ہے جو سب انسانوں کیلئے ہے صحیح اور غلط ہر جگہ پر ہے اس قانون کی بنیاد اسی صحیح اور غلط کی بنیاد پر رکھی گئی ہے یہ ہر شخص میں نظر آتی ہے حتی کہ جہاں سماجی معاشرہ نہیں ہے اور جہاں کوئی برادری آباد نہیں ہے یہ قانون وہاں بھی موجود ہے اس جواب کی مزید صراحت معروف فلسفی زینونےکی پھر یہ صراحت روم تک پہنجی اسطرح روم کی عدالتوں میں سول لاء کے ساتھ ساتھ یہ””قدرتی قانون““بھی نافذالعمل ہوا اسکی تعریف یوں بیان کی جا سکتی ہے وہ قانون جو انسانی برادری پر اسکی عام فطرت کی مطابقطت سے نافظ کیا جائے اسے عام فطرت کے پیش نظر انسانی ضروریات اور انسانی امنگوں کے مطابق نافظ کیا جاتا ہے قانون قدرت کے حق میں نظریات رکھنے والوں کے مطابق جب بھی ایسا کوئی الجھاٶ پیدا ہوا ہے تو فتح قدرتی قانون کو ہوئی ہے قدرتی قانون عام قانون سے بہتر افضل ہے اور اعلی درجہ رکھتا ہے اگر عام قانون قدرتی قانون سے ہٹ کر بنایا جائے تو وہ زیادہ دیر حد تک قابل عمل نہیں رہ سکتا لیکن قدرتی قانون کے حق میں اس دلیل کے باوجود تشنگی موجود رہتی ہے ایک تو یہ قدرتی قانون کیلئے کوئی مسلمہ یا حتمی فیصلہ کیلئے کوئی عدالتوں میں نافذ کرنے کا مکمل عملی طور جدوجہد نہیں ہوا اور جماعتوں میں اجتماع نہیں ہے اسوجہ سے قدرتی قانون نافذ نہیں ہو پا رہا ہے قدرتی قانون انسان کو انصاف بر حق بروقت توانا انصاف فراہم کرتا ہے نیز جو قانون ریاست میں نافذ ہے ہم پرریاست کے ایک باشندے کی حیثیت سے اس قانون کی پابندی اور اسکا اطاعت ہم پر لازم ہوجاتی ہے یہ قانونی طور پر اطاعت نہ صرف قانونی اور بیرونی پابندی کے تحت ہے نہیں بلکہ ہمارا اخلاقی اور اندرنی طاقت یا کساہٹ کے تحت بھی لازم ہے کیونکہ یہ قانون حقیقتاً کام کررہا ہے اور حقیقتاً موثر ہے%%

Short URL: http://tinyurl.com/y5re85sz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *